معلّم کی شخصیت انتہائی پرکشش، پربہار اور محبت و شفقت سے معمور ہوتی ہے۔ وہ معاشرہ کی جان اور مستقبل کا نگہبان ہوتا ہے۔ معاشرہ اور خاص طور پر نوجوان نسل معلم کی شخصیت کا عکس ہوتی ہے۔ سماج اور ملک کی ترقی و کامرانی اور زوال و پستی کا راز نظام تعلیم اور معلم کی شخصیت میں پنہاں ہوتا ہے۔
معلم درسی معلومات ہی طلبہ کوبہم نہیں پہنچاتا بلکہ اپنے تجربات کا نچوڑ اور اپنے افکار و نظریات بھی ان میں منتقل کرتا ہے۔ معلّم کی مثال ایک باغ کے مالی کی سی ہے جسے باغ کے ہر ہر پودے اور ہر ہر روش سے محبت ہوتی ہے۔ وہ اپنا پورا وجود باغ کو سنوارنے اور اسے حسین سے حسین تر بنانے میں لگا دیتا ہے۔ باغ کی تعمیر اس کے فکر ونظر پر ہر وقت چھائی رہتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح ایک سچا معلم نوجوان نسل کی تعمیر کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے۔ اس لیے ترقی یافتہ قومیں قابل، باکردار اور ماہرینِ فن معلمین کی فراہمی کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ ان کی تربیت کا نظم اور ان کی کفالت کا بھرپور انتظام کرتی ہیں۔ اگر کسی سماج کا معلّم بحیثیت مجموعی بے ذوق، خشک مزاج کردار کے لحاظ سے کھوکھلا، قابلیت و فن میں ناپختہ ہو تو اس معاشرہ کو تباہی سے نہیں بچایا جاسکتا۔ اس لیے قوم کے بہی خواہوں، ذمہ داروں اور حکمرانوں کی یہ ذ مہ داری ہے کہ وہ اپنی توجہ اس مسئلہ پر مرتکز کریں تاکہ اچھے معلّمین تیار ہوسکیں جو نوجوان نسلوں میں تعمیری اور انقلابی روح پھونک سکیں۔
یوں تو ایک معلّم کو بہت سے اوصاف کا حامل ہونا ضروری ہے لیکن میں آپ کی توجہ صرف تین امور کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں اور وہ ہیں:
(۱) ذوقِ مطالعہ
(۲) فن تدریس میں مہارت
(۳) اعلیٰ کردار کا حامل ہونا
ان اوصاف کا شعور ایک معلّم کو ہر آن تازہ رکھنا چاہیے تاکہ اس کی روشنی میں وہ نوجوان نسل کی تربیت کرسکے۔
ذوقِ مطالعہ
ایک سچے معلّم کو کتاب کا شوقین ہونا چاہیے، اُسے ہر وقت اپنے مطالعہ کو وسیع کرنے کی فکر میں لگا رہنا چاہیے۔عام مطالعہ سیاسی اور سماجی حالات کی معلومات کے علاوہ جس مضمون کی تدریس اس کے ذمہ ہے اس میں بھی اضافہ ہونا ضروری ہے۔دورِ جدید میں علم کے ہر شعبہ میں اتنی ترقی ہوگئی ہے کہ اسے Knowledge Explosionکہنا مناسب ہی ہے۔ کسی نفس مضمون کے بارے میں جو کچھ ہم نے پانچ سال قبل پڑھا تھا اگر اس موضوع پر تحقیقی مقالوںکا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا ہی بدل گئی ہے۔ اس لیے ایک استاد کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ وہ برابر مطالعہ کرتا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر معلّم میں کچھ سیکھنے کا جذبہ سرد پڑجائے تو تدریس کے ساتھ ساتھ اس کی تکریم بھی متاثر ہونا شروع ہوجائے گی۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا :’’ایک معلم حقیقی معنوں میں تعلیم نہیں دے سکتا، اگر خود اس میں سیکھنے کا عمل جاری نہیں ہے۔‘‘
ایک اچھے استاد کو اپنے موضوع کے علاوہ عام موضوعات پر بھی مطالعہ کرتے رہنا چاہیے لیکن وہ معلّم جو طلبہ کو اسلامی رنگ میں رنگنا چاہتا ہے اس کی ذمہ داری یک گونہ زیادہ ہوجاتی ہے۔ اسے جدید زمانہ کے حالات و مسائل پر غوروفکر کرتے رہنا چاہیے اور اسلام کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کرنا چاہیے، اس کو اپنے اندر یہ صلاحیت پیداکرنی چاہیے کہ وہ علمِ دین کو موجودہ حالات پر منطبق کرسکے۔ بہرحال ایک اچھے استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھا طالب علم بھی ہو۔
علامہ اقبالؔ کے انگریز استاد پروفیسر آرنلڈ جو مشہور فلسفی گزرے ہیں۔ مطالعے کے بے انتہا شوقین تھے۔ ایک مرتبہ وہ قسطنطنیہ کا سفر کررہے تھے۔ اتفاق سے ان کے ساتھ علامہ شبلیؒ بھی تھے۔ بحری جہاز کا انجن خراب ہوگیا۔ اور کپتان نے اعلان کیا کہ جہاز کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ بس کہرام مچ گیا۔ لوگ خدا سے دعائیں کرنے لگے۔ لیکن پروفیسر آرنلڈ مطالعہ میں غرق تھے۔ علامہ شبلیؒ نے پروفیسر صاحب کو متوجہ کرکے کہا کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہم صرف چند منٹ کے مہمان ہیں۔ جواب ملا ہاں، میں جانتا ہوں میری زندگی کے بس چند منٹ باقی ہیں، جو بہت قیمتی ہیں۔ مجھے ان کا صحیح استعمال کرلینے دو۔ یہ کہہ کر وہ پھر مطالعہ میں مشغول ہوگئے۔ خدا کا کرنا جہاز کا انجن ٹھیک ہوگیا۔ علامہ شبلیؒ نے مطالعہ کی اہمیت واضح کرنے کے لیے یہ واقعہ اپنے سفر نامہ میں درج کیا ہے۔
چین کے مشہورشاعر ہوانگ شانکوکا قول ہے۔’’جو اسکالر تین دن مطالعۂ کتب کے بغیر گزارے۔ اس کا چہرہ بدنما اور قابلِ نفرت ہوجائے گا اور اس کی باتوں میں لطف وکشش کی کمی ہوچکی ہوگی۔
مشہور مفسر قرآن سعیدؓ بن جبیر تابعی فرماتے ہیں: ’’آدمی جب تک سیکھتا رہتا ہے وہ عالم رہتا ہے۔ جب وہ علم کو چھوڑ بیٹھتا ہے اور جو کچھ اس کے پاس ہوتا اُسے کافی سمجھ لیتا ہے تو وہ جاہل ہوکر رہ جاتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو علم کے اضافہ کے لیے دعا بھی سکھائی ہے۔ ’’ربِ زدنی علماً‘‘
اللہ کے رسولﷺ اس دعا : ’’اللّہم انی اسئلک علماً نافعا‘‘ کااہتمام فرماتے تھے۔ آپؐ مختلف انداز سے صحابہ کرامؓ میں علم کی پیاس بھڑکایا کرتے تھے۔
مشہور واقعہ ہے۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ ہم اہلِ صفہ کی طرف تشریف لائے اور پوچھا:
تم میں سے کون اس بات کو پسند کرتا ہے کہ ہر روز بطحا اور عقیق (دو وادیوں کے نام) کی طرف جائے اور بغیر کسی گناہ اور قطع رحمی کے دو موٹی تازی اونٹنیاں لائے؟
ہم نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! یہ بات ہم میں سے ہر ایک کو پسند ہوگی۔ فرمایا: تو وہ کیوں نہیں مسجد کی طرف جاتا کہ قرآن کریم کی دو آیتیں سیکھنایا پڑھنا دو اونٹنیوں سے اور تین آیتیں سیکھنا تین اونٹنیوں سے اور چار آیتیں سیکھنا چار اونٹنیوں سے بدرجہا بہتر ہے۔
فنِ تدریس
ایک معلّم کی دوسری ناگزیر صفت فنِ تدریس میں مہارت حاصل کرنا ہے۔ استاد کو چاہیے کہ اس فن کی باقاعدہ تربیت حاصل کرے یا پھر بدرجۂ آخر اس فن پر مختلف کتابوں کا مطالعہ کرے اور تدریس کے نئے طریقے سوچتا رہے۔
پرانے زمانے میں یہ تصور عام تھا کہ جو شخص نفسِ مضمون جانتا ہے۔ وہ کلاس میں طلبہ کو پڑھابھی سکتا ہے اور یا یہ کہ اچھا استاد پیدا ہوتا ہے بنایا نہیں جاتا۔ آج یہ دونوں نظریے رد کیے جاچکے ہیں۔ البتہ اچھے استاد پیدا ہونے کا یہ تصور صحیح ہے کہ بعض لوگوں میں یہ صلاحیت پیدائشی ہوتی ہے اور اگر تدریس کے فن کا مطالعہ کیا جائے اور سیکھا جائے تو اس میں غیر معمولی نکھار پیدا ہوجائے گا۔ موجودہ زمانہ میں دوسرے فنون کی طرح یہ فن بھی اتنا ترقی کرگیا ہے کہ اس کے بغیر ایک اچھے استاد کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس موضوع پر دنیا میں سب سے زیادہ کام امریکہ میں ہوا ہے۔ ہندوستان کو بھی یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے NCERTجیسا ادارہ قائم کیا جو بیش بہا خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ ادارہ مختلف موضوعات پر نصابی کتب تیار کرتا ہے اور فنِ تدریس پر بھی مواد فراہم کرتا ہے۔ اساتذہ کی رہنمائی کرتا ہے لیکن ہندوستان کے اساتذہ کے ذہنوں پر چونکہ مادی فکر چھائی ہوئی ہے، اس لیے وہ اس سے خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں کرپاتے۔
ایک استاد کو سب سے پہلے اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ وہ طلبہ کو کیا بنانا چاہتا ہے؟ کیا وہ سال کے اخیر میں ایک خوبصورت کاغذ کا پرزہ ان کے حوالے کرنا چاہتا ہے یا کتابی معلومات ذہنوں میں اتارنا چاہتا ہے یا معاش کے حصول کا بہترین ذریعہ بنانا چاہتا ہے۔ یا ایک اچھا شہری اور انقلابی مسلمان بنانا چاہتا ہے۔ مقصد کے واضح تصور سے طریقہ تدریس پر لازمی اثر پڑے گا۔
فنِ تدریس کے ماہرین کے نزدیک ایک استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ نفسیات سے بخوبی واقف ہو۔ ہر طالب علم کا ذوق عمر، صلاحیت، ماحول اور مطمح نظر جدا ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کے پیشِ نظر استاد طلبہ کو tackleکرے۔ اسی طرح عہدِ طفولیت، بچپن، لڑکپن اور عنفوانِ شباب کے رجحانات کو جاننا بھی ضروری ہے تاکہ تدریس کو آسان، پرکیف اور اثر انگیز بنایا جاسکے۔ توجہ، حافظہ جبلتوں کا علم اور عادات وغیرہ کے بارے میں پوری آگاہی ہونی چاہیے۔ جو مضمون استاد پڑھا رہا ہے اس کے پڑھانے کے مقاصد استاد کے ذہن میں مستحضر ہوں۔ اور جس عنوان کا درس استاد دے رہا ہے اس کا مدعا بھی طلبہ پر واضح کردینا چاہیے۔ سبق کی تیاری کرتے وقت درجہ کے طلبہ کی اوسط عمر اور کمزور طلبہ کی تعداد بھی نظر میں رہنی چاہیے۔ سبق کو مناسب حصوں میں تقسیم کرلینا چاہیے۔ ہر حصہ کو پڑھالینے کے بعد مناسب سوالات پوچھنے چاہئیں اور آخر میں ایسے سوالات کرنے چاہئیں جو سارے سبق پر محیط ہوں تاکہ سبق ذہن نشین ہوسکے۔ سبق کو آسان اور پُر لطف بنانے کے لیے نئے سے نیا طریقے سوچنا چاہیے ورنہ ایک پرانی چیز پرانے انداز میں پڑھانے سے دلچسپی کم ہوجائے گی۔ سبق کا اعادہ بھی ضروری ہے لیکن اکتاہٹ اور بیزاری نہ پیدا ہو۔
امام غزالیؒ اپنی مشہور کتاب احیاء العلوم میں بچوں کی تربیت کے بارے میں فرماتے ہیں:
اگر ایک طبیب تمام بیماروں کے لیے ایک ہی نسخہ تجویز کرے تو اکثر کی ہلاکت کا سبب ہوگا۔ بالکل یہی حال مربی کا بھی ہے۔ اگر وہ اپنے زیرِ تربیت لڑکوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے گا تو انھیں ہلاک کردے گا اور ان کے قلوب پر موت طاری کرے گا۔ اس لیے مربی کا فرض ہے اپنے زیرِ تربیت لڑکوں کو ان کے حال عمر اور مزاج کے مطابق راستے تجویز کرے اور ان کے لیے وہی ریاضت تجویز کرے جس کے وہ متحمل ہوسکیں۔
تدریس کے تمام طریقوں اور اصولوں کو یہاں پوری طرح بیان نہیں کیا جاسکتا، البتہ معیاری تدریس کے چند نکات بیان کیے جاتے ہیں:
٭ سبق پڑھانے کی اچھی طرح تیاری کرنی چاہیے۔ چاہے سبق آسان ہی کیوں نہ ہو۔
٭ مشکل نکات کے طریقوں پر غور کرنا تاکہ سبق آسان ہوجائے۔
٭ سبق سے طلبہ میں نفسِ مضمون سے ذوق اور دلچسپی پیدا کرنا۔
٭ اگر طلبہ سبق سمجھ رہے ہوں لیکن نفسِ مضمون میں ذوق پیدا نہیں ہورہا ہے تب بھی استاد کامیاب نہیں ہے۔
٭ طلبہ کی تخلیقی استعداد میں اضافہ کرنا۔
٭ طلبہ کی معلومات میں لگاتار اضافہ ہونا۔
٭طلبہ کو ان کے نام سے پکارنا۔
٭ طلبہ کا ان اقدار سے محبت کرنا جو استاد طلبہ میں دیکھنا چاہتا ہے۔
٭ طنز و تضحیک سے مکمل طور پر پرہیز کرنا اور کلاس کے ماحول کو خوشگوار بنائے رکھنا۔
٭ طلبہ کی حوصلہ افزائی، ان کی خوبیوں کا اعتراف کرنا۔
٭ بلیک بورڈ کا مناسب استعمال۔
٭ طلبہ کو اس امر پر قائل کردینا کہ آپ کا مضمون دینی دعوت کے فروغ میں معاون ہے۔
٭ خود استاد کا مقصدزندگی طلبہ پر اتنا واضح ہو کہ وہ بھی اس کو اپناسکیں۔
٭ محبت کی فضا قائم کرنا۔
کردار
ذوقِ مطالعہ اور فنِ تدریس کے بعد ایک معلم کے لیے مثالی کردار کا حامل ہونا انتہائی ضروری ہے، ورنہ وہ طلبہ میں علم تومنتقل کردے گا لیکن ان کی شخصیت کی تعمیر نہ کرسے گا۔ کبھی کبھی والدین کے مقابلے میں استاد کے اثرات طلبہ پر کچھ زیادہ ہی پڑتے ہیں۔ اس لیے ایک معلّم کو اخلاص، تحمل، بردباری، خوش طبعی، قناعت، توکل، پاک دامنی، سچائی، ایفائے عہد، عدل، نرم خوئی، خوش گفتاری، موقع شناسی اور حکمت کے جوہر سے لیس ہونا چاہیے۔ اگر ایک معلم میں ذوقِ مطالعہ اور تدریس کا فن موجود ہو لیکن اس کا دل بنی نوعِ انسان کی محبت سے خالی ہے تو وہ معلم بحیثیت سیرت شیطان ہے۔ وہ معاشرہ کو پراگندہ کردے گا۔
طلبہ اخلاقی اقدار کے حامل اساتذہ کو دل سے پسند کرتے ہیں۔ ان کی نقل کرتے ہیں۔ ان کو نمونہ بناتے ہیں۔ ان کے درس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ان سے باتیں کرنے کے لیے تڑپتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسا استاد ان کے درجہ میں زیادہ رہے۔ ایک طالب علم اپنے استاد کے ہمیشہ گن گاتا تھا۔ اس کے دوست نے اس سے پوچھا تم اپنے استاد کی اتنی تعریف کیوں کرتے ہو اس نے جواب دیا۔ خدا نے مجھے درشت والدین کے گھر پیدا کرکے ایک شفیق استاد دیا ہے جب میں گھر ہوتا ہوں تو سہما سہما رہتا ہوں اور جب استاد کے پاس جاتا ہوں تو میرے دل کا کمل کھل اٹھتا ہے وہ مجھ پر بہت مہربان ہیں۔ وہ آزادی سے مجھے اپنی بات کہنے کا موقع دیتے ہیں۔ ان سے علم و فیض کے چشمے پھوٹتے ہیں میرا دل وہیں اٹک جاتا ہے۔ مجھے اپنی خبر نہیں رہتی وہ جب مجھے واپس بھیجتے ہیں تو میں رونے لگتا ہوں ان کا رویہ انتہائی ہمدردانہ، پروقار اور شگفتہ ہوتا ہے۔ وہ میری بھلائی اور ترقی کے حریص ہیں۔
ایک استاد جو دیر سے اپنے کلاس میں پہنچتا ہے وہ طلبہ میں وقت کی پابندی کا وصف پیدا نہیں کرسکتا۔ استاد جو بلیک بورڈ پر الٹا سیدھا لکھتا ہے۔ وہ طلبہ میں لطافت اور خوشخطی کی خوبیاں نہیں پیدا کرسکتا۔ ایک اچھا استاد طلبہ میں حلم، بردباری اور نرم خوئی کے اوصاف پیدا کرسکتا ہے۔
جس معلم کا مقصد زندگی اسلام اور تہذیب کو غالب کرنا ہو، اس کے لیے ناگزیر ہے کہ مذکورہ بالا اخلاقی صفات کا بدرجۂ اولیٰ حامل ہو، ان کے لیے اسے ہمیشہ اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔
——