ہمارے معاشرے میں ناخواندگی کے بادل چھٹتے جارہے ہیں، علم کا نور بتدریج پھیل رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ چھوٹی عمر سے بچوں کو اسکول کی راہ دکھانا ہے۔ مگر اس کے برعکس مساجد میں چھوٹے بچوں کی آمد کے حوالے سے رویہ سخت تر ہوتا چلا گیا۔ یوں آج مساجد میں بوڑھے کثرت سے اور جوان بالعموم کم … مگر بچے خال خال نظر آتے ہیں۔
حالانکہ سیرت النبیﷺ و دیگر اصلاحی و تربیتی محافل میں یہ بات بڑے زور وشور سے کہی جاتی ہے کہ ’’سات سال کے بچے کو مسجد میں لانماز کو۔‘‘ اسی کو آگے چل کر زور دیتے ہوئے یوں بیان کیا جاتا ہے کہ گیارہ سال کے بچے کو مسجد میں ضرور لایا جائے۔ اگر بچہ آنے میں پس و پیش کرے تو اس پر سختی کی جائے، یہاں تک کہ اگر ضرورت پیش آئے تو سزا دینے کے لیے مارپیٹ کی اجازت بھی ہے۔ یہ روایت بچوں کو نماز کی پابندی کرانے کے حوالے سے رائج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کی انگلی پکرے انھیں مساجد کی طرف لے جایا کرتے تھے۔ یہ رواج نمازِ جمعہ اور عیدین میں خصوصیت کے ساتھ دیکھنے میں آتا رہا۔ مگر گزشتہ دو تین عشروں سے اس روایت میں کچھ کمی آتی جارہی ہے۔ والدین اول تو بچوں کو لانے سے ہچکچاتے ہیں، لکین اگر کچھ روایت پسند اس عمل کی تقلید میں بچوں کو مسجد میںلے آئیں تو انھیں بڑی شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے، جس کی وجہ فرض نماز کی ادائیگی کے فوری بعد ان بچوں کی سرزنش اور پھر بچوں کے والدین کی شناخت کے بعد ان بچوں کی شرارتوں کی طرف توجہ دلانا ہے۔
بچوں کو مسجد میں لانے اور ان کی شرارت کی بنا پر جس شرمندگی اور سبکی کا احساس والدین یا دیگر بزرگوں کو ہوتا ہے، اس کی اکثر وجہ بچے نہیں۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر بچے بڑے اہتمام کے ساتھ صف بناتے اور نماز کی ادائیگی میں مصر وف ہوتے ہیں، مگر چند بچے اس موقع پر شرارت پر اتر آتے ہیں۔ یوں دھکا دینے، کچھ پوچھنے یا مختلف اشارے کرنے کی بنا پر بچے ہنسنے یا دیگر مشاغل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچے صف بنائے بڑی تنظیم کے ساتھ کھڑے ہیں، اس اثناء میں کوئی بڑا آیا اور اس نے بچوں کو سب سے پیچھے کی طرف دھکیل کر خود اس کی جگہ سنبھال لی۔ یوں انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ کھڑے ہونے کے باوجود جب بچوں کی توہین اور تذلیل ہوتی ہے تو وہ تمام اخلاقی تلقین اور تربیت کو فراموش کرکے شرارت پر اتر آتے ہیں۔ اس بارے میں پاکستان کے مشہور عالم مفتی عبدالرؤف سکھروی لکھتے ہیں: ’’بچوں کی صف کا مردوں کی صف کے پیچھے ہونا سنت ہے، لہٰذا جب جماعت کا وقت ہو اور بچے حاضر ہوں تو پہلے مرد اپنی صفیں بنائیں، پھر ان کے بعد بچے اپنی صفیں بنائیں۔ پھر اس ترتیب سے جماعت قائم ہوجانے کے بعد اگر بعد میں کچھ مرد حاضر ہو ں تو اول وہ مردوں کی صفوں کو مکمل کریں، اگر وہ پوری ہوچکی ہوں تو پھر بچوں کی صف ہی میں دائیں بائیں شامل ہوجائیں، بچوں کو پیچھے نہ ہٹائیں، کیونکہ بچے اپنے صحیح مقام پر کھڑے ہیں اور مردوں اور بچوں کی مذکورہ ترتیب جماعت کے شروع میں ہے۔ نماز شروع ہوجانے کے بعد نہیں۔‘‘ مفتی عبدالرؤف صاحب بچوں کو مردوں کی صفوں کے درمیان شامل کرنے کی گنجائش بھی پیش کرتے ہیں جس کے مطابق اگر بچے تربیت یافتہ نہ ہوں اور دورانِ نماز شرارتیں کریں جس سے اپنی نماز کو باطل کرنے یا ان کے کسی طرزِ عمل اور شرارت سے مردوں کی نماز باطل ہوجانے کا قوی اندیشہ ہو تو پھر ان کی علیحدہ صف نہ بنائی جائے، بلکہ ان کو منتشر اور متفرق طور پر مردوں کی صفوں میں کھڑا کرنا چاہیے اور بہتر ہوگا کہ ان بچوں کی صف میں انتہائی بائیں جانب یا دائیں جانب متفرق طور پر کھڑا کیا جائے تاکہ وہ نماز میں کوئی شرارت کرکے اپنی یا دوسروں کی نماز برباد کرنے کاذریعہ نہ بنیں۔ ایسی صورت میں مردوں کی صفوں میں ان کے کھڑے ہونے سے مردوں کی نماز میں کوئی کراہت نہ آئے گی۔
ہمارے معاشرے میں یہ رویہ فروغ پا رہا ہے کہ اکثر بڑے اپنے بچوں کو مسجد میں لانے سے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کی شرارت کی وجہ سے خجالت اور شرمندگی کا سامنا نہ ہو۔ اس طرح بچوں کی تربیت نہیں ہوپارہی ہے، ساتھ ہی مساجد میں بچوں کی عدم موجودگی بھی خصوصیت سے محسوس ہوتی ہے۔ کسی بھی کام کی عادت بچپن ہی سے پڑا کرتی ہے،عمر کی پختگی کے ساتھ کسی نئے کام کو کرنے سے بڑی شرم محسوس ہوتی ہے۔ اگر بچپن ہی سے بچوں کو مسجد میں لایا جائے گا تو یقینِ کامل ہے کہ دیکھ دیکھ کر وہ نماز کی ادائیگی سیکھ جائیں گے۔ گھر میں رہ کر ان کی تربیت ایک حد تک تو ہوسکتی ہے، مگر آدابِ نماز مسجد آکر ہی زیادہ بہتر طور پر آئیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے بچے یا چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ لائیں اور ابتدائی طور پر اپنے برابر میں کھڑا کریں۔ ساتھ ہی اسے یہ احساس دلائیں کہ مسجد اللہ کا گھر ہے، یہاں شرارت کرنا بے ادبی اور گناہ ہے۔ اس طرح امید ہے کہ بچہ آپ کی قربت کے پیشِ نظر بھی خیال رکھے گا کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں۔ اس طرح وہ شرارت سے بچنے کی کوشش کرے گا۔ پھر بھی اس سے اگر کوئی لغزش ہوجائے تو اسے سب کے سامنے ڈانٹنے اور بے عزت کرنے کے بجائے برے آرام اور تحمل سے سمجھائیں۔ اس طرح اس کی اصلاح بھی ہوگی اور اسے حوصلہ بھی ملے گا۔ یوں وہ کامل مسلمان بن جائے گا۔
مسجد اور بچوں کا تعلق ہمیشہ سے ہے۔ خود نبی مکرم ﷺ اپنے نواسوں حضرت امام حسنؓ و حسینؓ کو مسجد میں لاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ واقعہ دیکھئے۔ ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ دے رہے تھے، اسی اثناء میں حسنؓ اور حسینؓ آئے۔ انھوں نے سرخ رنگ کی قمیص پہنی ہوئی تھیں اور وہ چلتے ہوئے لڑکھڑا رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ فرطِ محبت سے منبر سے نیچے تشریف لائے اور ان دونوں کو اٹھا لیا اور اپنے سامنے بٹھا دیا۔ پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے تمہارا مال اور اولاد فتنہ (آزمائش) ہیں۔ جب میں نے ان دونوں بچوں کو چلتے اور لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا تو میں صبر نہیں کرسکا۔ یہاں تک کہ مجھے اپنی بات ختم کرنا پڑی اور ان دونوں کو اٹھا لیا۔‘‘
دورانِ نماز بچوں کی موجودگی کے حوالے سے یہ روایت خصوصی اہمیت کی حامل ہے: ’’حضرت عبداللہ بن شداد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ظہر یا عصر میں سے کسی نماز کے وقت رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور آپ حسنؓ اور حسینؓ کو اٹھائے ہوئے تھے۔ آپ نے اس کو آگے کرکے بٹھا دیا اور نماز کے لیے تکبیر کہہ کر نماز شروع کی۔ پھر جب سجدہ کیا تو آپ ﷺ نے اپنی نماز کے درمیان سجدہ کو طویل کیا۔ میرے والد کہتے ہیں کہ میں نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا تو رسول اللہ سجدے کی حالت میں ہیں اور بچہ آپ کی پیٹھ پر بیٹھا ہوا ہے، یہ دیکھ کر میں واپس سجدے میں چلا گیا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نے نماز پوری کی تو لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ آپ نے اپنی نماز کے درمیان سجدہ اتنا طویل کیا، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ کوئی معاملہ درپیش آیا ہے، یا پھر آپ کی طرف وحی کی جارہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ان میں سے کوئی بات نہ تھی، لیکن میرا بیٹا میرے اوپر سوار تھا اور مجھے یہ بات ناپسند لگی کہ میں اس کے لیے عجلت سے پیش آؤں (جلدی کروں) یہاں تک کہ وہ اپنی (کھیلنے کی) ضرورت پوری کرلے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی روایت ہے کہ میں نے حسن بن علیؓ کو دیکھا کہ وہ نبی پاک ﷺ کے پاس آتے۔ جب آپ سجدے میں ہوتے تو آپؐ کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے۔ آپؐ انھیں اتارتے نہیں تھے، جب تک خود نہ اتر جاتے اور وہ آتے اور آپ رکوع کررہے ہوتے تو آپ دونوں پیروں کو پھیلا دیتے اور وہ دوسری طرف نکل جاتے۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز پڑھ رہے ہوتے اور حسنؓ اور حسینؓ آپ کی پیٹھ پر کھیلتے کودتے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت ابوہریرہؓ نے کہا: یا رسول اللہ! میں ان کو ان کی ماں کے پاس نہ چھوڑ آؤں؟ تو آپؐ نے فرمایا: نہیں۔ پھر بجلی چمکی تو وہ دونوں اس کی روشنی میں چل پڑے، یہاں تک کہ اپنی والدہ کے پاس پہنچ گئے۔‘‘
عمیق مطالعے کے بعد بھی کوئی ایسی روایت نہیں ملی، جس کے ذریعے یہ ثابت ہو کہ نبی مکرم حضرت محمد ﷺ سیدنا حسنؓ و حسینؓ کے اوقاتِ نماز میں مسجد آنے پر ناراض ہوئے ہوں، اور اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمہ زہراؓ سے کبھی یہ کہا ہو کہ بچے مسجد نماز کے دوران ہی کیوں جاتے ہیں! یا روکنے کی ہدایت کی ہو۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سیدنا حسنؓ اور حسینؓ نے حضور اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا جو زمانہ پایا اس میں ان کی عمریں محض چند سال تھیں۔
یہی نہیں، بچوں کے حوالے سے نماز میں چھوٹی سورتیں پڑھنے کا بھی حکم ہے تاکہ بچوں کے رونے سے ان کی ماں یا دیگر نمازیوں کا دھیان بٹنے کا امکان کم رہے۔ حضرت ابوقتادہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز لمبی کروں، پھر بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز اس ڈر سے مختصر کرتا ہوں کہ اس کی ماں کے لیے تکلیف کا سبب نہ بن جائے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نماز میں ہوتے اور کسی ماں کے ساتھ آنے والے بچے کے رونے کی آواز سنتے تو ہلکی سورۃ پڑھتے تھے۔
حضرت انسؓ کہتے ہیںکہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے قرآنِ مجید کی دو چھوٹی سورتوں کے ساتھ ہمیں فجر کی نماز پڑھائی۔ پس جب آپؐ نے اپنی نماز پوری کی تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں نے نماز میں جلدی کی تاکہ بچے کی ماں اپنے بچے کے لیے فارغ ہوجائے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپؐ نے ایک بچے کی آواز سنی۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ خانہ کعبہ اور مسجدِ نبوی میں بچوں کو ساتھ لانے کا عام رواج ہے۔ تقریباً تمام ہی نمازوں میں ناسمجھ اور سمجھ دار ہر دو قسم کے بچے ہوتے ہیں اور ان مقاماتِ مقدسہ پر کثیر تعداد کے پیشِ نظر یہ اہتمام بھی نہیں ہوپاتا کہ مردوں کی صفوں کے بعد بچوں کی صف بنائی جائے، بلکہ بچوں کو اپنے ساتھ کھڑا رکھنے کا رواج ہے۔ خود میںنے دیکھا کہ مغرب کی نماز کے دوران بیت اللہ اور پہلی صف کے درمیان بچے بھاگتے دوڑتے رہے۔ مجھے خدشہ ہوا کہ نماز کے بعد ان بچوں کو بری طرح ڈانٹایا پیٹا جائے گا مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نماز کے بعد بچوں کو ان کے والدین نے بڑے پیار سے چوما اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اسی طرح مسجدِ نبوی میں بھی ہوا اور جب میرے خدشے کے پیشِ نظر بچوں کی سرزنش نہ ہوئی تو میں نے مدینے میں مقیم اپنے ایک عزیز سے استفسار کیا کہ ہمارے یہاں تو والدین خود اور دیگر نمازی بچوں پر برس پڑتے ہیں، مگر یہاں بچوں کو ڈانٹنا تو کجا انھیں پیار کرنے اور چومنے کی کیا وجہ ہے؟ وہ بولے: اچھا ہوا تم نے اس پورے معاملے کو خاموشی سے دیکھا، اگر کہیں غلطی سے بچوں کو ڈانٹ دیتے یا ان کے والدین سے شکایت کرتے تو لوگ تم پر برس پڑتے، کیونکہ یہ عام خیال ہے کہ مسجدِ نبوی پر بچوں کا حق سب سے زیادہ ہے۔ اگر وہ نادانی میں بھاگیں ، دوڑیں، شرارت کریں یا نمازیوں کی پیٹھ پر چڑھ جائیں تو کوئی حرج اور کراہیت کی بات نہیں، کیونکہ حضرت امام حسنؓ اور حسینؓ بھی مسجد میں بھاگتے دوڑتے آتے اور منبر تک چلے جاتے تھے۔
میں سوچتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں بچوں اور مسجد کے تعلق کے درمیان ایک خلیج حائل کردی گئی ہے، اگر کوئی اپنے بچے کو ساتھ لے آئے اور برابر میں کھڑا کرے تو دوسرے اعتراض کرتے ہیں، اگر بچے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں تو دورانِ نماز چند بچوں کی شرارت پر سب بچوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے، برا بھلا کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی اپنے بچے کی حمایت لے تو اسے بھی آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بچے مسجد میں آنے سے کتراتے ہیں۔ یوں مساجد بچوں سے غیر آباد ہوتی جارہی ہیں۔
اب ذرا اپنے گردوپیش پر نظرکیجیے۔ ہماری اکثر مساجد کے گرد دکانیں ہوتی ہیں۔ ایک اسلامی معاشرہ ہونے کے باوجود دکاندار اور قریبی مکین مسجد کے تقدس سے نا آشنا ہیں۔ موسیقی، گانے، اعلانات اور اشیائے ضروریہ بیچنے والوں کی صدائیں… ان سب سے بڑھ کر قریب سے گزرنے والی گاڑیوں کا شور اور بلا وجہ ہارن کا استعمال … ان مواقع پر مسجد میں موجود نمازی کیا کرتے ہیں؟ محض ان امور کو نظر انداز کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ دکاندار یا صاحبِ مکان کو کچھ کہہ تو دے۔ ہاں اگر غصہ آتا ہے تو ان معصوم بچوں پر جو اپنے والدین کے ہمراہ خوشی خوشی مسجد میں آتے ہیں اور ابھی آدابِ نماز اور احترامِ مسجد سے واقف نہیں۔ اس لیے دورانِ نماز بچے گلیوں میں کھیلنے یا گھروں میں ٹی وی دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ عمل اسلامی معاشرے کی تیاری کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ آئیے ! غور کریں ہم کس طرح بچوں کو مسجد میں لاکر ان کی بہتر تربیت کرسکتے ہیں۔
——