بہروپ

محمد طارق، امراؤتی

بھوک کی آگ اُس کی آنتوں کوبھون رہی تھی اور بیمارماں کا خیال اُس کے ذہن کوچھلنی چھلنی کر رہا تھا۔
وہ بس اسٹینڈ پر کھڑا سوچ رہا تھا کہ بھوک کی آگ بجھانے اور ماں کے علاج کے لیے پیسے کہاں سے لائے۔
اُس نے ملازمت کے لیے امپلائمنٹ آفس کے جانے کتنے چکّرلگائے تھے۔ لیکن ملازمت حاصل کرنے کے لئے بھی پیسوں کی ضرورت تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ملازمت کی قیمت بھی نیتاؤں کی توند کی طرح بڑھتی جارہی ہے۔
چپراسی کی ملازمت— پچاس ہزار روپے (ہمراہ سفارش کے )
کلر کی— ایک لاکھ روپے (ہمراہ سفارش کے)
چمچہ گری— فری
وہ سوچ رہاتھا آخرکہاں سے لائوں میں اتناپیسہ ۔
—دراصل میراباپ حمال تھا۔بھلاوہ میری تعلیم کا بوجھ کہاں تک ڈھوتا۔ اُس نے مجھے، بی۔اے۔ تک تعلیم دلوائی، کمپیوٹرکے دیگر کورس کروائے اور پھر ایک دن اُسے ایسا بخار چڑھا کہ چیتھڑے جیسی رضائی میں لرزکررہ گیا۔
بخار تو میری ماں کو بھی آیا ہے۔
آج پورے دس روز سے ماں کا بخار کم نہیں ہوا۔ خیراتی اسپتال کے ڈاکٹر نے کہاہے کہ ٹائیفائڈ ہے، اناج با لکل مت دینا، انگور اور موسمی وغیرہ کارس پلانا۔
ماں نے سنا تو اُس کے کان میں کہا ’’بیٹا! موسمی وغیرہ مت لانا، مجھے فاقے کرنے کی عادت ہوگئی ہے۔‘‘
ماں کی سر گوشی سن کر جانے کیوں اُسے یہ خیال آیا تھا’’ چلو ٹھیک ہے، ماں کا اناج بند ہونے سے مجھے کچھ دنوں تک اناج نہیں لانا پڑے گا۔‘‘
اس خیال کے ذہن میں آتے ہی اُسے خود سے کراہت سی ہوئی تھی۔ اُس نے سوچا ’’ٹائی فائڈ تو ان لوگوں کو ہونا چاہئے جو اپنے گودام اناج سے بھر کر بند کردیتے ہیں، لیکن اب کیا ہوگا؟‘‘ اُس نے خود سے سوال کیا۔
’’کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ اس نے خود ہی جواب دیا، اناج گوداموں میں سڑ جائے گا اور غریب بھوکوں مرجائیں گے، کیوں کہ ایسے لوگ سبز گھاس پر قبضہ کیے ہوئے بھیڑیے ہیں۔ خود نہیں کھائیں گے تو کھانے بھی نہیں دیں گے۔‘‘
’’ہاں—! ایسے لوگ ہی تو مہنگائی بڑھا رہے ہیں۔ آہ! میں اپنی ماں کے لیے پھل بھی نہیں لاسکتا، اور نہ اپنا پیٹ بھرسکتا ہوں…‘‘
ماں کا خیال اُس کے ذہن میں کچوکے لگائے جارہا تھا…
بھوک کی آگ اُس کی آنتوں میں دہک رہی تھی… اس آگ کی تپش میں جھلس کر بھی وہ سوچ رہا تھا کہ ’’میں بھوک تو برداشت کرسکتا ہوں، لیکن ماں کی بیماری کے علاج کے لیے پیسوں کا انتظام—؟
— میں کیا کروں؟ پیسہ کہاں سے لاؤں؟
کیا بھیگ مانگوں—؟ اس مہذب مسافر کی طرح جو پچھلے دنوں بس اسٹینڈ پر مسافروں سے اپنے سفر کے لیے کرایہ مانگ رہا تھا۔‘‘
’’نہیں — میں بھیک نہیں مانگوں گا۔‘‘ اُس نے فیصلہ کرلیا۔
’’پھر کیا کروں—‘‘ وہ سوچنے لگا۔
آج میرے پاس پیسہ کمانے کے لیے وقت بھی نہیں ہے، ماں کا بخار بڑھتا جارہا ہے، اُسے اسپتال میں ایڈمٹ کرنا ضروری ہے، موسمی وغیرہ کا رس بھی پلانا ہے، کہاں سے لاؤں میں اتنا پیسہ! کہاں سے؟
و ہ انتہائی بے بسی کے عالم میں کھڑا بس اسٹینڈ کے مسافروں کو دیکھنے لگا اور خود سے کہنے لگا، اس غیر مساوی دنیا میں کچھ لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ اپنی ادنیٰ سی خواہش کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہا دیتے ہیں اور کچھ لوگ اتنے کنگال ہوتے ہیں کہ اپنی جائز ضرورتیں بھی پوری نہیں کرسکتے۔
انسانی قوانین نے، انسانوں کے لیے انسانی دنیا کتنی غیر مساوی بنادی۔ وہ خود پوش مسافروں کو دیکھ کر ایسے دانت پیسنے لگا جیسے ابھی انہیں کچا چبا جائے گا۔
معاً اُس کی آنکھوں میں عجیب رنگ لہرائے۔ رگ و پے میں خوشی کا احساس دوڑ گیا…
اُس کی نظر اُس خوش پوش مسافر کو گھور رہی تھی۔ جس کی پینٹ کی پچھلی جیب میں پرس جھانک رہا تھا…
اُس نے سوچا: ’’میں نے آج تک کسی کی جیب نہیں کاٹی، پرس اُس کی جیب سے کیسے نکالوں؟ اور اگر میں نے پرس نکال بھی لیا تو ممکن ہے کرائے کے لیے اُس کے پاس پیسے نہ رہیں— کتنا پریشان ہوجائے گا وہ…‘‘
اُسے وہ مسافر یاد آگیا جو پچھلے دنوں اسی بس اسٹینڈ پر سفر کے لیے کرایہ مانگ رہا تھا… وہ پریشان مسافر …
ابھی اُس پریشان مسافر کی تشبیہ اُس کے شعور پر پوری طرح چھائی بھی نہیں تھی کہ اُس کی نظر اس شخص کے ہاتھ پڑگئی۔ اس کی کلائی میں گھڑی اور درمیانی انگلی میں طلائی انگوٹھی دیکھ کر اُسے اطمینان ہوگیا اور اُس نے اُس مسافر کی جیب سے پرس اڑا لینے کا مصمم ارادہ کرلیا، ارادہ کرتے ہی اُس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں اور حلق سوکھنے لگا… زبان تالو سے چپکنے لگی، خوف اور بے خوفی کے جذبات کے بھنور میں اُس کا وجود ڈوب کر ابھرنے لگا…
بالآخر ہمت کرکے وہ اُس مسافر کی طرف اُس وقت لپکا جب وہ بس کے دروازے کے سامنے مسافروں کے رش میں پھنسا بس میں سوار ہونے کی جدوجہد کررہا تھا…
جیسے اُس نے مسافر کا پرس اُس کی جیب سے نکالنے کی کوشش کی بجلی کی سرعت سے مسافر نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور چیخا’’پکڑو جیب کترا… جیب کترا…‘‘
بیک وقت کئی آوازیں فضا میں بلند ہوئیں ’’کون ہے… کہاں ہے…‘‘ ایک شور مچ گیا۔
سارے مسافر جو بس میں سوار ہونے کے لیے انتہائی خود غرض بنے ہوئے تھے اس پر شہد کی مکھیوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ لاتیں، گھونسے، اور تھپڑوں کی برسات ہونے لگی۔
… وہ چپ چاپ پٹتا رہا… اُس کی قمیص تار تار ہوگئی۔ بنیان پھٹ کر اس کے بدن سے الگ ہوگئی۔
لوگ اُسے مارے جارہے تھے اور وہ مار سے چھٹکارا پانے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔
کچھ شریر لوگوں نے اُس کا پاجامہ اس طرح کھینچا کہ اُس کا کمر بند ٹوٹ گیا اور پاجامہ لوگوں کے ہاتھوں میں آگیا۔ وہ اُس کے پھٹے ہوئے پاجامہ کو فلک شگاف قہقہے لگاتے ہوئے فتح کے پرچم کی طرح لہرانے لگے۔ اسی لمحہ میں وہ اُن کی گرفت سے نکل بھاگا…
ننگی سڑک پر برہنہ انسان، بالکل ایسا انسان جسے آسمان نے غصے سے زمین پر پھینک دیا ہو۔
لوگ اس کے پیچھے دوڑ رہے تھے جیسے کسی اجنبی کے پیچھے کتے… رفتہ رفتہ شہری آبادی ختم ہونے لگی، اور وہ بھاگتے بھاگتے سڑک کے کنارے ایک گھنے جنگل میں گھس گیا۔
لوگوں کی چیخیں اور اُن کے قدموں کی آواز اب تک اُس کے کانوں میں گونج رہی تھی… اس نے پلٹ کر دیکھا۔ اب کوئی اس کا تعاقب نہیں کررہا تھا۔ اس کے اطراف جنگل کے درخت خاموش کھڑے تھے۔
آخر وہ بھاگتے بھاگتے بے دم ہوکر ایک گھنے پیڑ کے نیچے گرگیا۔ سورج اس کا تماشا دیکھتے دیکھتے غروب ہوگیا۔ اُس کے حواس پر بھی دھند چھاگئی اور اسے یوں لگا جیسے وہ کسی گہری کھائی میں گرا جارہا ہو۔
صبح جنگل کے درختوں کے پتوں سے چھن چھن کر آتی ہوئی سورج کی ملائم کرنوں نے اُس کے برہنہ بدن کو چوما تو زندگی نے اس کے بدن میں انگڑائی لی۔
اُس نے آنکھیں کھولیں اور اُسے کرنٹ سا لگا۔ خوف کی سرد لہر اُس کے سارے بدن میں دوڑ گئی۔
وہ کانپ اٹھا۔ بجلی کی سی سرعت سے اپنے ننگے بدن کو سمیٹ کر اکڑوں بیٹھ گیا— لوگ اُسے گھیرے کھڑے تھے۔
— اب یہ لوگ مجھے نہیں بخشیں گے اور خوب ماریں گے پھر پولیس کے حوالے کردیں گے، اُس نے سوچا اور رحم طلب نگاہوں سے لوگوں کے چہرے تکنے لگا۔
’’بابا—! آپ کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں!‘‘ ایک شخص نے پوچھا۔
’’ہشت—! بابا لوگوں سے ایسے سوالات نہیں کیا کرتے، یہ کون اور کہاں کی حدوں سے بہت اوپر ہوتے ہیں۔‘‘ دوسرے شخص نے سوال پوچھنے والے کو ٹوکا۔
وہ خاموش اُن لوگوں کو دیکھنے لگا، جن کے بدن بے شکن لباس سے ڈھکے ہوئے تھے اور جن کے چہروں پر زندگی کی توانائیاں رقص کررہی تھیں…
وہ سب اُس کی طرف عقیدت سے دیکھ رہے تھے۔
— اُس کی نظر اُن لوگوں کے ہاتھ پر گئی۔ سب کے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار تھے…
یکلخت اُسے وہ لوگ یاد آگئے، جنھوں نے اُسے بس اسٹینڈ پر مارا تھا اور پھر ننگا کردیا تھا۔
’’— وہ کیسے لوگ تھے… اور یہ کیسے لوگ! انھوں نے مجھے ننگا کردیا تھا اور یہ مجھے برہنہ دیکھ کر بابا سمجھ رہے ہیں۔‘‘
’’اگر میں انھیں اپنی زندگی کی ساری مصیبتیں، اپنا دکھ، اپنا غم اور اپنی مجبوریاں بتادوں تو کیا یہ مجھ سے ایسی ہی عقیدت رکھیں گے، اتنی ہی محبت کریں گے، مجھے مقدس سمجھیں گے وہ خود سے دریافت کرنے لگا۔‘‘
’’نہیں کبھی نہیں۔‘‘ اس نے خود سے کہا۔
’’میں سمجھ گیا۔‘‘ اس نے خود کلامی کی۔ ’’میری بھلائی اسی میں ہے کہ میں اپنے لب سی لوں اور اسی طرح ننگا رہوں تو میرے پیٹ کا مسئلہ خود بہ خود حل ہوجائے گا۔ میری زندگی شان سے گزر ے گی کوئی فکر ہوگی نہ کوئی پریشانی۔‘‘ اُس نے سوچا اور آسن مار کر بیٹھ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے سامنے کئی طرح کے پکوان اور پھلوں کا ڈھیر لگ گیا۔
لوگوں نے اس کے گلے کو پھولوں کے ہاروں سے بھردیا تھا۔ اور یہ اتنے ہار تھے کہ اس کا برہنہ جسم پھولوں سے ڈھک گیا۔
——

 

 

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146