ٹیومر: پرہیز ہی بہتر علاج

ادارہ

خواتین خاص طور سے موجودہ طرزِ زندگی کی وجہ سے ایسی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں جو انھیں زندگی بھر پریشانی رکھتی ہیں۔ ’’اینڈومیٹری اورسس‘‘ ایک ایسی ہی بیماری ہے۔ یہ ایک قسم کا ٹیومر (رسولی) ہے جو خواتین کی بچہ دانی میں بن جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ ٹیومر جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ دوسری طرف خواتین اکثر اس کی علامتوں کو نظر انداز کردیتی ہیں جس کی وجہ سے بیماری کو مزید بڑھنے میں مدد ملتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہر سال پوری دنیا میں ۲۵ سے ۳۰ سال کی عمر والی آٹھ کروڑ نوے لاکھ خواتین کو یہ بیماری اپنا شکار بناتی ہے۔ اس بیماری کو چاکلیٹ سسٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
اسباب
اسقاطِ حمل: کسی بھی وجہ سے حمل ساقط ہونے یا کرانے کے بعد اس ٹیومر کے بننے کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔
بنائل پرولیفریشن: زخم کی وجہ سے بچہ دانی کے خلیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ کئی بار حد سے زیادہ ان کی افزائش ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ٹیومر ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔
انفیکشن: بچہ دانی میں انفیکشن کی وجہ سے بھی ٹیومر ہوسکتا ہے۔
ٹیوب ویکٹنی: کئی بار خواتین حمل روکنے کے لیے’ٹیوب ویکٹنی‘ کراتی ہیں جو کہ اینڈومیٹری اوسِس کا سبب بن سکتا ہے۔
بیضہ دانی میں انفیکشن کی وجہ سے بھی بعض اوقات ٹیومر بن جانے کا خطرہ ہوجاتا ہے۔
اعضاء کو نقصان: اعضا میں انفیکشن یا کسی طرح کے زخم ہوجانے سے بھی ٹیومر ہوسکتا ہے۔
تشخیص: عام طور پر یہ بیماری غیر شادی شدہ لڑکیوں اور تیس سے پچاس برس کی خواتین کو ہوتی ہے، جو ماں بننے سے قاصر ہوں۔ ٹیومر ہونے کی صورت میں ایام شروع ہونے سے ۵-۷روز پہلے جسم کے نچلے حصے میں (ایبڈومنل) میں شدید درد ہوتا ہے۔ ایام کے دوران اور ایام ختم ہونے کے دو سے تین دن تک بھی شدید درد رہتا ہے۔
٭ٹیومر ہونے کے بعد عورت کے لیے جسمانی تعلق قائم کرنا انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔
٭ جو خواتین شادی کے دو تین سال بعد تک بھی حاملہ نہ ہوپائیں، عام طور پر انھیں بھی ٹیومر ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
٭ ٹیومر کی صورت میں ماہواری کے دوران کمردرد کی شکایت رہتی ہے۔
٭ بچہ دانی اور بیضہ دانی میں درد کی شکایت رہتی ہے۔
٭ ایام کے دوران بسا اوقات بخار بھی آجاتا ہے۔
٭ ماہواری بہت کم یا بہت زیادہ ہونے لگتی ہے۔ ماہواری کبھی وقت پر ہوتی ہے۔ کبھی نہیں ہوتی اور چلنے پھرنے میں بھی دقتیں پیش آتی ہیں۔
٭ پیشاب میں بھی خون آنے لگتا ہے۔
کتنی مہلک ہے
٭ ٹیومر کا علاج بہت سست رو ہوتا ہے۔ بعض اوقات ٹیومر کو ٹھیک ہونے میں مہینوں بلکہ برسوں لگ جاتے ہیں۔
٭ اس کے بعد خواتین کو حمل قرار پانے میں دقت پیش آتی ہے۔
٭ لاپروائی یا کسی اور وجہ سے بعض اوقات ٹیومر پھٹ بھی جاتا ہے۔
٭ اکثر قبض کی شکایت رہنے لگتی ہے۔
٭ کبھی کبھی یہ ٹیومر ’’ایڈینوکارسینوما‘‘ نام کے کینسر میں بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔
٭ ماہواری کے دوران جن لڑکیوں کو اکثر درد کی شکایت رہتی ہے وہ بالعموم درد کی دوائیں کھاکر کام چلا لیتی ہیں۔ حالانکہ اس سے ٹیومر بڑھنے کا خطرہ رہتا ہے۔
٭ ٹیومر بننے کے ابتدائی ایام میں ہی ناقابلِ برداشت درد ہوتا ہے۔ درد جسم کے نچلے حصے سے شروع ہوکر پورے پیٹ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
٭ ٹیومر کی وجہ سے شادی کے بعد تو دقتیں پیش آتی ہی ہیں شادی سے پہلے بھی انھیں پریشانی ہوتی ہے، جسمانی طور پر کمزور ہوجاتی ہیں، ذہنی تناؤ کا شکار رہتی ہیں۔ ہنگامی صورت حال میں اور بھی پریشانیاں ہوسکتی ہیں۔ اس کی وجہ سے کہیں باہر کام کرنے کے لیے نہیں جاسکتیں نیز اس دوران حد سے زیادہ خون آنے لگتا ہے۔
علاج
اس ٹیومر کا عام طور پر صرف ہارمونل تھیریپی کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔ خواتین کو ’’اینڈومیٹری اوسس‘ کی کوئی بھی علامت محسوس ہو تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ خیال رکھیں کہ یہ ایک مہلک بیماری ہے، اس لیے اس کے علاج میں لاپروائی مناسب نہیں ہے۔ فوری علاج کرانا ہی بہتر ہے۔ اس کے لیے پابندی سے جانچ کراتی رہیں۔
(ہندوستان ’ہندی‘ سے ترجمہ) ——

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں