میں دفتر سے تھکا تھکا آیا تو بیوی نے بتایا ’’نصیبن آئی تھی، محلے میں پیر صاحب آئے ہوئے ہیں۔ ‘‘اور میرے منہ سے بے اختیار نکل پڑا ’’آنے دو کیا ہوا۔‘‘ بیوی نے حیرت سے میرامنہ دیکھا اور جب چہرے پر کوئی خاص کیفیت نظر نہ آئی تو اس نے جھنجھلا کر کہا: ’’آپ دفتر ہی میں رہنا شروع کردیجیے، یہاں آنے کی زحمت کیوں کرتے ہیں، ہر وقت آفس ہی کی فکر رہتی ہے، مجھ سے کوئی مطلب ہی نہیں۔‘‘ اور میں چونک کر رہ گیا۔ خیال آیا کہ بیوی سے نصیبن کی آمد کی وجہ پوچھنی چاہیے۔ میں نصیبن کی اہمیت بھول گیا تھا، وہ ایسی عورت ہے جو غفور شاہ کی اختری سے لے کر ٹھیکیدار صاحب کی بہو تک کی خبر رکھتی ہے۔ وہ ایک طرح کی موبائل نیوز ایجنسی ہے۔ اس بار بھی وہ کسی کی لڑکی کے فرار ہونے کی خبر لائی ہوگی اور میں نے موقع کی نزاکت کا خیال نہیں کیا۔ بیوی سے شرمندہ تھا لیکن اسے کس طرح سمجھاتا کہ دفتر کے کاموں سے کہا فرصت ملتی ہے، کہ گھر کے لیے سوچوں، زندگی تو فائلوں کی ورق گردانی کے لیے وقف ہوکر رہ گئی ہے۔ دفتر کے اسٹاف کے دوسرے لوگوں کے گھروں پر نصیبن کی آمد نے کیا آفت ڈھائی ہوگی اور ان کی گھر والیوں نے کیا ستم توڑے ہوں گے؟
’’اچھا تو نصیبن کس لیے آئی تھی؟‘‘ میں بیوی سے مخاطب ہوا۔
’’کچھ نہیں، تمھیںپوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اس نے روٹھ کر منہ پھیرلیا۔
’’بھئی اس میں روٹھنے کی کیا بات ہے، اب بتادو۔‘‘ بڑی مشکل سے بیوی کو سمجھانے میں کامیاب ہوا۔ ایسے تجربے شوہروں کو آئے دن ہوا کرتے ہیں۔ خیر بڑی مشکل سے بیوی کی غلط فہمی دور کرنے میں کامیاب ہوا۔ اور طویل قیل و قال کے بعد بیو ی کو اپنے بے پناہ جذبۂ محبت کا یقین دلانے میں کامیاب ہوسکا۔
’’انجان پیر کے عرس پر پیر صاحب آئے ہیں؟‘‘ بیوی نے بتایا۔
’’اچھا کہاں ٹھہرے ہیں؟‘‘
مسجد کے حجرے میں ٹھہرے ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر بیوی نے ادھر ادھر غور سے دیکھا اور کھسک کر میرے قریب آگئی، بالکل قریب! اور رازدارانہ لہجے میں بولی:’’ بڑے مرتبہ کے بزرگ ہیں۔ پھلواری شریف سے غریب نواز کی بشارت پر یہاں آئے ہیں۔‘‘
’’تو میں کیا کروں؟‘‘
’’توبہ ہے تم پر، تمہاری یہی عادت مجھے ایک دم نہیں بھاتی، بس درمیان میں ٹپک جاتے ہو، پوری بات تو سنو!‘‘
’’اچھا سناؤ۔‘‘
’’نصیبن کہہ رہی تھی، پیر صاحب کی ایک ہی نگاہ سے کایا پلٹ ہوجاتی ہے۔ پرسوں ہی جمن سوا روپے کا تعویذ لے گیا۔ فوراً بھارت بس کمپنی کی نوکری مل گئی۔ بیتے سال سلیمان کی بیوی کو ایک تعویذ گھول کر پینے کے لیے دیا تھا، دیکھئے اب اس کی گود میں بچہ ہے، میں کہتی ہوں تم بھی سویرے اٹھ کر سیدھے پیر صاحب کے پاس جاؤ۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’لو اور سنو، یہ بھی میں ہی بتاؤں گی؟‘‘ وہ شرما گئی۔
مجھے فوراً احساس ہوا کہ صبا او رمیری شادی کو پانچ سال ہوئے۔ لیکن ابھی تک گھر کا آنگن ننھے منے معصوم بچوں کی کلکاریوں سے محروم ہے۔ گھر کے صحن میں زندگی ابھی تک گھٹنوں کے بل نہیں چلی۔ میں نے اپنی نگاہ جھکاتے ہوئے کہا: ’’تم جانتی ہو، میں تعویذ اور گنڈوں پر یقین نہیں رکھتا۔ لیکن تم کہتی ہو تو میں خود ہی تعویذ لکھ کر دوں گا!‘‘
’’جی ہاں، چار حرف عربی کے آپ نے کیا پڑھ لیے ہیں خود کو عالم سمجھ بیٹھے۔ اگر تمہارے اندر یہی خوبی ہوتی تو رونا کس بات کا تھا۔ آج میں اپنی قسمت کو کیوں روتی اور ابھی تک میری گود کیوں سونی رہتی۔‘‘ وہ گلوگیر ہوگئی۔
’’ارے پیر صاحب بھی تو یہی لکھ کر دیں گے اور کیا دیں گے؟‘‘
’’بس بس رہنے دو، مجھے تمہارا تعویذ نہیں چاہیے میں کہتی ہوں، تم جاکر تو دیکھو، سچ کہہ رہی ہوں، اتنے بڑے گھر میں اکیلے میرا دل گھبراتا ہے۔ تم دفتر چلے جاتے ہو، اور میں اکیلی گھر میںباؤلی کی طرح ادھر ادھر ماری ماری پھرتی ہوں۔‘‘
میں نے نگاہ اٹھائی تو دیکھا صبا کی سیاہ گہری آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو کے قطرے تیر رہے ہیں۔ مجھے ترس آگیا۔ آہستہ سے اس کا گال تھپ تھپاتے ہوئے کہا: ’’اچھا تم کہتی ہو تو چلا جاؤں گا۔‘‘
’’سچ؟‘‘ وہ فرطِ مسرت سے چہک اٹھی۔
’’تمہاری قسم! سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘
صبح کے وقت صبا نے جگایا تو ساڑھے نو بج رہے تھے، وہ بڑی جھلاہٹ میں چیخ رہی تھی ’’میں کہتی ہوں، اب اٹھیے بھی، خدا کی پناہ دس بج رہے ہیں۔ اور آپ ابھی تک سو رہے ہیں۔‘‘
’’آخر کون سی ایسی قیامت آگئی؟‘‘میں جھنجھلا کر اٹھ بیٹھا۔
’’تو کیا پیر صاحب کے پاس نہیں جانا ہے؟‘‘
’’لعنت ہے بھئی تمہارے پیر صاحب پر‘‘
’’ارے کیا بک رہے ہو، فوراً توبہ کرو، پیر صاحب خدا کے خاص بندے ہیں۔‘‘
میں نے نظر اٹھائی تو دالان میں نماز کی چوکی پر نصیبن رونق افروز تھی۔
جلدی سے غسل کرکے لباس تبدیل کیا اور اخبار پڑھنے لگا۔ بیوی نے اتنی دیر میں ناشتہ میز پر لگادیا، گرم گرم انڈے کا حلوہ، چپاتی اور چائے۔ میں بیوی کی اس رشوت پر دل ہی دل میں مسکرا اٹھا۔
بیوی نصیبن سے نہ جانے کیا کھسر پھسر کررہی تھی۔
شام کے وقت پانچ بجے گھر لوٹا تو بیوی کو اپنا منتظر پایا اس نے دہکتی ہوئی … نگاہوں سے میری طرف دیکھا فرطِ غضب سے اس کا چہرہ سرخ تھا۔ نصیبن پان کی گلوری چبا رہی تھی۔ وہ مجھے دیکھتے ہی بولی: ’’گئے تھے پیر صاحب کے پاس؟‘‘
’’ہاں گیا تھا، ملاقات نہ ہوسکی۔‘‘ میں صفائی سے جھوٹ بول دیا۔
نصیبن نے معنی خیز نگاہوں سے میری طرف دیکھا او ربولی:’’میاں ایک کی سیٹی تک تو تم گئے نہیں، خدا سے ڈرو، جھوٹ بولنا کفر ہے۔‘‘
’’آخر وہ کون سے خدا کے برگزیدہ بندے ہیں۔‘‘ مجھے بھی غصہ آگیا۔
بیوی نے ملامت آمیز نگاہوں سے میری جانب دیکھا۔ اور نصیبن جلدی سے دونوں کان پکڑتے ہوئے بولی ’’توبہ توبہ حمید میاں، کیا بک رہے ہو، خدا کے غضب سے ڈرو، اس کی لاٹھی بے آواز ہے، کیا کفر بک رہے ہو۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے بغل سے سیاہ برقع نکالا اور ٹوٹی ہوئی جوتیوں کو چٹخاتی ہوئی گھر سے نکل گئی۔
نصیبن کے جاتے ہی بیوی نے ماتھا پیٹ لیا ’’ہاں میں تو جنم جلی ہی ہوں، میری اس گھر میں کون سنتا ہے۔‘‘
’’تمہیں تو کوئی بہانہ چاہیے۔‘‘
’’ہاں، ہاں پاگل جو ہوں۔‘‘ اس نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھالیے ’’یا اللہ اب تو مجھے اٹھالے، اس گھر کی بیوی نہ ہوئی، لونڈی ہوگئی۔‘‘ اور پھر آنچل میں منھ چھپا چھپا کر زور زور سے رونے لگی۔
جنگ کے اس مہلک اور دفاعی ہتھیار سے میں ہمیشہ شکست کھاتا آیا ہوں۔ میں گھبرا اٹھا، سوچا ہمسایہ کی عورتیں آجائیں گی تو کیا جواب دوں گا۔ کس کس کو جواب دوں گا، عورتوں کی جماعت مجھے ہی موردِ الزام ٹھہرائے گی، میں نے فوراً ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا: ’’بھئی اب چپ بھی رہو، صبح دھیان نہیں رہا۔ ابھی چلا جاؤں گا۔‘‘
کھانا کھاکر تقریباً دو گھنٹے بعد مسجد میں پہنچا تو لوگ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر جاچکے تھے۔ مسجد کے اندر کوئی نمازی نہ تھا، پیر صاحب کا حجرہ اندر سے بند تھا۔ تیز زرد روشنی دروازے کے شگافوں سے چھن کر باہر آرہی تھی۔ میں آہستہ آہستہ قدموں سے چلتا ہوا دروازے کے قریب آیا اور آواز دینے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ اپنا نام اونچی آواز میں سن کر ٹھٹک گیا۔ پیر صاحب فرما رہے تھے:
’’حمید میاں کب تک بھاگیں گے، بس تم ان کی بیگم کو سنبھالے رہو، ذرا سی عربی پڑھ کر پیر کی شان میں گستاخی کرتا ہے، آنے دو، ایسا کاٹوں گا کہ وہ بھی زندگی بھر یاد رکھے گا کم بخت!‘‘
’’آمین!‘‘ نصیبن نے دعائیہ انداز میں کہا۔
میں نے کواڑ کے شگاف سے اندر کی طرف جھانک کر دیکھا۔ پیر صاحب دو سرخ نوٹ چٹائی پر بیٹھی ہوئی نصیبن کی طرف بڑھا رہے تھے۔
’’بس اتنا ہی۔‘‘ نصیبن نے حیرت سے کہا۔
’’یہ بھی کیا کم ہیں، آج تو صرف چار ہی حاجت مند آئے تھے، پیر صاحب نے اپنی خوشبودار زلفوں کو سنوارتے ہوئے کہا۔
’’نہ بابا نہ…‘‘ نصیبن نے شکایت بھرے لہجے میں کہا ۔ ’’میں باز آئی ایسے کام سے، دنیا کے لالچ میں دین سے بھی جاؤں، ایک ایک گھر میں جاکر آپ کی جھوٹی سچی تعریف کروں محلے کی کتنی بہو بیٹیوں کا گناہ میرے سر پر ہو، اور ملیں صرف چار روپئے، پھر پچیس روپئے تو آج ٹھیکیدار کی بڑی لڑکی ہی دے گئی ہے۔‘‘
’’اچھا یہ اور رکھ لو۔‘‘ پیر صاحب نے ایک روپیہ کا ایک اور نوٹ بڑھا دیا۔ ’’اور ہاں سنو، سیک لائن والے بشیر کی بیوی کا کیا رہا۔‘‘
’’کل آئے گی، میں نے بھر تو دیا ہے۔‘‘ نصیبن نے کہا ’’لیکن دھیان رکھنا، بالکل نئی نویلی دلہن ہے، کوئی ایسی ویسی بات نہ ہو۔‘‘
’’اجی تم بے فکر رہو۔ میں نگاہوں سے پیتا ہوں۔‘‘
پیر صاحب کے ہونٹوں پر عیارانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں نے سوچا، نصیبن پیر صاحب کی دلالی گھر گھر کرتی پھرتی ہے، بے چاری معصوم عورتوں کو بہکاتی ہے، کتنی گری ہوئی عورت ہے یہ۔ نفرت اور حقارت کے جذبے سے میرا دل بھر گیا۔ مسجد میں ایک لمحہ کے لیے ٹھہرنا مشکل ہوگیا۔ میں الٹے پاؤں لوٹ آیا اور جیب سے سادہ کاغذ نکال کر تعویذ کی طرح موڑ لیا۔ بیوی بے چینی سے آنگن میں بیٹھی میری راہ دیکھ رہی تھی۔ گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی پوچھ بیٹھی:
’’کیاکہا پیر صاحب نے؟ کوئی تعویذ بھی دیا۔‘‘
میں نے ممتا کی ماری سادہ لوح عورت کی طرف حسرت سے دیکھا اور مجھے بے اختیار رحم آگیا۔
’’ہاں پیر صاحب نے بشارت دی ہے، تمہاری گود ہری ہوگی اور یہ تعویذ دیا ہے۔‘‘
بیوی نے اسی وقت سیاہ کپڑے میں ٹانک کر گلے میں ڈال لیا۔
اس واقعہ کو گزرے تین سال ہوگئے اور میری جوہی اب انگلی کے اشارے سے چلتی ہے اور توتلی زبان سے ’’پا‘‘ اور ’’می‘‘ کہتی ہے۔ لیکن بیوی میری طرف ایسی نگاہوں سے دیکھتی ہے جیسے اس کی تخلیق میں میرا کچھ بھی حصہ نہیں ہے، سب کچھ پیر صاحب کی دین ہے!
——