اچھے رشتوں کا حصول مشکل کیوں؟

فوزیہ عباس، بھدراوتی

جب سے لوگوں نے رشتوں کے سلسلہ میں حرص اور لالچ کی روش اختیار کرکے دینداری کو پس پشت ڈالا ہے۔ معاشرے میں رشتوں کو لے کر پریشانیاں بھی بڑھی ہیں اور رشتوں میں خیرو برکت بھی ختم ہوگئی ہے۔ ہمارے معاشرے میں خاص طور پر لڑکیوں کے والدین بہت پریشان رہتے ہیں اور بعض اوقات لڑکیاں کسی مناسب رشتے کے انتظار میں شادی کی عمر سے آگے چلی جاتی ہیں۔ ان کے سر پر چمکنے والی چاندی رشتوں کے حصول میں مزید دشواریاں پیدا کرنے لگتی ہے۔ یہ کسی ایک گھر یا کسی ایک فیملی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ نا معلوم کتنی لڑکیاں، کتنے گھر اور کتنے خاندان اس سے متاثر ہیں۔
رشتہ کرانے والے جو ماضی میں اسے نیک کام سمجھ کر رضا کارانہ طور پر انجام دیتے اور دو خاندانوں کو ملانا اپنے لیے باعثِ اجر سمجھتے تھے اب ختم ہوگئے ہیں اور ان کی جگہ میرج بیورو نے لے لی ہے یا پھر انہی رشتہ کرانے والوں نے اسے ایک منافع بخش کاروبار سمجھ کر اپنالیا ہے، جس کی وجہ سے اچھے رشتے ملنے مشکل ہوگئے ہیں کیونکہ انھیں تو اپنے معاوضے سے غرض ہوتی ہے بعد میں جو بھی صورتحال ہو انھیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ نہ ہی وہ بعد کے حالات کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
جس گھر میں بیٹی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے لگتی ہے والدین کی نیندیں اڑنی شروع ہوجاتی ہیں اور وہ اس کے لیے جہیز اور اچھے رشتہ کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ ہر والدین کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی کو اچھا شوہر اور سسرال ملے۔ لہٰذا وہ اس سلسلے میں بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں اور اچھی طرح چھان بین کرکے اپنے داماد کا انتخاب کرتے ہیں مگر ایک دو نہیں بہت سی لڑکیوں کے ساتھ ایسا دیکھا گیا ہے کہ ماں باپ نے اپنی بیٹی کے لیے اچھا سا خاندان تلاش کرکے اس کی شادی کی مگر شادی کے بعد کی صورتحال نے نہ صرف انھیں مشکلات میں ڈال دیا بلکہ لڑکی کو بھی پریشان کرکے رکھ دیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب سماج میں باہمی تعلقات اور رشتوں ناطوں کے تانے بانے بہت کمزور ہوگئے ہیں اور لوگ ایک دوسرے کے حالات و کیفیات سے نہ تو آگاہ ہیں اور نہ آگاہی چاہتے ہیں۔ اس طرح ہر خاندان سماج میں رہتے ہوئے بھی تنہائی کا شکار ہے، کیونکہ ان کی مشکلات میں شریک ہونے والے خاندان نظر نہیں آتے۔
اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ رشتوں کے انتخاب میں لوگوں نے اخلاق و کردار اور سیرت و دین داری کو بالکل پیچھے کردیا ہے اور محض حسن و خوبصورتی اور دولت مندی کو معیار بنالیا ہے۔ ایسے میں بااخلاق اور سلیقہ مند تعلیم یافتہ لڑکیاں تک محض اپنے افلاس کے سبب رشتوں سے محروم رہتی ہیں کیونکہ ان کی قدر کرنے والے لوگ سماج میں نظر نہیں آتے۔
اچھے رشتوں کی تلاش کرنے والوں کے نزدیک ’’اچھے ہونے کا معیار‘‘ بھی خود ساختہ اور مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے معیار کے ہی ’’اچھے رشتے‘‘ تلاش کرتے رہتے ہیں اس سے لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی متاثر ہوتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود ساختہ ’’اچھائی کے معیار‘‘ پر پوری اترنے والی لڑکی نہ ملنے کے سبب لڑکوں کی عمریں بھی دراز ہوجاتی ہیں۔
آج سماج میں جو اس قسم کی صورتِ حال پیدا ہوئی ہے اس کے ذمہ دار ہم خود بھی ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی کی شادی ماں باپ کو کرنی ہوتی ہے۔ مگر جب وہ اپنے بیٹے کے لیے بہو تلاش کرتے اور رشتہ طے کرتے ہیں تو ان کی سوچ مختلف ہوتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دلہن انتہائی خوبصورت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو اور ساتھ ہی شایانِ شان جہیز بھی ملے۔ لیکن جب یہی معاملہ انھیں اس وقت پیش آتا ہے جب وہ اپنی لڑکی کے لیے رشتہ کی تلاش میں ہو ںتو سماج سے شکوہ و شکایت کرتے ہیں۔ وہ لڑکے کا رشتہ کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ لڑکی والے بھی ہیں۔ یہ سماج کے دوہرے معیار ہیں جنھیں ختم کرنا ضروری ہے۔
گزشتہ دور میں رشتے نیک نیتی اور ثواب کے جذبے کے تحت کرائے جاتے تھے جبکہ آج اس نے کاروبار کی شکل اختیار کرلی ہے اور یہ کافی منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔
آپ نے اکثر یہ بھی پڑھا ہوگا کہ ’’ہمارے یہاںفی سبیل اللہ رشتے کرائے جاتے ہیں۔‘‘ مگر وہاں جانے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کو حقیقت وہاں جاکر ہی معلوم ہوتی ہے۔ لڑکیوں کے مناسب رشتے نہ ملنے کی وجہ سے بھی اکثر والدین میرج بیوروز کا رخ کرتے ہیں اور وہاں رجسٹریشن فیس ادا کرکے اپنی لڑکیوں کے نام لکھواتے ہیں اس کے بعد ان کے گھر شادی کے خواہشمند مردوں کی لائین لگ جاتی ہے مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان میں بمشکل ہی کوئی مناسب رشتہ ملتا ہے ورنہ زیادہ تر ایڑے ٹیڑھے، عمر رسیدہ، دوسری شادی کے خواہشمند اور بے روزگار قسم کے شادی کے خواہش مند ہی ملتے ہیں اس طرح بیچاری لڑکی بھی عجیب تماشا بن جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نے بحیثیت لڑکی پیدا ہوکر کوئی بہت بڑا جرم کردیا ہے۔ اسے مناسب رشتے کے لیے بھیڑ بکریوں کی طرح پرکھا جاتا ہے۔ تمام رشتہ داروں کے سامنے تماشا بن کر پیش ہونا پڑتا ہے۔
یہ ساری صورتِ حال صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم نے جو اصل معیار تھا اسے چھوڑ کر دوسرے خود ساختہ معیاروں کا خود کو غلام بنالیا ہے۔ ہمارے رسولﷺ نے ہدایت دی تھی کہ جب تم لڑکی اور لڑکے کی دین داری پر مطمئن ہوجاؤ تو نکاح کردو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو سماج میں ایک فساد پیدا ہوجائے گا۔ اور آج جو کچھ ہورہا ہے وہ وہی فساد ہے، جو دین داری کو ترک کرنے کا نتیجہ ہے۔
آپؐ نے مردوں کو بھی ہدایت کی تھی کہ مال و دولت اور خاندانی شرافت کو بنیاد بنانے کے بجائے نکاح کے لیے دین داری کو بنیاد بنائیں۔ مگر ایسے کتنے لوگ ہیں؟ اس پر بھی غور کیا جائے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146