نازیبا گفتگو اور اس کے منفی اثرات

رابعہ شکیل احمد

عہدِ جدید میں دنیا میں تیز تر ترقی کے ہدف کو حاصل کرنے اور دورِ جدید کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کا نکل کھڑا ہونا ضروری ٹھیرا تو عورت بھی زندگی کی ہر دوڑ میں مرد کے شانہ بشانہ رہنے لگی۔ اس سے معاشرے کی مادی ترقی کی رفتار میں زبردست اضافہ ہوا کیونکہ تقریباً نصف آبادی اضافی افرادی قوت کی صورت میں ملکی معیشت کی ترقی میں اہم کردارادا کرنے لگی، لیکن سب سے زیادہ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل واہیات اور غیر اخلاقی الفاظ کے استعمال کو فیشن سمجھنے لگی ہیں۔ حقیقت میں سرعام گالی گلوچ کو آزادانہ استعمال ہمارے معاشرے کے بہت سے بڑے مسائل میں سے ایک ہے جس کا سامنا بلاشبہ خواتین کو کرنا پڑتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’انسان اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے۔‘‘ گویا انسان کی اخلاقیات، تربیت، گھریلو، ماحول اور خاندانی پس منظر… غرض یہ کہ اس کی مکمل شخصیت کے آئینہ دار گفتگو کے دوران زبان سے ادا ہونے والے الفاظ ہیں۔ گویا غیر مہذب الفاظ کے استعمال سے ایک طرف تو اس بات کرنے والے شخص کی ذات داغدار ہوسکتی ہے اور دوسری طرف اس کے خاندان اور دوست و احباب کا بھی منفی تاثر ابھرتا ہے۔
علاوہ ازیں گھر سے نکلنے والی خواتین بھی گلی کوچوں، بس اسٹاپوں، سڑکوں، بازاروں یا تعلیمی اداروں میں یا پھر موبائل پیغامات، فون یا انٹرنیٹ پر چیٹنگ کے ذریعے نازیبا گفتگو کا شکار بنتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ گھر سے نکلنے والی عام خاتون قدم نکالنے سے لے کر واپس دروازے پر قدم رکھنے تک نفسیاتی دباؤ اور پریشانی کا شکار رہتی ہے۔ معاشرے میں گالی گلوچ سے متعلق بے حسی کا یہ عالم ہے کہ گالی گلوچ کرنے والے افراد بلا سوچے سمجھے ان بے ہودہ الفاظ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ دورانِ گفتگو گالی گلوچ کرنے والے اشخاص اپنے قریب بیٹھے لوگوں سے بے پروا ، بلا تکان گفتگو میں جابجا نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں، جو نہ صرف سننے والوں بلکہ آس پاس موجود لوگوں کو بھی ناگوار گزارتے ہیں۔ لیکن ان کے ذہن میں یہ تصور قطعاً موجود ہی نہیں کہ ہمارے یہ الفاظ دیگر لوگوں کی سماعتوں پر کس قدر منفی تاثر پیدا کررہے ہیں۔
صرف دین اسلام ہی نہیں، بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے کی تعلیمات غیر اخلاقی الفاظ اور گفتگو کی سختی سے مذمت کرتی ہیں۔ ہر سطح پر معاشرے کی اصلاح کی اہمیت کو اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کام کی شروعات فی الفور کردی جائے، جبکہ سب سے اولین اقدام گھروں میں عام بول چال کے معیار کو بہتر بنانا اور دورانِ گفتگو مہذب الفاظ کے استعمال کا رواج ڈالنا ہے۔ اس کے علاوہ درس گاہوں، سرکاری و غیرسرکاری اداروں اور دفاتر سمیت عوامی مقامات پر گالی گلوچ اور غیر مہذب گفتگو کرنے والے افراد کی حوصلہ شکنی کرنا اور انھیں غلطی کا احساس دلانا بھی ازحد ضروری ہے۔ معاشرے کو اس برائی سے پاک کرنا محض چند لوگوں کی کوششوں سے ممکن نہیں، اس لیے ضروری ہے کہ تمام افراد بلا تفریق منظم ہوکر اس عفریت کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146