منظر بڑا تکلیف دہ تھا، موٹر سائیکل سوار سڑک کے کنارے کھڈے میں گرگیا تھا۔ ہمارے سامنے کار نے ٹکر ماری اور بغیر رکے سڑک پر دوڑتی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ ہم کار پر سوار تھے۔ یہ منظر دیکھ کر رک گئے۔ یہ ملک کی معروف سڑک تھی، ہم تفریح کے لیے ایک پرفضا مقام جارہے تھے۔ ابھی جائے وقوعہ پر پہنچے تھے کہ ایک آدمی وہاں آگیا شاید اس نے بھی یہ حادثہ دیکھا ہو۔ کھڈا اتنا گہرا نہیں تھا۔ اسے بآسانی نکال کر ہسپتال پہنچایا جاسکتا تھا تاکہ فرسٹ ایڈ دی جاسکے۔
ہم نے اس بھائی سے گزارش کی کہ وہ ہماری مدد کرے۔ اس نے پرسکون لہجے میں کہا:’’بھائی کہاں سے آئے ہو؟‘‘ ہم نے کہا کہ دلی سے آئے ہیں۔کہاں جاؤگے، تو ہم نے بتایا کہ دہرہ دون جانا ہے۔ تو اس نے کہا ’’آپ نے کتنے دن تیاری میں لگائے ہوں گے۔ بجٹ تیار کیا ہوگاپھر سیر کے لیے آئے ہیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا گھومنے کا پروگرام بے مزہ ہوجائے اور آپ آئے دن تھانے کچہری کے چکر لگاتے رہیں؟‘‘
ہم نے کہا نہیں بھئی! اس نے کہا کہ ہم زخمی کو ہسپتال لے جاتے ہیں۔وہاں ہم سے یوں پوچھ گچھ ہوگی جیسے ہم نے ایکسیڈنٹ کیا ہے۔ یہ المیہ ہے۔ وہاں سے جان تب چھوٹے گی، جب تک پولیس نہیں آجاتی، وہاں بیانات نقشہ وقوعہ، شناختی کارڈ اور مکمل پتہ دے کر باہر آئیں گے تو پھر سمن اور حاضریاں شروع۔
لگتا تھا وہ کسی ایسی ہی نیکی کا ڈسا ہوا تھا۔ اگر زخمی ایسا ویسا فرد نکلا تو اس کی سونے کی چین انگوٹھی یا پرس سے پچیس تیس ہزار روپئے غائب کرنے کا الزام لگا جائے گا۔ بات تو اس کی ٹھیک تھی۔ آئے دن ایسے واقعات سننے میں آتے ہیں۔ اگر کوئی مخلص ہے تو کوئی دوسرا ہاتھ دکھا جاتا ہے۔
آہستہ آہستہ رش بڑھنے لگا۔ آتی جاتی گاڑیاں رک رک کر پوچھنے لگیں کہ کیا معاملہ ہوا؟ کسی اللہ کے بندے نے ہائی وے پٹرولنگ والی گاڑی کو فون کردیا۔ کچھ دیر بعد سائرن بجاتی گاڑی آئی۔ زخمی کو کھڈے سے نکالا اور ہسپتال روانہ ہوگئی۔ اس طرح وہ بے چارا مریض چالیس پچاس منٹ تڑپتا رہا اور ہم بے بسی کی تصویر بنے دیکھتے رہے۔
دوسرا واقعہ بھی ایسا ہی ہے جو ہمارے معاشرے کے منہ پر کلنک کانشان ہے۔ عیدالفطر سے ایک دن پہلے ہاپوڑ بائی پاس پر ایک موٹر سائیکل، ٹریلر سے ٹکرا کر اس کے نیچے گھس گئی۔ اس کی وجہ سے موٹر سائیکل سوار کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ کسی نے اس کی ٹانگوں کو کس کر باندھ دیا مگر کوئی اسے اٹھا کر ہسپتال لے جانے کو تیار نہ ہوا۔ وہاں بھی ہمارا اندھا قانون آڑے آیا۔ ہر ایک کو ٹائم، عزت اور پیسہ پیارا ہے۔
کسی نے فون کیا، ہائی وے پولیس کی گاڑی آئی۔ اسے اٹھا کر ہسپتال لے گئی۔ جانے ہمارا قانون لوگوں کے لیے مصیبت بننے کی بجائے ان کے لیے رحمت کب بنے گا؟
——