صداقتوں کے پاسبان (قسط: ۲۰)

سلمیٰ نسرین

’’باس‘‘ اس کے نان اسٹاپ بولنے پر بھابی نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔
’’زکام اور خراش ایسی کوئی بڑی بیماریاں نہیں ہیں کہ بندہ دکان بند کرکے بستر پر پڑجائے نخرے مت کرو جاؤ جلدی لاؤ یہ سامان۔‘‘
’’اسے مجبوراً اٹھنا پڑا۔
’’ان کی دکان پر مطلوبہ چیزیں ملتی بھی تو نہیں… یہ ہے؟ نہیں ہے… وہ ہے؟ نہیں ہے۔ اگر سب سے قریب ترین دکان ان کی نہ ہوتی تو …‘‘ وہ بیزاری سے بڑبڑارہا تھا۔
’’اب کی بار جاؤ تو پوچھنا تالا ہے؟‘‘ حسن نے اس کی بڑبڑاہٹ سن کر اسے مشورہ دیا۔
’’کئی بار پوچھنا چاہا، مگر اس خدشے سے کہ ٹکا جواب ملے گا’’نہیں ہے۔‘‘ اب تک پوچھا نہیں۔
’’تالا کیوں؟‘‘ بھابی تعجب سے بولیں۔
’’دکان کو لگانے کے لیے۔‘‘ عمر نے جواب دیا تو انھوں نے ننھا سا قہقہہ لگا یا۔
ساکت بیٹھی ضحی کی بصارتیں گویا علی کو خود میں جذب کرنا چاہتی تھیں۔ علی تھیلی لیے ہوئے کمرے سے باہر نکل رہا تھا تبھی اس کا پیر چوکھٹ میں اٹک گیا وہ توازن برقرار نہیں رکھ پایا اور اوندھے منہ گرپڑا۔
’’علی‘‘ ضحی پوری قوت سے چیخ اٹھی تھی۔
٭٭
مغرب کے بعد یحییٰ کچھ دیر تک حسن کا انتظار کرتا رہا پھر موبائل پر اسے کال کرنے لگا۔
’’السلام علیکم! عباس بول رہا ہوں۔‘‘ حسن کی بجائے عباس بھائی کی آواز ابھری۔ یحییٰ نے ان سے حسن کے متعلق پوچھا۔
’’وہ ہاسپٹل سے ابھی ابھی لوٹا ہے نماز پڑھ رہا ہے تم گھر پر ہی آجاؤ۔‘‘
اور حسن کے نماز سے فارغ ہونے تک وہ اسے آج کا پورا واقعہ بتاچکے تھے۔
’’حسن کے کہنے پر میں نے اسے سکون کا انجکشن لگادیا تھا لیکن ابھی کچھ دیر پہلے عالم بے ہوشی میں پھر علی کے متعلق خواب دیکھ کر وہ چیختی ہوئی اٹھ بیٹھی۔ صبح سے شام تک چوبیسیوں گھنٹے وہ صرف اسی کے متعلق سوچتی رہتی ہے۔ پھر ایسے خواب تو نظر آئیں گے ہی۔‘‘
اس نے سرہلاکر گویا ان کی تائید کی تھی۔
’’آپ فکر نہ کریں سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
اس کے علاوہ اور وہ کہہ بھی کیا سکتا تھا۔
حسن جب بیٹھک میں آیا تو بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ یحییٰ جانتا تھا کہ وہ ہاسپٹل میں بھی بغیر رکے مسلسل کام کرتا رہتا ہے۔ اس کے آنے پر عباس بھائی، یحییٰ سے معذرت کرکے باہر نکل گئے۔
یحییٰ اس سے کافی دیر تک ادھر ادھر کی ہلکی پھلکی گفتگو کرتا رہا۔ عمران لوگوں کے سامنے چائے رکھ گیا تھا۔
حسن ریلیکس ہوکر صوفے پر نیم دراز تھا۔ چائے پینے کے بعد تازگی کا احساس ہوا تھا۔
’’تم صبح کسی خاص بات کے متعلق کہہ رہے تھے۔‘‘
یحییٰ کی بات پر حسن کو یادکرنے میں ایک لمحہ لگا۔ پھر وہ گہری سانس بھرتے ہوئے سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔
’’سوچ رہا ہوں کسی کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت و غصہ دیکھنا کتنا برا احساس ہوتا ہے۔‘‘
یحییٰ اس کی بات کا ماخذ سمجھ رہا تھا۔
’’تجربے سے بول رہے ہو؟‘‘
’’ہوں۔‘‘ اس نے ہنکاری بھری۔
’’اس بدنصیب کا نام پوچھ سکتا ہوں۔‘‘
’’ڈاکٹر مسیرہ خان‘‘
حسن کی بات پر یحییٰ چونکا تھا۔ وہ اسی جواب کی توقع کررہا تھا۔
حسن اسے اس دن اور اس کے بعد کے واقعات بتانے لگا۔
’’میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایسا کچھ کہے گی وہ بھی مجھ سے۔ قبل اس کے کہ میں سریش کو کچھ کہتا وہ اپنا سارا غصہ مجھ پراتار کر چلی گئی۔‘‘
یحییٰ نے اطمینان سے اس کی بات سنی پھر کہا
’’مجھے لگ ہی رہا تھا کہ اس کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔ میں نے اسے سمجھایا بھی تھا۔‘‘
’’اسے… کیسے۔‘‘ حسن ٹھیک سے اس کی بات سمجھ نہیں پایا تھا۔
’’مسیرہ کو‘‘ اب اس کی نظریں عمر پر تھیں۔
عمر بہت شکستہ قدموں سے غالباً چائے کے برتن لینے اندر آیا تھا۔ چہرے پر اب بھی کم و بیش ویسے ہی آثار تھے جیسے وہ صبح دیکھ چکا تھا۔
’’مسیرہ کو تم کیسے …‘‘ حسن اس سے پوچھنا چاہ رہا تھا۔ مگر تبھی یحییٰ نے عمر کو آواز دی۔
’’عمر! ہمارے پاس بیٹھوگے نہیں۔‘‘
اس نے ٹرے واپس ٹیبل پر رکھ دی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا یحییٰ کے قریب آکر بیٹھ گیا۔
یحییٰ اسے بغور دیکھ رہا تھا۔ جس معصوم چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رقصاں رہتی تھی آج وہاں سنجیدگی و ویرانی ڈیرے جمائے ہوئے تھیں۔ آنکھیں صبح کی نسبت زیادہ متورم تھیں۔ لبوں پر پپڑی سی جم گئی تھی۔ دوسرے لفظوں میں اس کا چہرہ ویران کھنڈر نظر آرہا تھا۔
یحییٰ پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر نرمی اور محبت سے اسے مخاطب کیا۔
’’عمر…!‘‘ وہ اپنی آنکھوں میں نرم تاثر لیے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’گزشتہ دنوں جو حادثہ ہم سب کے ساتھ ہوا ہے، اس نے گھر کے ہر فرد کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ ہمارا علی سب کے دلوں کی دھڑکن تھا۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ اس کے گزرنے کے بعد سب سے زیادہ تنہائی کا احساس جسے ہوا ہے وہ تم ہو۔ ہر کام ساتھ میں کرنے کی وجہ سے تم دونوں کی زندگی گویا ایک دوسرے کے ارد گرد ہی گھومتی تھی۔‘‘
عمر کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا!‘‘
جواباً اس کے لبریز پیمانے پھر چھلک پڑے۔
’’دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ وہ تمہاری کل کائنات تھا اور اب اس کا یوں داغِ مفارقت دے جانا تمہارا بہت بڑا نقصان ہے اور اس نقصان کا اتنا ہی بڑا دکھ ہونا بھی لازمی ہے۔‘‘
حسن استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ ابھی ان باتوں کا کیا مطلب تھا…؟یہ تو گویا عمر کا غم تازہ کرنے کے مترادف تھا۔ یحییٰ کی اس تمہید کا یقینا کوئی اور ہی مقصد تھا اور وہ مقصد اب حسن بھی جاننا چاہتا تھا۔
’’میں تمہاری ایک غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں … تم غالباً یہ سمجھتے ہو کہ علی کے جانے کے بعد سب سے زیادہ دکھ تمھیں ہے۔ اور تمہارا غم گھر کے ہر فرد سے زیادہ بڑا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے عمر کہ تم اپنے ایک بھائی کا سوگ منا رہے ہو جبکہ تمہاری بہن اپنے دو بھائیوں کی موت کا ماتم منارہی ہے۔ اور اس کی یہ حالت اسی وجہ سے ہے۔ تم نے صرف علی کو کھویا ہے لیکن ضحی ،علی و عمر دونوں کو کھوچکی ہے۔‘‘
اس کی بات پر جہاں عمر نے بے ساختہ سر اٹھا کر اسے دیکھا وہیں حسن بھی چونک گیا۔
وہ سر ہلا کر اپنی بات مکمل کررہا تھا۔
’’علی کی لاش کو منوں مٹی تلے دبا دیا گیا اور تم زندہ لاش کی طرح اسی دنیا میں رہ گئے… ایک عورت جس کا شوہر فوت ہوجائے اس کے علاوہ اور کسی میت کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ کی اجازت نہیں ہے لیکن تمہارے سوگ کا یہ عالم ہے کہ گویا ابھی ابھی علی کی تدفین کرکے آرہے ہوں۔‘‘
’’مم… میں… سوگ تو نہیں کررہا۔‘‘ رندھا لہجہ، دھیمی آواز… یحییٰ بھائی نے تو آج اس پر عجیب انکشاف کیا تھا…… کافی دیر بعد وہ بولنے کے قابل ہوا تھا۔
’’تو تمہارے خیال میں … سوگ اور کیسے کرتے ہیں؟ نہ کسی سے بولنا نہ کھیلنا کودنا، نہ اسٹڈی پر دھیان ، نہ کھانے پینے پر توجہ… اور نہ گھر والوں کا غم غلط کرنے کی کوشش…… اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ علی کو موت نے ہم سے چھین لیا اور تم نے خود کو اپنے ہاتھوں ختم کرڈالا… پھر بھی تم خود کو ہی سب سے زیادہ غمگین اور دکھی سمجھ رہے ہو… اپنی اکلوتی بہن کا خیال نہیں کہ دو دو بھائیوں سے دوری وہ کس طرح سہہ پا رہی ہوگی۔ وہ تو اس بات پر جتنی بار ہوش کھوبیٹھے اتنا کم ہے۔ جتنا روئے اس کا حق ہے…‘‘
عمر سرجھکائے بیٹھا تھا۔
’’اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو مجھے بتاؤ کہ علی کے انتقال کے بعد تم نے آج تک کتنی بار ضحی سے خود بات کی ہے۔ کتنی بار اسے تسلی اور دلاسے دیے کہ علی نہ سہی عمر تو ابھی آپ کے ساتھ ہے۔ کتنے بار اسے اصرار سے کھانا کھلایا یا اسے اداسی سے باہر نکالنے کی کوئی بھی کوشش کی…؟؟
عمر کا سر مزید جھک گیا۔ اپنے غم کے آگے تو اسے کچھ سجھائی ہی نہیں دیا تھا ۔
’’اور کیا تم ان لوگوںکے کرب کا اندازہ کرسکتے ہو جن کا ایک بیٹا موت کے منہ میں چلا گیا۔ دوسرا زندہ لاش بن گیا اور اکلوتی بیٹی یا تو بے ہوش رہی ہے یا اگر ہوش میں آبھی جائے تو روتی رہتی ہے…؟؟؟‘‘
عمر نے بے ساختہ پہلو بدلا تھا۔ یہ یحییٰ بھائی کیا کہہ رہے تھے ان کی آواز کے پس منظر میں اس کی آنکھوں کے سامنے چند سائے لہرائے، امّی کا ستا چہرہ، ابو کے جھکے کندھے، عباس بھائی کی فکر مندی، بھابی کی اداسی اور آپی کے ایک دوسرے میں مضبوطی سے پیوست لب۔ ان کا ساکت و جامد وجود۔
وہ یکایک شرمندگی کے حصار میں آگھرا۔ اسے یوں لگا جیسے ان سب کی حالت کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ اگر وہ برقت خود کو سنبھال لیتا تو آپی کی یہ حالت ہرگز نہ ہوتی۔ اس نے ضحی آپی کو آخری بار مسکراتے کب دیکھا تھا!! وہ ذہن پر زور ڈالنے لگا۔ لیکن علی کی شہادت کے بعد کا کوئی ایسا لمحہ یاد نہیں آیا۔
’’اف…‘‘ وہ دھک سے رہ گیا۔
جس بہن کے لبوں پر ہنسی بکھیرنے کے لیے وہ اور علی اتنے جتن کرتے اوٹ پٹانگ حرکتیں اور شرارتیں کرتے، آج وہ اس ہستی سے اتنا لاتعلق کیسے ہوگیا تھا…؟؟؟‘‘
اب وہ کیا کرے؟ اس نے پیشانی کو مسلا۔
’’گھر میں پھیلے اس جامد سناٹے کو صرف تم ختم کرسکتے ہو۔‘‘ اسے یحییٰ بھائی کی آواز بہت دور سے آتی محسوس ہوئی۔
’’(میں کیا کروں؟ میں کیا کرسکتا ہوں؟) اس کی آنکھیں چیخ چیخ کر سوال کررہی تھی۔
’’میں اس معاملے میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں۔‘‘
یحییٰ نے اس کی آنکھوں میں رقم سوال پڑھ لیا تھا۔ ہلکا سا مسکرا کر کہا۔
حسن منہ کھولے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ یحییٰ کے پلان نے اسے بھی ایک راہ سجھائی تھی…
پھر کچھ سوچ کر وہ مسکرادیا۔
٭٭
مسیرہ بہت سست قدموں سے ہاسپٹل سے نکلی تھی۔ بھاگتی دوڑتی سڑک پر کوئی رکشہ یا ٹیکسی خالی نہ دکھائی دی۔ہاسپٹل سے قریب ہی بس اسٹینڈ تھا وہاں ٹیکسی وغیرہ مل جاتی تھی وہ بھی اسی سمت چل پڑی۔
’’اگر پیسہ نہیں تھا تو میری ٹیکسی میں بیٹھی کیوں تھی بائی؟‘‘
وہاں ایک ٹیکسی ڈرائیور ایک لڑکی پر بری طرح بگڑ رہا تھا۔ ساڑھی میں ملبوس وہ تیئس چوبیس سالہ لڑکی اپنے کالج بیگ کو بار بار کھنگال رہی تھی۔
’’میں جھوٹ نہیں کہہ رہی ہوں دادا میرے پاس پیسے تھے مگر میرا بٹوہ نہ جانے کب اور کدھر گرگیا۔‘‘ وہ سراسیمگی کے عالم میں گڑبڑاتے ہوئے کہہ رہی تھی اور بار بار پریشانی سے بس اسٹینڈ کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’دیکھ بائی، بونی کے ٹائم تو میرا دھندہ کھوٹا مت کر… پیسے تو میں لے کر رہوں گا۔‘‘
’’میں تمھیں وچن دیتی ہوں کل اسی وقت میں تمہارے پیسے ادا کردوں گی ابھی میرا پیپر ہے اس لیے میرا جانا ضروری ہے ورنہ بس چھوٹ جائے گی اور میرا پرچہ بھی۔‘‘
اس کی آنکھوں میں التجا تھی وہ اب بھی پلٹ پلٹ کر بس اسٹینڈ سے نکلنے والی بسوں کو دیکھ رہی تھی۔
’’اس کا کرایہ کتنا ہوا ہے؟‘‘ مسیرہ نے براہِ راست اس ڈرائیور سے پوچھا۔
’’پچاس روپیہ‘‘ اس نے بے حد روکھے انداز میں جواب دیا۔ مسیرہ نے اسے پچاس کا نوٹ پکڑا دیا اس نے جھپٹنے والے انداز میں پیسے لیے اور یہ جا وہ جا۔
وہ لڑکی آنکھوں میں تحیر لیے بے یقین نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہاں آس پاس اتنے سارے لوگ تھے اور اس کا تماشا دیکھ کر مزے لے رہے تھے، لیکن کسی کو اس کی مدد کی نہ سوجھی۔
’’تھینک یوں سو مچ۔‘‘ وہ بھیگے لہجے میں بولی۔
’’کوئی بات نہیں… انسانوں کو ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت پڑ ہی جاتی ہے۔‘‘ مسیرہ سادگی سے بو لی۔
’’جلدی میں میں شاید اپنا پرس گھر ہی چھوڑ آئی… میں آپ کے پیسے ضرور لوٹا دوں گی۔‘‘ وہ مسیرہ کے ہاتھ سے موبائل لے کر نمبر ٹائپ کرنے لگی۔ ’’یہ میرا نمبر ہے پلیز اسے saveکرلیجیے گا میرا نام کومل ہے میرے بی ایڈ کے ایگزام چل رہے ہیں آج پہلے پیپر میں ہی کہیں لیٹ نہ ہوجاؤں۔ تھینکس اگین۔‘‘ جلدی جلدی بولتی ہوئی مسیرہ کو موبائل تھما کر وہ آگے بڑھ گئی۔
’’ارسے سنو تو… بس کا کرایہ کیسے دو گی؟ یہ مزید پیسے رکھ لو۔‘‘ مسیرہ اسے پکار رہی تھی۔
’’یوڈونٹ وری میرے پاس بس کا پاس ہے۔‘‘ کومل نے ہاتھ ہلا کر اسے مطمئن کیا اور دوڑتی ہوئی بس میں چڑھ گئی۔
’’کانٹیکٹ ضرور کیجیے گا۔‘‘ اس نے چلا کر اسے تاکید کی۔ جواباً مسیرہ نے صرف ہاتھ ہلانے پر اکتفا کیا تھا۔
شام کو جب وہ کچن سے فارغ ہوئی تو اشمیرہ کو اپنا منتظر پایا۔
’’بجو آپ کا وعدہ تھا آج آپ میرے سر میں تیل ڈالیں گی۔‘‘ وہ تیل کی شیشی اس کے سامنے لہرا رہی تھی۔
’’ضرور… مجھے اپنا وعدہ یاد ہے۔ وہ ہاتھ پونچھتی ہوئی تخت پر آبیٹھی اور نرمی سے اشمیرہ کے سر کی مالش کرنے لگی۔ اس دوران اشمیرہ اس کے موبائل سے چھیڑ چھاڑ کرتی رہی۔
’’بجو مجھے آپ سے ایک اہم بات کرنی ہے۔‘‘ مسیرہ نے اس کی چوٹی گوندھ دی تھی۔
’’کہو۔‘‘
’’یہاں نہیں اندر چلئے۔‘‘ اشمیرہ خاصا اشتیاق پیدا کررہی تھی، مسیرہ تیل میں چپڑے ہاتھ دھوکر آگئی۔
’’اب بتاؤ۔‘‘ وہ اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئی۔
’’دوپہر میں امی کا فون آیا تھا۔ وہ تائی جان سے کافی دیر تک بات کرتی رہی تھیں۔‘‘
مسیرہ بہت غور سے اس کی بات سن رہی تھی لیکن اشمیرہ کے اگلے جملے پر وہ چونک گئی۔
’’آپ کے لیے دو پروپوزل آئے ہیں۔ ایک کویت کا اور دوسرا …‘‘
لیکن وہ تو کویت کا نام سن کر ہی پریشان ہوگئی تھی۔
’’امی جانتی ہیں کہ میں ہندوستان سے باہر نہیں جانا چاہتی…‘‘
اشمیرہ نے اثبات میں سرہلایا۔
’’لڑکا properامراؤاتی کا ہے اور اس کی پوری فیملی بھی وہیں ہے۔ لیکن وہ تقریباً دو سالوں سے کویت میں نوکری کررہا ہے۔‘‘
اشمیرہ اس کی معلومات میں اضافہ کررہی تھی اور وہ بے دلی سے سن رہی تھی۔
’’پتہ نہیں لوگ اپنا ملک چھوڑ کر کیوں چلے جاتے ہیں …کیا اسے یہاں رزق نہیں مل رہا تھا۔‘‘
مسیرہ کا موڈ بھانپ کر اشمیرہ بڑبڑائی۔
’’افوہ! ‘‘ ہوگی اس کی کوئی مجبوری… اب اس پر تبصرہ کرنے مت بیٹھ جانا یہ چیپٹر تو کلوز ہی سمجھو۔ تم دوسرے پروپوزل کے بارے میں بتاؤ۔‘‘
’’کیا کریں گی جان کر، آپ اسے بھی ریجکٹ کردیں گی۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’دہلی کا ہے‘‘ اشمیرہ کے جواب پر وہ باقاعدہ کراہی تھی۔ اور اشمیرہ بھی یہ بات جانتی تھی کہ وہ مہاراشٹر سے باہر بھی نہیں جانا چاہتی تھی۔ اس بات پر وہ اسے بہت چڑایا کرتی تھی۔ (بجو آخر آپ کو اس اسٹیٹ سے اتنا لگاؤ کیوں ہے ، جہاں ہر دوگھنٹے بعد تین گھنٹوں کے بعد لائٹ چلی جاتی ہے۔‘‘)
’’یہ اتنی دور دور کے پرو پوزلز کون لا رہا ہے۔امراؤاتی کا تو سمجھ میں آتا ہے کہ قریبی شہر ہے لیکن یہ دہلی تک کس نے پرواز کی…؟‘‘
’’آپ نے۔‘‘ اشمیرہ کا اطمینان قابلِ دید تھا جبکہ مسیرہ کی آنکھوں میں استعجاب اتر آیا تھا۔ ’’کیونکہ حضرت آپ کے کالج فیلو رہ چکے ہیں۔‘‘
’’میرا کالج فیلو…‘‘ مسیرہ ذہن پر زور ڈالنے لگی۔ جہاں تک اسے یاد تھا اس کے کالج میں صرف دو لڑکے ہی دہلی کے تھے۔ ایک اس کا سینئر تھا اور اس کی تو شادی بچپن میں ہی اپنی کزن سے ہوگئی تھی اور رخصتی لڑکے کی تعلیم مکمل ہونے تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔ (اب تو اس کی رخصتی بھی ہوگئی ہوگی) سر جھٹک کر وہ دوسرے لڑکے کے بارے میں یاد کرنے لگی وہ اس قدر چھچھورا اور بے ہودہ لڑکا تھا کہ مسیرہ کو ایک نظر نہیں بھاتا تھا۔ یہ باتیں اس نے اشمیرہ کو بھی گوش گزار کردیں۔
’’اور وہ سینئر لڑکا کیسا تھا؟‘‘
’’وہ تو بہت اچھے تھے سنجیدہ اور سوبر سے۔ ہم سبھی جونیئرز ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ ان کی شادی کورس کی تکمیل کے فوراً بعد ہی ہونا طے تھی۔ سوہوچکی ہوگی۔ اور اگر یہ اس چھچھورے کا پرپوزل ہے تو میرا جواب تمھیں پتہ ہے کیا ہوگا۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن ایک تشویش کی بات یہ ہے کہ ابو اسی سال آپ کی شادی کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
اشمیرہ کے اس جملے میں تو اسے کوئی قابلِ تشویش بات محسوس نہیں ہوئی لیکن اگلے ہی لمحے اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے۔
’’اور وہ ان ہی دونوں پرپوزلز میں سے ایک فائنل کرنے والے ہیں۔‘‘
’’کک … کیا۔‘‘ وہ گھبرا اٹھی تھی۔
’’امی نے کویت کے لیے بالکل ہی منع کردیا تھا، اس لیے شاید دہلی والا پروپوزل قبول کرلیا جائے گا۔ بجو! یقین جانئے اب تو امی بھی بہت پریشان ہوگئی ہیں کیونکہ ابو کو اب ان کی ایک نہیں سننی۔‘‘
مسیرہ سراسیمگی کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھی اسے معلوم تھا کہ ابو اب جلد بازی کریں گے کیونکہ جس عمر میں ان کے گاؤں میں لڑکیوں کی شادیاں ہوتی تھیں اس عمر کو وہ پیچھے چھوڑ آئی تھی اور (ان کی دانست میں) وہ اور ایج ہورہی تھی۔
’’لالہ‘‘ اس کے ذہن میں جھماکا ہوا۔ اس سے پہلے بھی یحییٰ مسیرہ کے لیے آئے کئی رشتے ریجکٹ کرچکا تھا۔ اس کی بات اس کے چچا (مسیرہ کے والد) بھی مانتے تھے کیونکہ و ہ بہر حال خاندان کا سب سے ہونہار اور سمجھدار نوجوان مانا جاتا تھا۔
’’تم … تم لالہ سے بات کرو۔ وہ ضرور ہماری بات سمجھیں گے۔ بلکہ انھوں نے تو ان دونوں رشتوں کے لیے انکار بھی کہلادیا ہوگا۔‘‘
وہ بے قراری سے کہہ رہی تھی۔
’’ایک دلچسپ بات بتاؤں…‘‘ اشمیرہ نے اس کی بے چین نگاہوں میں جھانکا ۔
’’لالہ کو اب تک ان پروپوزلز کا علم نہیں ہے۔‘‘
——

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146