امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: ’’امام مالکؒ کے یہاں رہتے ہوئے تین دن ہوچکے تھے اور اب رہ رہ کر بوڑھی ماں کی یاد اور وطن کی محبت ستارہی تھی اور چونکہ گھر سے نکلے کئی سال ہوچکے تھے اور یہ تمنا تھی کہ بوڑھی ماں سے زندگی میں ملاقات ہوجائے اور وہ اپنی کمزور آنکھوں سے یہ دیکھ کر باغ باغ ہوجائیں کہ پاک تمناؤں کا جو پودا انھوں نے لگایا تھا اور جس کی شادابی کے لیے انھوں نے راتوں کو اٹھ اٹھ کر تنہائی میں خدا کے حضور میں دعائیں کی تھیں، آج وہی پودا ان کی مقبول دعاؤں کی برکت سے دین و دنیا کے پھلوں سے لدا ہوا ہے۔ اسی وقت امام مالکؒ سے اجازت چاہی اور کہا کہ اب میں چاہتا ہوں کہ جلد سے جلد اپنی بوڑھی ماں کی خدمت میں پہنچوں جو آٹھ پہر مجھے یاد کرتی رہتی ہوں گی۔ اور میرے خیال میں بے قرار ہوں گی۔
امام مالک نے نہ صرف یہ کہ اجازت دے دی بلکہ تاکید فرمائی کہ فوراً سفر کی تیاری کی جائے۔ چنانچہ میں نے اسی وقت سفر کے لیے سامان باندھنا شروع کردیا اور ایک آدمی پہلے سے مکہ کی طرف روانہ کردیا تاکہ وہ گھر اطلاع پہنچادے اور اب میں اس شان کے ساتھ ہجوم شوق میں روانہ ہوا کہ میرے آگے پیچھے خراسانی گھوڑے، مصری خچر، کپڑوں، غلوں اور درہم و دینار سے لدے ہوئے تھے۔
جب حدودِ حرم میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ عورتیں میرے انتظار میں کھڑی ہیں اور میری ضعیف اور کمزور ماں بھی آغوشِ محبت پھیلائے مجھے گلے لگانے کے لیے بیتاب ہیں۔ جیسے ہی میں قریب پہنچا۔ گھوڑے سے نیچے اترا۔ خالہ آگے بڑھیں، انھوں نے مجھے چمٹا لیا اور میری پیشانی چومتے ہوئے بڑے شوق میں ایک شعر گنگنانے لگیں۔
(موت کی موجیں تیری ماں کو بہا نہ لے گئیں۔ آج ہر دل مامتا میں تیرے لیے ماں بنا ہوا ہے)
مکہ کی سرزمین پر یہ پہلے محبت بھرے بول تھے جو میں نے سنے اور خوشی میں میرے دل کی عجیب کیفیت تھی۔ اب مکہ کے بہت سے مرد، عورتیں، بچے وہاں جمع ہوگئے۔ میں دیر تک وہا ںکھڑا کبھی اپنے لائے ہوئے قیمتی سامان کو دیکھتا اور کبھی اپنی بوڑھی ماں کو۔ مگر میں نے دیکھا کہ وہ غمزدہ سی ہیں۔ سب خوش ہیں مگر میری ماں کے چہرے پر نام کو بھی مسکراہٹ نہیں۔ جب کافی دیر ہوگئی تومیں آگے بڑھنے لگا اور ماں سے بھی عرض کیا کہ چلئے اماں۔ بوڑھی ماں نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور بولیں بیٹے کہاں چلیں؟ میں نے کہا اماں گھر چلئے۔ بولیں بیٹے یاد ہے، جب میں تجھے رخصت کررہی تھی تو میرے پاس دو پرانی چادروں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اور میں نے تیرے شوق کو دیکھ کر وہی تیرے حوالے کیں اور اس طرح تجھے گھر سے روانہ کیا کہ تو فقیر تھا اور اس آرزو کے ساتھ روانہ کیا کہ تو حدیثِ رسول کی دولت سے مالا مال ہوکر لوٹے۔ بیٹے! میں نے تجھے یہ دنیا لانے کے لیے کب بھیجا تھا، بیٹے یہ تو غرور کی پونجی ہے۔ کیا تو یہ سب اس لیے لایا ہے کہ اپنے چچا کے بیٹوں پر اپنی بڑائی جتائے اور انھیں حقیر سمجھے؟
میں بالکل خاموش کھڑا ماں کو تک رہا تھا اور یہ سوچ رہا تھا اللہ اکبر! دولت دنیا سے یہ بے نیازی، علم دین کی یہ عظمت، خدا پر یہ بھروسہ، میرا دل عقیدت سے جھک گیا اور میری آنکھیں گرم آنسوؤں سے بھیگ گئیں اور مجھے یقین ہوگیا کہ مجھے یہ جو کچھ ملا ہے ماںکی مقبول دعاؤں اور پاک آرزوؤں کی بدولت ملا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ برسوں پڑھنے اورسیکھنے کے باوجود بھی آج ریت کے اس ٹیلے کے نیچے بوڑھی اماں نے مجھے جو کچھ سکھایا وہ میں اب تک جذب نہ کرسکا۔ اور میں نے شوق و محبت میں اپنی ماں کے ہاتھ چوم لیے۔ میں نے نہایت عاجزی سے کہا اماں! فرمائیے اب میں کیا کروں؟ بولیں: بیٹے کرنا کیا ہے، اعلان عام کردے کہ بھوکے آئیں اور غلہ لے جائیں، پیادے آئیں اور سواریاں لے جائیں۔ ننگے آئیں اور کپڑے پہن جائیں۔ نادار آئیں اور دولت لے جائیں۔
میں نے اعلان کرادیا اور ذرا سی دیر میں وہ ساری دولت مکے کے غریبوں اور ناداروں میں تقسیم ہوگئی اب میرے پاس ایک خچر اور پچاس دینار کے سوا کچھ نہ بچا تھا۔ ہم لوگ مکہ میں داخل ہوئے اتفاق سے راستہ میں میرا کوڑا گرگیا۔ ایک باندی پیٹھ پر مشک لادے جارہی تھی، اس نے لپک کر کوڑا اٹھایا اور نہایت ادب سے میرے حوالے کیا میں نے اس باندی کو انعام دینے کے لیے پانچ دینار نکالے تو ماں نے دیکھ کر کہا بس بیٹے یہی پانچ دینار تیرے پاس؟ میں نے کہا: نہیں ماں ابھی دس اور ہیں۔ ماں نے کہا تو بیٹے: وہ کس لیے رکھے ہیں؟ میں نے کہا: اماں رکھ لیے ہیں وقت بے وقت کام دیں گے اور غلہ بھی تو نہیں بچا ہے شاید آج ہی اس کی ضرورت پڑے۔ ماں نے کہا: بیٹا! تعجب ہے، دس دینار پر تو اتنا بھروسہ اور سب کچھ دینے والے پر ذرا بھروسہ نہیں۔ نکال سارے دینار اور اسی باندی کے حوالے کر۔ میں نے سارے دینار فوراً اس باندی کے حوالے کردئیے۔ اور اب میرا ہاتھ بالکل خالی تھا، لیکن دل ایسا غنی تھا کہ اس سے پہلے کبھی غنی نہ تھا۔
ماں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اور بڑے پیار سے فرمایا: بیٹے! اب تو اس حال میں اپنے جھونپڑے میں داخل ہوگا جس حال میں وہاں سے نکلا تھا۔ مگر آج میرے جھونپڑے میں وہ روشنی ہوگی جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ بیٹے! خدا نے تیری پیشانی میں علم کا نور رکھا ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ یہ نور دنیا کی فانی راحتوں سے میلا ہو اور اس میںکمی آئے۔ بیٹے تجھے یاد ہے میں نے رخصت کرتے وقت تجھے دعا دی تھی کہ خدا تجھے علم کے آسمان پر سورج بنا کر چمکائے۔ بیٹے میں نہیں چاہتی کہ دنیوی مال و دولت کی بدلیوں میں اس سورج کی روشنی پھیکی پڑے۔ دنیا میں بھی خدا تیرے علم کی اس روشنی میں امت کو سیدھی راہ دکھائے اور آخرت میں بھی یہ روشنی مومنوں کے کام آئے۔ آمین!
(رحلۃ الشافعیؒ بحوالہ جامع بیان العلم وفضلہ، ابن عبدہ)
——