جس کا وجود فخر مشیت تھا وہ

حسینؓ ثمرین فردوس

محرم الحرام کا مہینہ شروع ہونے والا ہے۔ یہ مہینہ ہمارے اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ ہر نیا سال اپنے ساتھ خوشیوں اور اچھی امیدوں کا پیغام لاتا ہے۔ دیکھا جائے تو نئے سال کا آغاز خوشیوں سے ہی کرنا چاہیے۔ دنیا میں بعض بڑی بڑی قومیں اپنے اپنے سال کی شروعات اور آغاز خوشیوں اور اچھی امیدوں کے پیغام کے ساتھ ہی کرتی ہیں۔

اسی طرح ہمارا ہجری نیا اسلامی سال بھی مسلمانوں کے لیے ایک عظیم مقصد کو لے کر طلوع ہوتا ہے۔ اس لیے ماہِ محرم کا چاند نظر آنے پر مسلمانوں کو اس کا استقبال خوشیوں اور اچھی امیدوں کے ساتھ کرنا چاہیے۔

لیکن مسلمانوں میں سے بہت سے لوگوں کی حالت اس کے برخلاف ہے۔ اور ہم میں سے بعض لوگ اپنے اسلامی سال کی ابتداء غم و ماتم اور سوگ کے ساتھ کردیتے ہیں۔ ملک کے بعض مقامات پر عام حالت ایسی ہے کہ ادھر محرم کا چاند نکلتا ہے اور ادھر بے شمار مسلمان کالے کپڑے پہن لیتے ہیں۔ کالے جھنڈے اٹھا لیتے ہیں۔ اپنے گریبانوں کو پھاڑ لیتے ہیں، اپنے سینے کوٹتے ہیں اور اپنی زبانوں کو آہ و فریاد کے لیے وقف کردیتے ہیں۔درحقیقت حضرت امام حسینؓ تو کوفہ کی جانب اپنے اصحاب کے ساتھ روح اسلام کو زندہ و توانا رکھنے اور سچائی کے اصول وضع کرنے کے لیے گئے تھے۔ آپؓ نے فرمایا: ’’میں نے نہ بغاوت کی نیت سے خروج کیا ہے اور نہ فساد کے لیے اور نہ ہی ظلم کے لیے بلکہ میرا تو ایک ہی مقصد ہے۔ وہ یہ کہ امربالمعروف و نہی عن المنکر کروں اور امتِ محمدیؐ کی اصلاح کرسکوں، حضرت محمدؐ کی سنت اور سیرت کو زندہ کرسکوں۔‘‘

حضرت امام حسینؓ اتنے جری اور بہادر تھے کہ اپنی مٹھی بھر جماعت کے ساتھ وہ کربلا کے میدان میں اپنے وقت کے یزید کے سامنے ڈٹ گئے۔ صرف اور صرف اپنے نانا کے دین ِ متین کی سربلندی کے لیے، انھوں نے اپنے عزیزوں کو بچشم خود شہید ہوتے دیکھا۔ علی اصغر سے لے کر علی اکبر تک اور خود بھی شجاعت و پامردی سے جڑے ہوئے شہید ہوگئے۔
یہ ہم مسلمانوں کے لیے کس قدر افسوسناک بات ہے کہ حضرت حسینؓ تو امتِ مسلمہ کے سامنے اسوئہ شہادت پیش کرتے ہیں اور امت میں سے بعض لوگ نہایت بزدلی سے اس اسوہ حسنہ کا ماتم شروع کردیتے ہیں۔ اس دن کی مقصدیت اور معنویت کو ہی بھلا دیتے ہیں۔ اس دن کے مقصد سے ہی غافل ہوجاتے ہیں۔ بے کار کے لہو و لعب شوروشغب میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اور غیرمسلموں کے سامنے ایک غلط مثال پیش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی شر اور شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تعزیہ داری کرنے لگ جاتے ہیں۔
حضرت حسینؓ کی مردانہ وار شہادت اور اس شہادت کی یاد گار یعنی تعزیہ داری میں ذرا بھی اخلاقی یا روحانی نسبت نہیں ہے۔ ایک مومن مسلم کے لیے یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ حضرت حسینؓ جیسے مجاہد اور شہید کے لیے دنیا میں ایک ایسی حقیر اور خلافِ عقل یادگار قائم کرے۔
اگر حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو محرم کا ایک ایک دن ہمارے لیے عزمِ جہاد، سعی ، جدوجہد اور ایثار و قربانی کا پیغام دیتا ہے۔ لیکن ہم نے تو اس مہینے کو اپنے لیے موت اور ماتم اور رونے اور پیٹنے کا مہینہ بنالیا۔
بے شک یہ مہینہ اگرچہ ہمیں غمِ حسین، سانحہ کربلا اور شہدائے کربلا کی یاد دلاکر غم سے بوجھل کردیتا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ ہمیں لازوال اور بے مثال شہادت کا درس بھی دیتا ہے۔ ہمارے اندر حق کو حق کہنے کی جرأت اور باطل کے سامنے کبھی سر نہ جھکانے کی ہمت بھی عطا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ ماہ ہمیں یہ بھی سبق دیتا ہے کہ ظلم و زیادتی، نا انصافی، بے راہ روی اور بے دینی کے سامنے ڈٹ جانا ہی عین اسلام اور عین فطرت ہے۔
سلام اے امام تیری جرأت و شہادت کو سلام
سلام اے امام تیری استقامت اور دلاوری کو سلام
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146