اسلام نے شادی کو دلوں کا سکون حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ سورہ اعراف آیت نمبر ۱۸۹ میں فرمایا کہ
’’وہ جس نے تمہیں ایک جان سے پیداکیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ تم اس کے پاس سکون حاصل کرو۔‘‘ لیکن آج کے موجودہ دور میں ہم نے شادی جیسی سنت میں بے جا رسوم کو داخل کرکے دلوں کے سکون کو بجائے سکون کے دلوں کا بوجھ بنالیا ہے۔ اور ان بے جارسوم میں سب سے اہم اور عظیم رول جہیز کا ہے۔
دراصل یہ جہیز ایک غیر اسلامی عمل ہے۔ جہیز کی ابتداء دراصل ہندو سماج سے ہوتی ہے کیونکہ ہندو دھرم میں وراثت کی تقسیم بیٹیوں میں نہیں ہوتی، بلکہ صرف بڑے بیٹے کو تمام جائیداد کا وارث بنایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے باپ اپنی لاڈلی بیٹی کو اپنی زندگی میں کچھ دینے کے لیے مختلف حیلے، بہانے تلاش کرتا ہے اور ان حیلوں اور بہانے کو پورا کرنے کے لیے وہ مختلف رسوم دھیج، ٹیکا، چوتھی، راکھی وغیرہ کو اپناتا ہے۔
چنانچہ اس غیر اسلامی اور ہندوانہ رسم کو سند جواز عطا کرنے اور اسلامی سرٹیفکٹ دینے کے لیے مسلمانوں نے اس جہیز کو رسولؐ کی سنت قرار دے ڈالا۔
اور اس کے لیے لوگ حضرت فاطمہؓ کے نکاح کا حوالہ دیتے ہیں کہ رسولؐ نے حضرت فاطمہؓ کو شادی کے موقع پر جہیز دیا تھا، لیکن یہ سراسر غلط اور حضورﷺ پر ایک بہتان ہے۔
دراصل حقیقت یہ ہے کہ حضرت علیؓ سے حضرت فاطمہؓ کا نکاح طے ہونے کے بعد حضورﷺ نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ ’’آپ کے پاس گھریلو ضروریات کے لیے کیا سامان ہے؟‘‘
حضرت علیؓ نے عرض کیا: ’’ایک گھوڑا، ایک تلوار اور ایک زرہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔‘‘
تب حضورﷺ نے زرہ کو فروخت کرنے کا حکم دیا۔ اور اس کو حضرت عثمان غنیؓ نے ۴۸۰ درہم میں خریدا۔ اور اس میں سے کچھ درہم خرچ کرکے حضورؐ نے وہ سارا سامان خریدوایا جس کو لوگ’’جہیز فاطمی‘‘ کا ’’نام‘‘ دیتے ہیں۔
حضورؐ نے نکاح کو اتنا آسان بنایا تھا کہ چند عورتیں جاکر دلہن کو بیاہ کر لے آتی تھیں۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ اپنی شادی اتنی سادگی سے کرتے تھے کہ جس میں کسی قسم کا اسراف اور لایعنی خرچ نہ ہوتا تھا۔
لیکن آج ہمارے معاشرے میں نکاح جو آسان ہے اسے اس قدر مشکل بنادیا گیا ہے، جیسے بازاروں میں جس طرح مختلف چیزوں کے ریٹ مقرر ہیں اسی طرح لڑکوں کے ریٹ بھی مقرر ہیں۔ میٹرک پاس، بی اے پاس، ایم اے، بزنس مین، سرکاری نوکر، سرکاری افسر کے لیے اتنی اتنی جوڑے کی رقم اور فلاں گاڑی۔ لڑکے اپنی تعلیم اور نوکری کے لحاظ سے بکاؤ مال اور لڑکی والے خریدار بن گئے ہیں۔
جس طرح دور جاہلیت میں لڑکی کی پیدائش باعث شرمندگی اور رنج و غم کا موجب سمجھی جاتی تھی اس دورِ جدید میں بھی لڑکی کی پیدائش، رنج و غم اور مال کی بربادی کا باعث عملاً بنی ہوئی ہے۔ آئے دن ہمارے کانوں میں نیا واقعہ سننے میں آتا ہے کہ جہیز کی خاطر فلاں لڑکی کو قتل کردیا گیا، فلاں کی شادی ٹوٹ گئی، فلاں نے خود کشی کرلی، فلاں نے خود سوزی کرلی، وغیرہ وغیرہ۔
جہیز کی لعنت نے ہر گھر کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے اس کے باوجود اس کی لعنت میں مزید اضافہ ہی ہورہا ہے کیونکہ ہمارے اندر اور ہمارے نظریے میں ایک قسم کی منافقت اور دو رنگی کی کیفیت بھی ہے۔ جہیز کی مخالفت میں تحریریں بھی لکھی جاتی ہے، تقریریں اور سیمینار بھی ہوتے ہیں عام افراد سے لے کر مذہبی لیڈر اور علماء تک اس کی مذمت کرتے ہیں، لیکن عملی اظہار کا موقع آتا ہے تو اپنے ہاتھ پھیلائے اور منہ کھولے بیٹھ جاتے ہیں اور اس جہیز کو تحفہ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔
اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت اختیار کی ہے، جس کی وجہ سے ہم ان بے جا رسوم میں ملوث ہوکر بنی اسرائیل کی طرح اپنے لیے آسانی کی بجائے تنگی اختیار کرلی ہے۔
اللہ تعالیٰ سورہ انفال آیت ۲۵ میں فرماتا ہے:
’’بچو! اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جس نے تم میں سے گناہ کیا۔ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘
جہیز کی ابتداء کرنے اور اس کو فروغ دینے والے تو اللہ کے عذاب میں ملوث ہوں گے ہی لیکن ان کے ساتھ ساتھ سماج کے کمزور افراد بھی اس عذاب کا حصہ بنیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس جہیز کی لعنت سے بچیں۔
——