قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
٭… ’’اور جو تم کیا کرتے تھے اس کی بابت تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔‘‘ (النحل:۹۳)
٭… جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا، پھر جو اعمال انھوںنے کیے ہیں، ان سے انھیں خبردار کرے گا۔ اللہ نے انھیں گن رکھا ہے اور وہ انھیں بھول گئے ہیں اور اللہ ہر شے پر موجود ہے۔‘‘ (المجادلہ:۶)
٭…’’پھر قیامت کے دن وہ انھیں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا، بیشک اللہ ہر شے کو جانتا ہے۔‘‘ (المجادلہ: ۷)
٭…’’پھر اس دن تم سے نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ (التکاثر: ۸)
٭… ’’قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا۔ جس کا روائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم سامنے لے آئیں گے۔ اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں۔‘‘ (الانبیا: ۴۷)
حضرت ابنِ عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے سناکہ
’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس امام بھی نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا، اور مرد اپنے گھر والوں کے لیے نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت نگراں ہے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی، اس سے اس کے بارے میںسوال کیا جائے گا۔‘‘
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس کچھ غلام ہیں۔ وہ مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں اور میری چیزوں میں خیانت بھی کرتے ہیں اور میری نافرمانی بھی کرتے ہیں اور میں کبھی انھیں گالیاں دیتا ہوں اور کبھی مارتا بھی ہوں۔ پس ان کی وجہ سے قیامت کے دن میرا کیا حال ہوگا؟
حضورﷺ نے فرمایا کہ تمہارے ان غلاموں نے تمہاری جو خیانت اور نافرمانی کی ہوگی اور تم سے جو جھوٹ بولا ہوگا اور پھر تم نے ان کو جو سزائیں دیں ہوں گی قیامت کے دن ان سب کا پورا پورا حساب کیا جائے گا۔ پس اگر تمہاری سزا ان کے قصوروں کے بقدر ہی ہوگی تو معاملہ برابر پر ختم ہوجائے گا۔ نہ تم کو کچھ ملے گا اور نہ تمھیں دینا پڑے گا، اور اگر تمہاری سزا ان کے قصوروں سے کم ثابت ہوگی،تمہارا فاضل حق تمھیں وہاں ملے گا (یعنی اتنا تمھیں ثواب مل جائے گا) اور اگر تمہاری سزا ان کے قصوروں سے زیادہ ثابت ہوگی تو تم سے ان کا بدلہ اور قصاص دلوایا جائے گا۔
(جب اس شخص نے حضورﷺ کا یہ جواب سنا) تو آپﷺ کے پاس سے ایک طرف ہٹ کر رونے اور چلانے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ کیا تم قرآنے مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں پڑھتے: ’’اور ہم قائم کریں گے قیامت کے دن انصاف کے ترازو۔ پس نہیں ظلم ہوگا کسی نفس پر کچھ بھی اور اگر کسی کا عمل یا حق رائی کے دانے کے برابر بھی ہوگا تو ہم اس کو بھی حاضر کریں گے اور حساب لینے کو ہم کافی ہیں۔‘‘ (الانبیاء:۴۷)
اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اپنے لیے اور ان کے لیے اس سے بہتر کچھ نہیں سمجھتا کہ ان کو اپنے سے الگ کردوں۔ میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے انھیں آزاد کردیا اور اب وہ آزاد ہیں۔‘‘ (ترمذی)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے بعض نمازوں میں رسول اللہ ﷺ کو یہ دعا کرتے سنا:
’’اے اللہ! میرا حساب آسان فرما۔‘‘
میں نے عرض کیا: ’’آسان حساب کا کیا مطلب ہے؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا: آسان حساب یہ ہے کہ بندے کے اعمال نامے پر نظر ڈالی جائے اور اس سے درگزر کیا جائے۔ (یعنی کوئی پوچھ گچھ اور جرح نہ کی جائے بلکہ اللہ تعالیٰ معاف کردے) بات یہ ہے کے جس کے حساب میں اس دن جرح کی جائے گی، اے عائشہ! وہ ہلاک ہوجائے گا۔‘‘ (مسند احمد)
حضرت عمر بن عبدالعزیز کا عام معمول یہ تھا کہ عشاء کے بعد اپنی مسجد میں بیٹھ کر دعائیں کرتے اور روتے جاتے۔ ایک دن آپ کی بیوی فاطمہ بنت عبدالملک نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:
’’میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میں اس امت کے چھوٹے بڑے اور سیاہ و سفید کی قسمت کا مالک ہوں۔ پھر میں نے بے کس، غریب، محتاج، فقیر، گم شدہ، قیدی اور انھیں کی طرح کے اور لوگوں کو یاد کیا تومجھے یقین ہوگیا کہ خدا ان کے بارے میں مجھ سے سوال کرے گا اور محمدﷺ ان کے متعلق مجھ پر دعویٰ کریں گے۔ اس لیے اس تصور سے مجھے جان کا خوف پیدا ہوگیا، میرے آنسو جاری ہوگئے۔ اور میدا دل خوفزدہ ہوگیا اور میں جس قدر اس کو یاد کرتا ہوں میرا خوف بڑھتا جاتا ہے۔‘‘
——