مرکزی خیال: غربت اور تنگ دستی کے ہاتھوں معاشرے میں ہونے والی نا انصافیاں۔
کردار: ماں، بیٹی نائلہ، بیٹا اسد، محلے کی عورت، ایدھی اہلکار
پہلا سین: ۶ سالہ نائلہ اور ۵ سالہ اسد کمرے میں پیٹ پکڑے لیٹے ہوئے ہیں اور چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہیں۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ اسد بھاگ کر دروازہ کھولتا ہے۔ سامنے امی افسردگی اور امید کی کیفیت میں اندر داخل ہوتی ہیں۔
اسد امی کو خالی ہاتھ دیکھ کر: امی! اب بھوک سے رہا نہیں جارہا، پیٹ میں شدید درد ہورہا ہے۔
نائلہ: امی! آج دوسرا دن بھی گزرگیا کچھ کھانے کو نہیں ملا، اللہ ہماری دعا کب سنے گا؟
امی: بیٹی ایسے نہیں کہتے، میں نے تم لوگوں سے کہا تھا کہ صبر کرو، اللہ کوئی نہ کوئی وسیلہ پیدا فرمادیں گے، دیکھو آج میں زرینہ سے مل کر آرہی ہوں، وہ بتارہی ہے، ہفتے کو جوڑ یا بازار میں مفت راشن ملے گا۔
نائلہ اور اسد: (حیرت سے) امی مفت راشن اور بریانی؟
امی: جی بیٹا اور اس کے ساتھ بریانی کی تھیلی بھی ملے گی، تم دونوں خوش ہوجاؤ۔
نائلہ: امی ہم بھی آپ کے ساتھ جائیں گے ناں!!
امی: نہیں بیٹا! آپ دونوں گھر پررہنا، میں ایک گھنٹے میں واپس آجاؤں گی۔
دوسرا سین: امی بچوں سے ایک گھنٹے کا کہہ کر گئی تھیں اور ۴ گھنٹے گزرجانے کے باوجود واپس نہیں آئیں۔
نائلہ: بھائی سات بج گئے، امی کہاں رہ گئیں؟ آؤ ہم دونوں دعا کرتے ہیں کہ امی آجائیں۔
دونوں دعا کرنے لگتے ہیں، اتنے میں دروازے پر دستک ہوتی ہے۔
نائلہ اور اسد دونوں دروازے کی طرف لپکتے ہیں، دروازہ کھولتے ہیں۔ ایدھی اہلکار گاڑی سے میت نکال کر گھر کی دہلیز پر رکھتے ہیں اور گھر کا پتہ نوٹ کرکے واپس چلے جاتے ہیں۔چہرے سے کپڑا ہٹا تو وہاں امی آنکھیں بند کیے موجود تھیں۔
اسد: باجی ہماری امی کو کیا ہوا؟ امی تو بریانی لینے گئی تھیں۔
اتنے میں محلے کی عورتیں جمع ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔
ایک عورت آگے بڑھ کر بچوں کے سر پر ہاتھ رکھتی ہے اور کہتی ہے: نائلہ بیٹی! جوڑیا بازار میں بھگدڑ مچ گئی، بہت سے لوگ کچلے گئے، ان میں ایک تمہاری امی بھی تھیں، تم صبر کرو بچو!
اسد روتے بلکتے ہوئے: امی آپ نے کہا تھا کہ بریانی لینے جارہی ہیں۔ امی! آپ واپس آجائیں ہمیں بریانی نہیں کھانی۔
نائلہ اور اسد: ہمیں اپنی امی چاہئیں، ہمیں بریانی نہیں چاہیے۔ معصوم بچوں کی کربناک آہ و بکا سن کر پورے مجمع پر رقت طاری ہوجاتی ہے۔ ——