قرآن کا پیغام

شیخ الحدیث محمد زکریا

قال اللہ عزاسمہ ومن احسن قولا ممن دعا الی اللّٰہ وعمل صالحا وقال اننی من المسلمینo
’’اور اس سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو خدا کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں ۔‘‘
مفسرین نے لکھا ہے کہ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی طرف کسی کو بلائے وہ اس بشارت اور تعریف کا مستحق ہے، خواہ کسی طریق سے بلائے۔ مثلاً انبیاء علیہم السلام معجزہ وغیرہ سے بلاتے ہیں، اور علماء دلائل سے، مجاہدین تلوار سے، اور مؤذنین اذان سے۔ غرض جو بھی کسی شخص کو دعوتِ الی الخیر کرے وہ اس میں داخل ہے۔ خواہ اعمال ظاہرہ کی طرف بلائے، جیسا کہ مشائخ صوفیا اللہ کی معرفت کی طرف بلاتے ہیں۔ (خازن) مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ قال اننی من المسلمین میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمان ہونے کے ساتھ تفاخر بھی ہو۔ اس کو اپنے لیے باعثِ عزت بھی سمجھتا ہو، اس اسلامی امتیاز کو تفاخر کے ساتھ ذکر بھی کرے۔ بعض مفسرین نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ مقصد یہ ہے کہ اس وعظ، نصیحت، تبلیغ سے اپنے کو بہت بڑی ہستی نہ کہنے لگے بلکہ یہ کہے کہ عام مسلمین میں سے ایک مسلمان میں بھی ہوں۔
واذکر فان الذکریٰ تنفع المؤمنین۔
’’اے محمد ﷺ لوگوں کو سمجھاتے رہیے ، کیونکہ سمجھانا ایمان والوں کو نفع دے گا۔‘‘
مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے قرآن پاک کی آیات سنا کر نصیحت فرمانا مقصود ہے کہ وہ نفع رساں ہے، مومنین کے لیے تو ظاہر ہے کفار کے لیے بھی، اس لحاظ سے کہ وہ انشاء اللہ اس کے ذریعے سے مومنین میں داخل ہوجائیں گے اور آیت کے مصداق میں شامل ہوں گے۔ ہمارے اس زمانے میں وعظ و نصیحت کا راستہ تقریباً بند ہوگیا ہے ، وعظ کا مقصد بالعموم شستگیٔ تقریر بن گیا ہے۔ تاکہ سننے والے تعریف کردیں حالانکہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص تقریر و بلاغت اس لیے سیکھے تاکہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے تو قیامت کے دن اس کی کوئی عبادت مقبول نہیں، نہ فرض نہ نفل۔
وامراہلک بالصلوٰۃ واصطبر علیہا لا نسئلک رزقا نحن نرزق والعاقبۃ للتقویٰ۔
’’اے محمد(ﷺ) اپنے متعلقین کو بھی نماز کا حکم کرتے رہیے اور خود بھی اس کے پابند رہیے ہم آپ سے معاش نہیں چاہتے معاش تو آپ کو ہم دیں گے اور بہتر انجام تو پرہیزگاری ہے۔‘‘
متعدد روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کو کسی کی تنگیٔ معاش کے رفع فرمانے کی فکر ہوتی تو اس کو نماز کی تاکید فرماتے اور آیتِ بالاکو تلاوت فرما کر گویا اس طرف اشارہ فرماتے کہ وسعتِ رزق کا وعدہ اہتمامِ نماز پر موقوف ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس آیتِ شریفہ میں نماز کا حکم کرنے کے ساتھ خود اس پر اہتمام کرنے کا حکم اس لیے ارشاد ہوا ہے کہ یہ انفع ہے کہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ جس چیز کا دوسروں کو حکم کیا جاوے کہ اس سے دوسروں پر اثر بھی زیادہ ہوتا ہے اور دوسروں کے اہتمام کا سبب بنتا ہے۔ اسی لیے ہدایت کے واسطے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ہے کہ وہ نمونہ بن کر سامنے ہوں۔ تو عمل کرنے والوں کو سہل ہو، اور یہ خدشہ نہ گزرے کہ فلاں حکم مشکل ہے اس پر عمل کیسے ہوسکتا ہے اس کے بعد رزق کے وعدہ کی مصلحت یہ ہے کہ نماز کا اپنے اوقات کے ساتھ اہتمام بسا اوقات اسبابِ معیشت میں ظاہراً نقصان کا سبب معلوم ہوتا ہے بالخصوص تجارت ،ملازمت وغیرہ میں۔ اس لیے اس کو ساتھ کے ساتھ دفع فرمادیا کہ یہ ہمارے ذمہ ہے، یہ سب دنیاوی امور کے اعتبار سے ہے اس کے بعد بطور قاعدۂ کلیہ اور امر بدیہی کے فرمایا کہ عاقبت تو ہے ہی متقیوں کے لیے اس میں کسی دوسرے کی شرکت ہی نہیں۔
یا بنّی اقم الصلوٰۃ وامربالمعروف وانہ عن المنکر واصبر علی ما اصابک ان ذلک من عزم الامور۔
’’بیٹانماز پڑھا کرو، اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کرو اور برے کاموں سے منع کیا کرو، اور تجھ پر جو مصیبت واقع ہو اس پر صبر کیا کرو، یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔‘‘
اس آیتِ شریفہ میں مہتم بالشان امور کو ذکر فرمایا ہے اور حقیقتاً یہ امور اہم ہیں، تمام کامیابیوں کا ذریعہ ہیں، مگر ہم لوگوں نے ان ہی چیزوں کو خاص طور سے پسِ پشت ڈال رکھا ہے، امر بالمعروف کا تو ذکر ہی کیا کہ وہ تو تقریباً سب ہی کے نزدیک متروک ہے، نماز جو تمام عبادات میں سب سے زیادہ اہم چیز ہے اور ایمان کے بعد سب سے مقدم اسی کا درجہ ہے، اس کی طرف سے بھی کس قدر غفلت برتی جارہی ہے۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جو بے نمازی کہلاتے ہیں، خود نمازی لوگ اس کا کامل اہتمام نہیں فرماتے بالخصوص جماعت جس کی طرف اقامتِ دین سے اشارہ ہے، صرف غرباء کے لیے رہ گئی، امراء اور باعزت لوگوں کے لیے مسجد میں جانا گویا عار بن گیا ہے ۔
ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینہون عن المنکر و اولئک ہم المفلحونo
’’اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے کہ خیر کی طرف بلائے اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کرے اور برے کاموں سے روکا کرے اور ایسے لوگ پورے کامیاب ہوں گے۔‘‘
حق سبحانہ نے اس آیتِ شریفہ میں ایک اہم مضمون کا حکم فرمایا ہے وہ یہ کہ امت میں سے ایک جماعت اسی کام کے لیے مخصوص ہو کہ وہ اسلام کی طرف لوگوں کو تبلیغ کیا کرے، یہ حکم مسلمانوں کے لیے تھا مگر افسوس کے اصل کو ہم لوگو ںنے بالکلیہ ترک کردیا ہے اور دوسری قوموں نے نہایت اہتمام سے پکڑلیا ہے۔ نصاریٰ کی مستقل جماعتیں دنیا میں تبلیغ کے لیے مخصوص ہیں اور اسی طرح دوسری اقوام میں اس کے لیے مخصوص کارکن موجود ہیں، لیکن کیا مسلمانوں میں بھی کوئی جماعت ایسی ہے؟ ا سکا جواب نفی میں نہیں تو اثبات میں بھی مشکل ہے اگر کوئی جماعت یا کوئی فرد اس کے لیے اٹھتا بھی ہے تو اس وجہ سے کہ بجائے اعانت کے اس پر اعتراضات کی اس قدر بھرمار ہوتی ہے کہ وہ آج نہیں تو کل تھک کر بیٹھ جاتا ہے حالانکہ خیر خواہی کا مقتضا یہ تھا کہ اس کی مدد کی جاتی، اور کوتاہیوں کی اصلاح کی جاتی، نہ یہ کہ خود کوئی کام نہ کیا جاوے اور کام کرنے والوں کو اعتراضات کا نشانہ بناکر ان کو کام کرنے سے گویا روک دیا جائے۔
——

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146