عفو کا لغوی مطلب ہے مٹادینا، محو کردینا اور اصطلاح میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے کی زیادتی پر درگزر کیا جائے، اس کے برے سلوک کے جواب میں برا سلوک اختیار نہ کیا جائے اور دل سے اس کی زیادتی کے خیال کو نکال دیا جائے، گویا کہ اس نے زیادتی کی ہی نہیں۔
بلاشبہ یہ کام بے انتہا مشکل ہے مگر جتنا مشکل ہے اتنا ہی ضروری بھی ہے۔ کیونکہ اگر انسانی معاشرے میں سے عفو و درگزر ختم ہوجائے تو انسان کے دکھ اتنے زیادہ بڑھ جائیں کہ زندگی اس کے لیے وبال ہوکر رہ جائے۔
جب ایک انسان دوسرے کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور دوسرامعاف کردینے کے بجائے اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیتا ہے تو پہلا پھر دوسرے کو ظالم قرار دے کر اور زیادہ زیادتی پر آمادہ ہوتا ہے۔ دوسرے نے جب پہلی بار ہی صبر نہیں کیا تھا تو اب دوسری بار کیسے کرسکتا تھا۔ وہ اسے پہلے سے بھی بڑھ کر سخت جواب دیتا ہے، یہاں تک کہ ان دونوں کی ناچاقی کا زہر دور دور تک پھیل جاتا ہے، کیونکہ بات ان دو تک ہی نہیں رہتی بلکہ اکثر و بیشتر دونوں کے متعلقین بھی اس شرمناک جنگ میں شریک ہوجاتے ہیں اور جو بھی اس میں شریک ہوتا ہے، وہ دل کی جلن، پریشانی، قلق، بے چینی اور اضطراب کا شکار ہوتا جاتا ہے۔ اب اگر ابتداء ہی میں کسی ایک نے زہر کا گھونٹ پی کر عفو و درگزر سے کام لے لیا ہوتا تو اتنے غم اور اضطراب کے پھیلنے کی نوبت کیوں آتی!
لہٰذا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اہلِ اسلام کو تاکید کے ساتھ عفو ودرگزر کا حکم دیا ہے۔ سورۃ البقرۃ آیت ۱۰۹ میں فرمایا گیا ہے:
فاعفوا واصفحوا حتی یأتی اللّٰہ بامرہ۔
’’پس تم معاف کرو اور درگزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذکردے۔‘‘
چونکہ وہ رحیم و کریم مالک خود بخشش اور درگزر سے بہت زیادہ کام لیتا ہے، اس لیے اُس نے انسانوں کے لیے بھی یہی پسند فرمایا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خطاؤں کو معاف کرتے رہیں۔
دوسری جگہ مومنین کی خوبیاں اور اوصاف گناتے ہوئے ان کی ایک اہم خوبی ’’والعافین عن الناس‘‘ (لوگوں سے عفو ودرگزر کرنے والے) بیان کی گئی ہے۔
عبداللہ بن قیس بیان کرتے ہیں کہ رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا کہ تکلیف دہ بات سننے کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ صابر کوئی نہیں۔ لوگ (یہاں تک گستاخیاں کرتے ہیں کہ) اس کا شریک ٹھہراتے ہیں اور اس کے لیے اولاد قرار دیتے ہیں اور وہ اس کے باوجود انھیں رزق دیتا ہے۔ انھیں تندرستی عطا کرتا ہے اور انھیں (دیگر نعمتیں بھی) مرحمت فرماتا ہے۔(مسلم)
حضورﷺ کے اپنے درگزر کا کیا عالم تھا، اسے ذیل کی احادیث واضح کرتی ہیں۔
ابوعبداللہ جدلی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے رسولِ خدا ﷺ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ حضورﷺ نہ طبعاً فحش گو تھے نہ آپؐ ارادۃً فحش گو بنتے یا فحش کام کرتے۔ نہ آپؐ بازاروں میں شوروغل کرتے تھے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ آپؐ معاف کردیا کرتے اور درگزر فرماتے تھے۔ (ترمذی)
حضرت اسامہؓ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ خدا ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے، جس پر ایک چادر پڑ ی ہوئی تھی اور مجھے اپنے پیچھے سوار کرلیا۔ آپؐ بنو حارث بن خزرج (کے محلے) میں حضرت سعدؓ بن عبادۃ (انصاری) کی عیادت کو جارہے تھے۔ یہ جنگِ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آپؐ ایک مجلس کے پاس سے گزرے، جس میں عبداللہ بن ابی بن سلول بیٹھا ہوا تھا۔ یہ عبداللہ بن اُبی کے (ظاہراً) اسلام لانے سے پہلے کی بات ہے۔ اس مجلس میں ملے جلے لوگ بیٹھے تھے۔ مسلمان بھی تھے اور بتوں کو پوجنے والے مشرک بھی اور یہودی بھی اور اسی مجلس میں حضرت عبداللہ ؓبن رواحہ بھی تھے۔ جب (حضورﷺ کی) سواری کی گرد مجلس پر پڑی تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک پر چادر رکھ لی اور کہا کہ ہم پر گرد نہ اُڑاؤ۔ رسولِ خدا ﷺ نے ان لوگوں کو سلام کیا۔ پھر آپؐ ٹھہر گئے اور سواری سے نیچے اترآئے۔ پھر اُن لوگوں کو خدا کی طرف بلایا اور اُن کے سامنے قرآن پڑھا۔ اس پر عبداللہ بن ابی بن سلول (گستاخانہ) بولا کہ اے شخص جو کچھ تم کہتے ہو اگر یہ حق ہے تو پھر اس سے بہتر کچھ نہیں۔ مگر ہماری مجلس میں آکر ہمیں یہ بات سنا کر تنگ نہ کیا کرو۔ اپنے گھر جاؤ اور جو کوئی تمہارے پاس آئے اسے سنایا کرو۔
اس پر عبداللہؓ بن رواحہ بول اٹھے کہ ’’ہاں یا رسول اللہ! آپؐ ہماری مجالس میں آکر ہمیں یہ بات سنایا کریں کیونکہ ہم اسے بہت پسند کرتے ہیں۔‘‘
اس پر مسلمان، مشرک اور یہودی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے۔ یہاں تک کہ قریب تھا کہ ایک دوسرے پر حملہ کردیں اور حضورؐ برابر انھیں ٹھنڈا کرتے رہے یہاں تک کہ وہ پرسکون ہوگئے۔ پھر حضورﷺ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور چلے، یہاں تک کہ حضرت سعدؓ بن عبادہ کے پاس پہنچے۔ حضورﷺ نے ان سے فرمایا کہ اے سعدؓ! کیا تم نے سنا نہیں کہ ابوحباب نے کیا کہا۔ آپؐ کی مراد عبداللہ بن اُبی تھا۔ آپؐ نے (حضرت سعدؓ کو) بتایا کہ اس نے ایسے اور ایسے کہا۔ اس پر حضرت سعد ؓ بن عبادہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ؐ اسے معاف کردیجیے، اور اس سے درگزر کیجیے۔ پس قسم ہے، اس ہستی کی جس نے آپؐ پر کتاب نازل کی ہے کہ اللہ اس حق کو لے آیا ہے جو اس نے آپؐ پر نازل کیا تھا (بات یہ ہے کہ آپؐ کے تشریف لانے سے پہلے) اس شہر کے لوگ طے کرچکے تھے کہ اسے سردار بنالیں اور اس کے سر پر سرداری کا عمامہ باندھ دیں۔ پھر جب خدا کو یہ منظور نہ ہوا بہ سبب اس حق کے (یہاں آجانے کے) جو خدا نے آپؐ کو عطا کیا تھا، تو اس کو یہ بات سخت ناگوار گزری۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے وہ حرکت کی جو آپؐ نے دیکھی۔ (حضرت سعدؓ بن عبادہ کی بات سن کر) حضورﷺ نے عبداللہ بن اُبی کو معاف کردیا اور نبی ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ ( کا یہی طریقہ تھا کہ وہ ) جیسا کہ اللہ نے انھیں حکم دے رکھا تھا، مشرکوں اور اہلِ کتاب کو معاف کردیا کرتے تھے اور اُن لوگوں کی اذیت (دینے والی باتوں) پر صبر کیا کرتے تھے۔ (بخاری)
یہ معافی صرف اس کی زندگی ہی تک نہ تھی بلکہ جب اس گستاخ انسان کی موت نے اسے آلیا تو بھی حضورؐ نے اس پر مہربانی ہی فرمائی۔
حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ خدا ﷺ عبداللہ بن ابی کی بیماری میں اس کی عیادت کو تشریف لے گئے (یہ وہ بیماری تھی) جس میں (پھر) وہ مرگیا تھا۔ جب آپؐ اُس کے پاس آئے تو سمجھ گئے کہ اب یہ مرجائے گا۔ آپؐنے اس سے فرمایا کہ میں تمھیں یہودیوں کے ساتھ محبت رکھنے سے منع کیا کرتا تھا ( وہ اس وقت بھی گستاخی سے باز نہ آیا اور ) بولا کہ اسعد بن زرارۃ اُن سے نفرت کرتا تھا تو پھر کیا ہوا (وہ بھی تو مرہی گیا) پھر جب عبداللہ بن اُبی مرگیا تواُس کا (مسلمان) بیٹا حضورﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے خدا کے نبیﷺ (میرا باپ) عبداللہ بن اُبی وفات پاگیا ہے۔ آپؐ مجھے اپنی قمیص عنایت فرمائیں کہ میں اسے اس کا کفن دوں۔ اس پر حضورؐ نے اپنی قمیص اتار کر اسے دے دی۔ (ابوداؤد)
غرض کہ اسلام میں زیادتی کرنے والے کی زیادتی کو معاف کردینے کی بہت فضیلت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر زیادتی کرنے والے سے واجبی بدلہ لے لیا جائے تو اس کی بالکل اجازت ہے۔ تاہم معاف کردینے والے کو زیادہ فضیلت حاصل ہے۔
سورۃ النحل آیت ۱۲۶ میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
’’اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اُسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو، لیکن اگر تم صبر کرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے۔‘‘
ایسے ہی سورہ الشوریٰ آیت ۴۰ میں فرمایا گیا ہے:
’’برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پھر جو کوئی معاف کردے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ بے شک اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
ان آیات سے ایک تو یہ واضح ہوتا ہے کہ بدلہ لینے کی اجازت کے باوجود معاف کردینا بہرحال بہتر ہے اور دوسرے اس بات کی وضاحت بھی ہوجاتی ہے کہ بدلہ لینا بھی ہو تو بس اتنا ہی لیا جاسکتا ہے جتنی زیادتی کی گئی ہو، اس سے بڑھ کر نہیں لیا جاسکتا۔
سید عبدالقادر جیلانیؒ کا ارشاد ہے: ’’درگزر اور رفعِ شر کی عادت اختیار کرو۔ بات سے بات نکل آتی ہے۔ اگر کوئی تجھے ایک بات کہے گا اور تو اس کا جواب دے گا، تو بات بڑھ جائے گی اور تم دونوں میں جھگڑا ہوجائے گا۔‘‘
حضرت علیؓ کا فرمان ہے ’’جب اپنے دشمن پر قابو پاؤ تو اسے معاف کرکے نعمت کا شکر ادا کرو۔‘‘
——