’’سر ہم اس کی حرکتوں سے تنگ آگئے ہیں۔ کیا کریں، اس نے ہمیں کہیں بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا ہے۔‘‘
ماں اور باپ دونوں اپنے بیٹے کو کلینک لائے تھے۔ بیٹے کی عمر ۱۸؍سال تھی۔ انٹر فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔ پینٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ ہاتھوں میں کڑا اور کان میں ایک چھوٹا سا بندہ تھا۔ تفصیل معلوم کرنے پر پتا چلا کہ لڑکے کا نام عامر ہے۔ اس کے والدین کا تعلق ممبئی سے ہے۔ دادا کا ممبئی میں بزنس ہے۔ خاندانی بزنس سنار کا ہے۔ لڑکے کے دادا کے بعد اب والد صاحب یہ کام کرتے ہیں۔ لڑکے کے والد نے بتایا کہ ہم دنیا پرست لوگ ہیں۔ کاروبار ہمارا ایسا ہے، جس میں ایمانداری ناممکن تو نہیں لیکن بہت مشکل ہے۔
لڑکے کے دادا میرے مریض رہ چکے تھے۔ انھوں نے ہی پوتے اور بیٹے کو میرے پاس بھیجا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ہم والد صاحب کو لے کر آئے تھے۔ جب ان کو سانس کی تکلیف تھی۔ اب بہتر ہیں۔ لڑکے کے دادا سنار کی دکان کے علاوہ کارخانہ بھی چلا رہے تھے۔ کارخانے میں سونے کو صاف کرنے کے لیے تیزاب استعمال ہوتا ہے، جس میں ٹائیٹرک ایسڈ اور دیگر تیزاب شامل ہیں۔ کارخانے میں جب تیزاب استعمال ہوتا ہے تو اس سے نائٹرس آکسائیڈ، کلورین وغیرہ جیسی زہریلی گیس نکلتی ہے، جس سے سانس کی نالیاں متاثر ہوتی ہیں۔ دادا کو مسلسل زہریلی گیس سونگھنے سے سانس کی تکلیف ہوئی اور ان کے پھیپھڑے سکڑ گئے۔ اور اب وہ زیادہ چلنے سے بھی معذور ہیں، کیونکہ چلنے پر سانس پھول جاتا ہے۔ دادا کو اپنے پوتے عامر کو حافظ قاری بنانے کا شوق تھا، بیٹے (عامر کے والد) کو قاری بنانے کی کوشش کی لیکن بھٹی میں ۳؍سال کی عمر سے جاتا تھا۔ ۶-۷ سال تک کی عمر میں انھیں بھی سانس کی تکلیف شروع ہوگئی تھی، اس لیے وہ تو نہ بن سکے۔ اب دادا نے پوتے کو حفظ کرایا تھا۔ عامر کے والد صاحب نے بتایا کہ یہ بہت ذہین لڑکا ہے۔ اس نے بہت جلدی حفظ کرلیا۔ ۸؍سال کی عمر میں ہم نے اسے حفظ میں لگایا تو اس نے ۱۱؍سال کی عمر میں یعنی ۳؍سال میں حفظ کرلیا۔ یہ دن میں ۱۲-۱۰؍ گھنٹے پڑھتا تھا، سب حیران رہ جاتے۔ ذہین پچہ ہے، بہت محنتی ہے۔ رمضان آتے تو یہ ۵-۷ مرتبہ قرآن ختم کرتا۔ ہم بہت خوش تھے۔ ہم نے اسے حفظ اس لیے کرایا تھا کہ مرنے کے بعد اگر کوئی چیز بھی کام نہ آئی تو کم ازکم یہ حافظ بیٹا ہمیں جنت میں لے جائے گا۔ اس کے علاوہ دادا کی خواہش تھی کہ علاقے کی جس مسجد کو ہم نے بنوایا اس میں یہ تراویح پڑھائے۔وہاں ایک جگہ تراویح ہوتی تھی۔ دادا نے اب ۲، ۳ جگہ تراویح کروانی شروع کردی۔ اس طرح مرکزی ہال کے علاوہ بھی تراویح ہوتی ہے، جس میں سے ایک جگہ دادا کی خواہش تھی کہ ان کا پوتا بھی تراویح پڑھائے۔
دادا نے اس کے لیے لوگوں کو بتایا اور رمضان سے ۲؍ماہ پہلے سے دعوت دینی شروع کردی کہ اس مرتبہ میرے پوتے کے پیچھے تراویح پڑھیں۔ ہم بہت خوش تھے کہ اس مرتبہ ہم بہت سی مٹھائی تقسیم کریں گے۔ دادا نے منصوبہ بنایا کہ ایسی مٹھائی تقسیم کریں لوگ یاد رکھیں۔ ہر فرد کے لیے مٹھائی کا ایک ڈبہ ہو۔ اس کے علاوہ اس کی ماں نے بھی آخری عشرہ میں گھر پرطاق راتوں میں خاندان کی خواتین کو جمع کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ ہم نے یہ پروگرام بنایا تھا کہ ہم سارے خاندان کی دعوت کیا کریں گے۔ اس طرح ماں کی خواہش جو اتنے برسوں سے انتظار کررہی تھی کہ لوگوں کو بلائے اور اپنے بچے کے پیچھے تراویح پڑھوائے، پوری ہوجائے گی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب! رمضان کی آمد میں ابھی ایک ماہ باقی ہے۔ اس نے اچانک عجیب و غریب حرکتیں شروع کردی ہیں۔ ہم نے گھر میں کیبل تک نہیں لگایا تھا، لیکن دوستوں سے پتا چلا کہ یہ کیبل دیکھتا ہے، انٹرنیٹ کیفے پر جاکر… ماں رونے لگی۔ ڈاکٹر صاحب یہ حافظ ہوکر نیٹ دیکھتا ہے اور آپ کو تو پتا ہے یہ کتنی گندی چیز ہوتی ہے۔ پھر اس نے سگریٹ شروع کردی ہے۔ اس کے علاوہ دوستوں نے بتایا کہ اس نے شیشہ نشہ جو حقہ سے کرتے ہیں، شروع کردیا ہے۔ ہم اسے سمجھارہے تھے کہ یہ سب باتیں تمہارے رتبے کے مطابق نہیں، لیکن اس نے اچانک ہاتھ میں کڑا پہننا شروع کردیا۔ اس پر تو دادا بہت غصہ ہوئے۔ پہلے تو یہ نماز ادا کرنے مسجد چلا جاتا تھا، لیکن اب بالکل نہیں جاتا۔
والدین کے بعد میں نے لڑکے سے پوچھا۔ اس نے بتایا کہ اسے اپنے خاندان کے بزرگوں کے رویے سے شدید مسئلہ ہے۔ کہنے لگا: ’’سر! ہیں تو یہ میرے بزرگ لیکن ان کے دو رخ ہیں، دو چہرے ہیں، دو شخصیت ہیں۔ یہ اپنی خواہشات کے غلام ہیں اور اپنی خواہشات کے مطابق مجھے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ نہ انھیں خوف ہے، نہ ثواب کے لیے یہ سب کام کرنا چاہتے ہیں۔ بلکہ یہ صرف اپنی خواہشات پر مجھے قربان کرنا چاہتے ہیں۔ سر! پہلے زمانے میں لڑکیوں کو دیوی دیوتا پر قربان کیا جاتا تھا۔ اب زمانہ تبدیل ہوگیا ہے۔ اب پتھر کے بت تو نہیں، خواہشات کے بت ہیں، جن پر مجھ جیسے نوجوانوں کو مخصوص لباس پہنا کر قربان کیا جاتا ہے۔
آپ نے میرے والدین کی باتیں سنیں۔ میں ان کا احترام کرتا ہوں، لیکن جب انھوں نے حفظ کے بعد مجھے گرامر اسکول میں داخل کرایا تو میں نے بھی پینٹ شرٹ پہننا شروع کردی، جس پر ان کو اکثر اعتراض رہتا۔ خاص طور پر دادا کو اعتراض ہوتا کہ لباس تمہارے اسٹیٹس کے مطابق نہیں۔ لیکن میٹرک کے زمانے تک شام کو اکثر میں ٹیوشن پڑھتا تھا، دن کو اسکول جاتا تھا، اس لیے محلے کی مسجد جانا بہت کم ہوتا تھا۔ اب میٹرک کے بعد چھٹیاں ہوئیں اور فارغ ہوا تو محلے میں نماز ادا کرنے لگا۔ مجھے اتنا ٹوکا جاتا کہ میں تنگ آگیا۔ ’’بھئی یہ ٹی شرٹ پہن رکھی ہے، کہنیوں پر شیطان ڈنڈی مارے گا۔‘‘ یہ پینٹ نیچے تک ہے نماز نہیں ہوگی۔‘‘ ایک مرتبہ میرا گرامر اسکول کا دوست آیا ہوا تھا۔ وہ بھی ساتھ مسجد چلا گیا۔ مسجد میں کئی لوگوں نے ٹوکا اور حقارت آمیز رویہ میرے دوست کے ساتھ اپنایا۔ اس کے لباس پر تصویر تھی۔ تصویر بھی چھوٹی سی تھی۔ اس کی پینٹ ٹخنوں سے نیچے تھی۔ نماز کے فوراً بعد ایک مستقل نمازی نے جو میرے دوست کے برابر تھا، اسے زور سے ڈانٹا: ’’جب امام صاحب نے نماز سے پہلے کہا تھا کہ ٹخنوں سے اوپر کرلو تو کیوں نہیں کی؟‘‘ اس نے بھولے پن میںبالکل سیدھا جواب دے دیا ’’سر انھوں نے کہا تھا شلوار ٹخنوں سے اوپر کرلیں، میں نے تو شلوار نہیں پینٹ پہنی ہوئی ہے۔‘‘ جس پر وہ بہت غصہ ہوئے۔ مجھے دوست کی بے عزتی پر غصہ آگیا اور میں نے انھیں خوب سنادیں۔ امام صاحب درمیان میں آگئے، مجھے اتنا غصہ تھا کہ میں نے انھیں بھی سنادیں کہ تم لوگ ہمارے دادا کی بنائی ہوئی مسجد میں … اس پر میں نے بعد میں دادا کے کہنے پر معافی بھی مانگ لی۔ لیکن جو ہونا تھا ہوگیا۔ اس کے بعد جب میں مسجد جاتا ہوں تو کئی لوگ مجھے گھور کر دیکھتے ہیں، مجھے محبت کے بجائے تضحیک کا رویہ ملتا ہے۔‘‘
کہنے لگا: ’’سر! اللہ کے گھر میں تو انسان اس لیے جاتا ہے کہ اللہ، اللہ کرے۔ جیسے ہمیں اپنے گھر میں اختیار ہے کہ جو چاہے کریں، اگر میں اپنے گھر میں ہوں تو کسی آنے والے کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ مجھے بتائے کہ میں گھر میں کیسے رہوں۔ اسی طرح جب یہ اللہ کا گھر ہے تو دوسروں کو کیا اختیار کہ اس میں آنے والوں پر تنقید کریں۔ میں نے یہی ان بزرگوں سے کہا تھا کہ جس کو بچوں اور نوجوانوں کو ڈانٹنا ہے وہ اپنے گھر میں یہ شوق پورا کرے، اللہ کے گھر میں کسی کو اختیار نہیں۔‘‘
میں نے حافظ عامر کی باتیں سن کر اس سے پوچھا :’’لیکن یہ کڑا، کان میں بندہ، سگریٹ… ان کا اس بات سے کیا تعلق؟‘‘
کہنے لگا: ’’ڈاکٹر صاحب! سگریٹ تو میں نے دو مرتبہ پی ہے۔ میں بھی جانتا ہوں کہ یہ غلط ہے، اس لیے دو مرتبہ کے بعد نہیں پی۔ ہم دوست کھانا کھانے گئے تھے، وہاں شیشہ بھرے حقے رکھے تھے۔ پیئے، بڑا مزہ آیا۔ میں انٹرنیٹ پر بھی کوئی الٹی سیدھی چیزیں نہیں دیکھتا۔ یہ کڑا اور بندہ تو میں نے چند دوستوں کی شرط پر پہنا تھا۔ انھوں نے شرط لگائی تھی کہ تم یہ پہن کر دکھا دو، اچھے ہوٹل میں ۳؍مرتبہ کھانا کھلائیں گے۔ اور شروع میں مجھے بھی دوستوں جیسا حلیہ رکھنے میں مزا آرہا تھا۔ بعد میں احساس ہوا کہ بندہ اچھا نہیں لگتا۔ لیکن جب گھر والوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ تم نے ہمارے سارے ارمانوں پر پانی پھیر دیا، ہماری سارے معاشرے میں بے عزتی ہوگئی کیونکہ جس حلیے میں تم رہتے ہو اس حلیے کے حافظ کے پیچھے کوئی بھی تراویح نہیں پڑھے گا، تو ڈاکٹر صاحب!میں نے ارادہ کرلیا کہ میں تراویح نہیں پڑھاؤں گاکیونکہ یہ اللہ کے لیے نہیں بلکہ خاندانی نام و نمود کے لیے مجھ سے تراویح پڑھوانے کا پلان ہے۔
جہاں تک گھر والوں کی ان باتوں کا تعلق ہے کہ میں ٹی وی دیکھتا ہوں، فلمیں دیکھتا ہوں، ان کی پروا نہیں کرتا۔ تو میں ان سے کہہ چکا ہوں کہ آپ نے مجھے اس لیے حفظ نہیں کرایا تھا کہ مجھے کوئی فائدہ ہو، بلکہ اپنے جنت میں جانے کے لیے مجھے ایک Tool کے طور پر استعمال کرنا تھا، کیونکہ ہمارے دادا بھی یہ کہتے ہیں اور ہمارے استاد بھی کہ ’’ایک حافظ پورے خاندان کو جنت میں لے کر جائے گا۔‘‘ انھوں نے یہ سوچا تھا کہ کاروبار میں ساری وہ چیزیں کرتے رہیں جو انھیں بھی معلوم ہیں کہ کتنی ’’صحیح‘‘ ہیں، لیکن یہ کہہ کر مطمئن ہیں کہ کاروبار کے تقاضے ہیں۔ اپنے ملازمین کا خیال نہ رکھیں۔ ہمارے کارخانے کے کئی ملازم بیمار ہیں، یہ ان کا نہ تو علاج کراتے ہیں نہ ہی ان کے اتنے عرصے کام نہ کرنے کی وجہ سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ میں اپنے جیب خرچ سے بعض مرتبہ ان کی چھپ کر مدد کرتا ہوں۔
مجھے احساس ہے کہ اگر وہ بیمار ہیں تو اس لیے کہ ہم نے کارخانہ بند جگہ میں تنگ سی گلی میں بنایا ہے۔ اصولی طور پر میرے والد اور دادا کا جس طرح کا کردار ہے یہ غلط ہے۔ اتنی خطرناک گیس جو تیزاب پکانے سے نکلتی ہے، سونگھ کر کون صحت مند رہ سکتا ہے!
ڈاکٹر صاحب جب میں نے بات کی تو انھوں نے کہا کہ تم نہیں جانتے۔ حالانکہ میں نے تفصیل نیٹ سے پڑھ لی تھی۔ جب میں نے انھیں بتایا تو وہ غصہ ہوگئے اور کہنے لگے انٹرنیٹ گندی چیز ہے۔ وہ اس کے استعمال پر جھگڑا کرنے لگے۔ کہنے لگے تم اتنے تجربہ کار ہم لوگوں کو پڑھا رہے ہو، یہ ہمارا خاندانی کام ہے۔
ڈاکٹر صاحب! نوکروںپرظلم کرکے وہ کاروبار میں زیادہ نفع کمائیں اور جنت میں جانے کا ذریعہ مجھے بنائیں۔ دنیا میں نام و نمود اور واہ واہ میرے ذریعے حاصل کریں۔ مجھے اس دورخی سے نفرت ہے۔ میں تنقید کے ڈر سے مسجد نہیں جاتا اور اس دکھاوے کی تراویح سے بچنے کے لیے یہ کڑا اور بندے پہنے ہیں۔
میرا رویہ خراب ہونے کی وجہ میرا یہ استدلال ہے کہ جب میری وجہ سے جنت میں مزے کرنے ہیں اور میں بھی جنت میں جاؤں گا تو پھر کیوں نا دنیا میں ان سے رقم لے کر مزے کروں۔‘‘
حافظ عامرکے والدین کو بلایا۔ حافظ عامر نے بتایا: ’’میرے والد صاحب نے چند دن پہلے میری بہت پٹائی کی ہے۔ (اس کی پیٹھ پر ہنٹر کے نشان تھے) یہ کہتے ہیں کہ تمھیں ہمیں بدنام کرنے اور معاشرے میں ناک کٹوانے کا رویہ ترک کرنا ہوگا۔ اب تو میں ضد میں آگیا ہوں۔ انھوں نے مجھ پر الزامات لگائے تھے۔ میں نے غصے میں وہ کام کیے، لڑکیوں کو SMS کیے، انٹرنیٹ کیفے میں جاکر وہ فلمیں دیکھیں جو … بالوں کو درمیان سے بڑا اور ایسا کرلیا کہ ہر کوئی دیکھے اور انھیں مزید برا بھلا کہے۔ میں اب انتقام پر اتر آیا ہوں۔‘‘
والدین نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اب بتائیں ہم کیا کریں؟ عامر بولا: آپ اللہ سے ڈریں، آپ نے مجھے ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہا کہ اللہ اور رسولﷺ کی تعلیمات کیا ہیں، بس آپ کو تو اس کی فکر ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ آپ دونوں اور دادا کو صرف اپنے status کی فکر ہے۔
عامر اور اس کے والدین سے الگ الگ ملاقاتیں کی گئیں۔ ان کی سائیکوتھراپی ڈاکٹر صدیق صاحب سے کرائی گئی۔
انھیں بتایا گیا کہ اپنے رویوں پر غور کریں۔ سب کو الگ الگ ہوم ورک دیا گیا۔ پھر قرآن مجید سے آیات تلاش کرنے کا بتایا گیا۔ سورۃ بقرۃ سے شروع کیا اور آیت ۱۲۳؍ پر جاکر اٹک گئے۔ عامر کا کہنا تھا کہ یہ آیت تو ان تمام خیالات سے مختلف ہے: ’’ڈرو، اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا۔نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا، نہ کوئی سفارش ہی آدمی کو فائدہ دے گی اور نہ کہیں سے کوئی مدد پہنچ سکے گی۔‘‘
نبی ﷺ کی حدیث کا مفہوم:
آپؐ نے حضرت فاطمہ سے فرمایا: اے میری پیاری بیٹی! قیامت کے دن ہر شخص اپنے اعمال کا خود حساب دے گا اور قیامت کے دن میں اللہ کے سامنے تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکوں گا۔‘‘
عامر کے والدین اور وہ خود بھی حیران تھا۔ پھر انھوں نے وہ آیات بھی پڑھ لیں جو خواہشات کے پیروکاروں کے انجام کے بارے میں تھیں۔
انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اس حوالے سے تم ہم نے کبھی اس کتاب کو نہیں پڑھا تھا۔قرآن اللہ کی کتاب ہے، اس کی ہر آیت ہمارے لیے کیا پیغام دیتی ہے، یہ غور کرنے اور عمل کا کام ہے۔ اس کی عملی تفسیر نبی ﷺ کی زندگی تھی۔ صحابہؓ نے آپ کو دیکھا اور اپنے عمل سے قرآن کی تشریح کی۔ تابعی بزرگوں اور پھر دیگر بزرگان نے قرآن کی اپنے عمل سے تشریح کی۔
قرآن پر عمل کا ہی نتیجہ تھا کہ لوگ ان بزرگوں سے ملتے اور مسلمان ہوجاتے۔
اس انداز میں پڑھنے سے حافظ عامر اور اس کے والدین میں تبدیلی آنے لگی۔
اس کیس کا مطالعہ کریں تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں:
(۱) اپنی خواہشات کے لیے بچوں کو پڑھانے، تعلیم دلانے… چاہے وہ حفظِ قرآن جیسا اچھا کام ہو، کا نتیجہ عموماً غلط ہوتا ہے۔
(۲) نیک کاموں کو اپنی خواہشات پوری کرنے کا ذریعے بنانے پر دنیا ہی میں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔
(۳) ہم کوئی بھی روایت سنیں اس کی تصدیق کرنے کا واحد criteria،میزان، اللہ کی کتاب اور سیرتِ نبیؐ ہے۔
(۴) دنیا میں دوسروں کی مدد نہ کرنے اور اپنے ملازمین کا خیال نہ رکھنے کا صلہ دنیا ہی میں شرمندگی کی صورت میں مل جاتا ہے۔
(۵) ذاتی خواہشات شیطانی عمل ہیں۔ شیطان کی چالوں سے بچنے کا واحد طریقہ نبی ﷺ کے اسوہ، صحابہ کرامؓ کے طریقہ اور بزرگانِ دین کے اسٹائل پر قرآن پر عمل کرنے میں ہے۔
دنیا میں پرسکون زندگی ہمیں اپنی خواہشات کے بجائے اللہ اور رسول ؐ کے طریقہ کا ر پر عمل کرنے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔
——