عام اخبار بیں حضرات نے روپرٹ مرڈوک اور ریبکا بروکس کا نام شاید پہلے سنا یا پڑھا نہ ہو، لیکن میڈیا سے تعلق رکھنے والے ان دونوں شخصیات کو بہ خوبی جانتے ہیں۔ روپرٹ مرڈوک کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ میڈیا کے شہنشاہ رہے ہیں اور عالمی میڈیا کے میدان میں ان کی بادشاہت کا ڈنکا بجتا رہا ہے۔ قارئین نے گزشتہ دنوں ایک خبر پڑھی ہوگی کہ لندن کا ایک اہم ترین صحافتی رسالہ ’’دی نیوز آف ورلڈ‘‘ بند ہوگیا ہے۔ یہ رسالہ مرڈوک کے میڈیا ادارے سے ہی شائع ہوتا تھا۔ اچانک یہ رسالہ اس لیے بند ہوگیا کیونکہ مرڈوک کے میڈیا ادارے اور خاص طور سے مذکورہ رسالے کی ایڈیٹر ریبیکا بروکس کا ایک ایسا سنگین معاملہ سامنے آگیا تھا جس نے نہ صرف میڈیا بلکہ برطانیہ کے ایوان میں زلزلہ پیدا کردیا ہے۔ دراصل اس ادارے پر یہ الزام ہے کہ وہ نائن الیون کے حادثے سے متاثرین کے سیل فون پر آنے والی کالس کو ہیک کرتا رہا ہے۔
مرڈوک جو ’’نیوز کارپوریشن‘‘ کے بانی اور چیف ایگزیکٹیو ہیں، اس کے تحت کئی اخبارات، ٹی وی، فلم اور ایڈورٹائزمنٹ کے ادارے چل رہے ہیں۔ یو ایس کیبل نیٹ ورک، فاکس نیوز چینل، اور ٹائمس بھی اسی ادارے کے تحت ہیں۔ مرڈوک دراصل آسٹریلیا کے باشندے ہیں جنھوں نے ۱۹۸۵ء میں امریکی شہریت اس لیے اختیار کرلی تھی تاکہ امریکی ٹیلی ویژن اسیٹشنوں کو خرید سکیں۔
اگرچہ صحافت اور میڈیا کے میدان میں انتہائی آگے نکل جانے کا عزم انھیں امریکہ لے آیا تھا، اور اس مقام تک پہنچے بھی، لیکن فی الحال ان کاادارہ جس بحران سے دوچار ہوا ہے، اور جس کی وجہ سے انھیں اپنا رسالہ بند کرنا پڑا ہے، اس کی وجہ رسالے کی ایڈیٹر ریبیکا بروکس کو بتایا جارہا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’دی نیوز آف ورلڈ‘‘ میں بطور سکریٹری ملازمت اختیار کی تھی۔ اس وقت اس کی عمر محض ۲۰؍سال تھی ، لیکن جلد ہی اس نے اپنی ذہانت اور چالاکی سے مرڈوک تک رسائی حاصل کرلی۔ چنانچہ وہ جلد ہی ’دی سن‘ کی ایڈیٹر بنادی گئی اور آخر کار ۲۰۰۹ء میں چیف ایگزیکیٹو آفیسر بنادی گئی۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی سخت مزاج اور ضدی قسم کی عورت ہے۔ اس لیے اس کا اپنے شوہر کے ساتھ بھی نباہ نہیں ہوسکا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خبروں کے حصول کے لیے وہ کوئی بھی جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرسکتی ہے۔ اہم ترین سیاسی لیڈروں کو بھی اس نے اپنے شیشے میں اتار رکھا تھا۔
’’دی نیوز آف ورلڈ‘‘ بند ہوجانے کے بعد اگرچہ ایف بی آئی اس کے متعلق تفتیش میں سرگرم عمل ہے اور اس کی تحقیقات بڑے پیمانے پر ہورہی ہیں، لیکن یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ انھوں نے رسالے کے عملے اور متعلقین کو جاتے جاتے مالا مال کرکے ان کی زبان بندی کا پہلے انتظام کرلیا ہے۔ چنانچہ سینئر صحافیوں کو ۲۵ کروڑ روپے اور فائنل ایڈیٹر کو ۱۴؍کروڑ روپے دیے گئے ہیں۔ اور اس کے عوض ان سے یہ توقع کی گئی ہے کہ وہ کسی بھی حال میں اور کسی بھی موقع پر اپنی زبان نہیں کھولیں گے۔
اس سانحے کے بعد جہاں میڈیا کی اخلاقیات کے تعلق سے سوالات اٹھنے لگے ہیں، اور میڈیا کی اخلاقیات کو وضع کرنے اور ان میں اصلاحات کی باتیں ہورہی ہیں، وہیں اس سانحے سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ میڈیا عوام کو خبریں پہنچانے کے بجائے اب لوگو ںکے گھر میں گھس کر ان کی جاسوسی بھی کرنے لگا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر میڈیا کا یہ طرزِ عمل عام ہوگیا تو جمہوریت کا یہ رکن عوام کا مدد گار بننے کے بجائے ان کے لیے وبالِ جان بن جائے گا۔
——