اپنے بچوں سے دوستی کیجیے!

ڈاکٹر سمیر یونس

دوستی کا مفہوم اللہ کے رسول ﷺ کے اس قول سے واضح ہے: ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ۔ اب تم یہ دیکھوکہ وہ کس سے دوستی کرتا ہے۔‘‘ (احمد، ابو دائود، ترمذی)
دوستی کے ثمرات
۱۔ اولاد کے اندر تحفظ کا احساس: اپنی اولاد کے ساتھ دوست جیسا رویہ آپ کے بچوں کے اندر تحفظ کا احساس پیدا کرتا ہے۔اسے اس بات کا حوصلہ ملتا ہے کہ وہ ہر بات آپ سے کھل کر کرسکے۔وہ صرف آپ کی ذات کو ہی اس لائق سمجھتا ہے کہ آپ کے سامنے اپنے سوالات بلا جھجک اور اطمینان کے ساتھ رکھ سکے۔ اسی طرح اس کے اندر یہ ہمت بھی پیدا ہوجاتی ہے کہ اپنے مسائل آپ کے سامنے رکھ سکے تاکہ وقت نکلنے سے پہلے اور ان پر قابو پانا مشکل ہوجانے سے پہلے ہی آپ ان کا کوئی حل نکال سکیں۔آپ کے اس رویے سے اسے اپنے بچپن کی فطرت اور نئی چیزوں کوجاننے کے شوق کی تسکین کا بھی حوصلہ مل جاتا ہے اور وہ آپ سے طرح طرح کے سوالات کرنے کے لائق ہو جاتا ہے نیز اسے اپنے علم میں اضافے کا بھی موقع ملتا ہے۔اسی طرح والدین کو بھی بچے کے طرز عمل پر نگاہ رکھنے اور اس کی اصلاح کا موقع حاصل رہتا ہے۔باہر کے غلط ماحول کے خلاف بچے کو ایک طرح کی ڈھال فراہم ہوجاتی ہے جو ظاہر بات ہے ہزاروں علاج سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ بچوں کے گھر کی حیثیت ایک مدافعتی نظام AmmuneSystemاور ایک محفوظ قلعے کی سی ہوتی ہے جو انھیں ہر اندرونی وبیرونی خطرے سے محفوظ رکھتا ہے۔
۲۔ درست نشوونما ، اور اخلاقی انحراف سے گریز:والدین کا اولاد سے قریبی تعلق اولاد کی تربیت ونشوونما کرنے اور انھیں ان اخلاقی انحرافات سے محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جو بچوں پر والدین کی بے جا سختی کا نتیجہ ہوتے ہیں یا بچوں کی صحیح تربیت نہ کرپانے ، تربیت کے مختلف مراحل کے دوران ان کے مزاج اور ان کی فطرت کو نہ سمجھ پانے کا نتیجہ ہوا کرتے ہیں۔ والدین کے اس طرز عمل کی وجہ سے اولاد اور ماں باپ کے درمیان بے التفاتی اور لاتعلقی پیدا ہوجاتی ہے۔
۳۔ گھریلو محبت کا فروغ:اولاد سے دوستانہ تعلقات اور ان کے ساتھ وقت گزارنے سے گھریلو محبت پروان چڑھتی ہے اور ایک ایسا گھرانہ وجود میں آتا ہے جس کے افراد ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ’میں نے اللہ کے رسولﷺ سے زیادہ کسی کو اپنے گھر والوں پررحمت وشفقت کا معاملہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘ (مسلم)
۴۔ مثبت اور خوشگوار گفتگو:ماں اور باپ دونوں اگر اولادکے ساتھ کچھ وقت گزاریں تو ان کے درمیان تعمیری اور مثبت گفتگو کا ماحول پروان چڑھتا ہے اور افرادے خاندان کے درمیان جذباتی اور فکری رشتہ قائم ہوتا ہے۔ اولاد کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملتا ہے، نیز وہ آزادانہ ماحول سے لطف اندوز ہوپاتے ہیں۔والدین اپنی بے جا سختی کی وجہ سے خوف اور جبر کا جو ماحول پیدا کردیتے ہیں اس سے محفوظ رہتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ان سے دوستی کرکے ہم انھیں برے دوستوں کی رفاقت سے بچا لیتے ہیں۔اپنے دوستوں کے انتخاب کے سلسلے میں ان کا کیا معیار ہے ، یہ بھی ہماری نگاہ میں رہتا ہے۔ان کے ساتھ ہمارا دوستی اور محبت کا رشتہ ہونے کی وجہ سے وہ ہماری نصیحتوں اور مشوروں کو نظر انداز کرنے کے بجائے انھیں قبول کرتے ہیں۔اس لیے کہ انسان اسی کی بات مانتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ایسی صورت میں ہمارے لیے یہ بات آسان ہوجاتی ہے کہ ہم ان کے ذہن ودماغ میں مثبت اخلاقی اقدار کے بیج بو سکیں۔
۵۔ نفسیاتی رکاوٹ کا خاتمہ:میں نے بعض بچوں کو اپنے والدین سے اس طرح بات کرتے دیکھا ہے جیسے وہ کسی جابر شخص سے بات کررہے ہوں۔ایسے لوگوں کو کبھی یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرسکیں گے۔اس لیے کہ اولاد سے قربت اور ان کے ساتھ شفقت ومحبت کے رویے سے ہی اولاد ان کے قریب آسکے گی، ان کی بات سن سکے گی، اور ان کی نصیحتوں کو اہمیت دے گی۔لیکن اگر والدین کی جانب سے بے جا سختی ہوگی تو اس سے بچوں کے اندر والدین سے فرار اور نفرت کا جذبہ ہی پیدا ہوگا۔اس سلسلے میں آپ کے لیے اللہ تعالی کی وہ نصیحت ہی کافی ہونی چاہیے جو اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ کو کی ہے۔
دوستی کی راہ کی رکاوٹیں
چند چیزیں ایسی ہیں جن کے سلسلے میں والدین کو ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ کیوں کہ یہ چیزیں والدین اور اولاد کے درمیان دوستی کے رشتے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔مثلاً: والدین کی حد سے زیادہ سختی، بات بات میں بچوں کو ڈرانا دھمکانا ، ان کا مذاق اڑانا اور انھیں ذلیل کرنا، عمر کے ہر مرحلے میں ان کے مزاج اور طبیعت کی رعایت نہ کرنا، نئی نسل کے مزاج سے ناواقفیت جس کی وجہ سے بچے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے ماں باپ انھیں سمجھتے ہی نہیں ہیں۔اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ آپ سے ایک دوست کی طرح بات کرے تو آپ اس کی دلچسپیوں میں حصہ لیجیے، اس کے رہن سہن اور اس کی زبان وغیرہ سے اچھی طرح واقف رہیے۔ میں جب اپنے بچوں سے ان کی دلچسپیوں کے سلسلے میں بات کرتا ہوں یا ان کے ساتھ مل کر ان کے ہی کھیل کھیلتا ہوںتو مجھے ان کے چہرے پر خوشی صاف نظر آتی ہے ۔ آپ کا یہ عمل بچے اور آپ کے درمیان محبت کی اہم ترین کنجی ہے۔
اولاد سے تعلق میں ماں اور باپ کا حصہ
اولاد سے دوستانہ تعلقات بنانے کے سلسلے میں اصل ذمہ داری ماں اور باپ دونوں کی ہے۔لیکن حالات کے اعتبار سے باپ کا حصہ ماں سے زیادہ یا ماں کی ذمہ داری باپ سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔باپ کے گھر سے باہر مصروف رہنے کی وجہ سے بچوں کا زیادہ وقت ماں ہی کے ساتھ گزرتا ہے ، اس لیے اس طرح کے تعلقات کے سلسلے میں باپ کا حصہ ماں سے زیادہ ہوتا ہے۔نوجوانی کی عمر میںصنف کی یکسانیت کی وجہ سے لڑکا باپ کا زیادہ محتاج ہوتا ہے اور لڑکی کیوں کہ گھر میں ہی رہتی ہے اور اس کو ماں سے زیادہ مناسبت ہوتی ہے اس لیے اس سے تعلق میں ماں کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے۔
نوجوانی کی خصوصیات
والدین اور اولادکے درمیان رشتوں کو استوار کرنے کے سلسلے میں نوجوانی کی عمر کے بچے خصوصی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔دوست جیسے تعلقات کو پروان چڑھانے کے لیے والدین کو یہ بات خاص طور سے یاد رکھنی چاہیے کہ نوجوانی کی عمر کے بچوں کی جو شخصیت ہوتی ہے وہ بیک وقت بچوں اور بڑوں دونوں کی خصوصیات سے آراستہ ہوتی ہے۔یعنی اس میں کچھ صفات بچوں کی سی ہوتی ہیں اور کچھ بڑوں کی سی ہوتی ہیں۔اس عمر کی ایک خاص صفت سرکشی ہوتی ہے۔اس پہلو سے بچے کے ساتھ کوئی بھی معاملہ کرنے میں بڑی دقتیں پیش آیا کرتی ہیں۔اس عمر کی نازک کشتی کو نوجوانی کی موجوں اور تھپیڑوں سے اسی وقت بچایا جا سکتا ہے جب کہ آپ ان کے ساتھ رہ کر ان سے محبت اور نرمی کا برتائو کریں، ان کی ہر حرکت پر انھیں نہ ٹوکیں، نرمی کے ساتھ ان سے بات کریں، ان کی عزت نفس کا خیال رکھیں اور ان کے مزاج وطبیعت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
بچوں کے ساتھ دوستی کیسے بڑھائیں
تربیتی نوعیت کے چند عملی طریقے اختیار کرکے آپ اپنے بچے کا دل جیت سکتے ہیں اور آپ کے درمیان دوستانہ تعلقات کی مضبوط بنیاد پڑ سکتی ہے۔یہ بیس عملی نصیحتیں ہیں جنھیں آپ اختیار کر سکتے ہیں :
۱-اپنی اولاد کے لیے عملی نمونہ بنیے۔ خاص طور سے سچ بولنے اوروعدہ پورا کرنے میں ان کے لیے عملی نمونہ بننے کی کوشش کیجیے۔
۲-بچوں کے سامنے اور اپنی بیوی کے سامنے ان سے اپنی محبت کا اظہار کیجیے۔ کوشش کیجیے کہ گھر کا ماحول محبت کے جذبات سے معمور رہے۔
۳-بچوں کی بات کو غور سے سنیے، ان پر اپنی رائے کو زبردستی نہ تھوپیے۔ان کی کسی بات پر باز پس کرنی ہی ہو تو نرمی سے کیجیے اور اور انھیں اپنی بات پر مطمئن کرنے کی کوشش کیجیے۔
۴-ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کیجیے، انھیں یہ بھی احساس دلائیے کہ آپ کوان پر اعتمادہے۔صرف ان کی کامیابیوں پر انھیں شاباشی نہ دیجیے جیسا والدین بالعموم کرتے ہیں، بلکہ محض ان کی کوششوں کو بھی سراہیے۔ ان کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیجیے۔
۵-پابندی سے کچھ وقت نکال کر ان کے ساتھ بیٹھیے( کم از کم ہفتے میں ایک بار دو گھنٹے کا ایک وقت نکالیے)ہر ایک سے انفرادی طور پر ملیے اور ان کے معاملات نیز ان کی دلچسپیوں کے بارے میں ان سے بات کیجیے۔اس دوران انھیں یہ بھی احساس دلائیے کہ آپ ان سے ان کے معاملات سے دلچسپی رکھتے ہیں۔یہ بھی ایک پسندیدہ شکل ہوسکتی ہے کہ آپ کسی ریسٹورینٹ میں یا کلب میں ان کے ساتھ کھانا کھائیں اور ان سے باتیں کریں۔لیکن اس میں اعتدال ضروری ہے ۔ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ آپ کے کسی عمل کی وجہ سے بچوں کے درمیان باہم حسد کے جذبات جنم لینے لگیں۔
۶-ان کا شوق جانیے اور ان کی شخصیت کے ارتقا میں ان کی مدد کیجیے، مطالعے، کھیل کود اور ورزش وغیرہ کے دوران ان کا ساتھ دیجیے۔
۷-ان کے بچپن کے بارے میں ان سے باتیں کیجیے ، ان کی زندگی کے دلچسپ اور خوشی کے لمحات کے بارے میں ان سے معلوم کیجیے۔پھر انھیں بتائیے کہ آپ کو ان باتوں سے کیا نئی بات معلوم ہوئی۔
۸-ان کو اپنے دین اور عقیدے کے متعلق بتانے اور ان کے اندر اعلی اخلاقی قدروں کو پروان چڑھانے کی بھی فکر آپ کو ہونی چاہیے۔انھیں بعض رفاہی کاموں میں شریک ہونے کا موقع بھی دیجیے اور فخر کے ساتھ انھیں یہ بتائیے کہ آپ ان کے باپ اور وہ آپ کی اولاد ہیں۔
۹-انھیں مناسب آزادی دیں نیز ان کی تربیت کر لینے کے بعد انھیں بعض فیصلے خود لینے کا موقع بھی دیں۔
۱۰-ان کی پڑھائی کا ٹائم ٹیبل آپ کو معلوم رہنا چاہیے اور جب وہ اسکول سے واپس آئیں تو ان سے اسکول اور ان کی پڑھائی کے حالات دریافت کیجیے۔کبھی کبھی خود بھی ان کے اسکول جائیے اور ان کی ضرورتوں اور پریشانیوں کو حل کرنے کی کوشش کیجیے۔ان کے کلاس ٹیچر اور پرنسپل سے ملاقات کیجیے تاکہ بچوں کو یہ احساس ہو کہ آپ کو ان کے معاملات سے دلچسپی ہے۔
۱۱-انھیں گھر اور رشتہ داروں کے ماحول سے جوڑ کر رکھیں، اس سے ان کے اندر اہل خانہ سے محبت پیدا ہوگی۔
۱۲-جب آپ کا چھوٹا بچہ آپ سے بات کرے تو اس کی طرف توجہ مرکوز رکھیے، اس کی بات کو غور سے سنیے، اس کی گفتگو میں دلچسپی لیجیے، بات کرتے وقت اس کی محبت اور شفقت سے اس کی آنکھوں میں دیکھیے۔ اس دوران کسی اور طرف متوجہ رہنے سے آپ کے بچے کا دل ٹوٹے گا اور اس کے دل میں آپ کے تعلق سے نفرت پیدا ہوگی۔
۱۳-یہ عادت بھی ڈالیے کہ آپ ایک چھوٹے سے کاغذ کے ٹکڑے پر ان کے لیے محبت اور شکریے کے کلمات لکھ کر ان کے بیگ میں رکھ دیں یا ایس ایم ایس کردیں یا ای میل کے توسط سے اس طرح کا پیغام ان کے لیے بھیجیں۔
۱۴-جب آپ کا بچہ پینٹنگ بنائے یا خوش خطی کے ساتھ کوئی چیز لکھے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اسے گھر کے نمایاں مقام پر آویزاں کریں اور بچے کے سامنے خوشی و فخر کا اظہار کریں۔
۱۵-غلط کام یا انداز تربیت کا جائزہ لیے بغیر اپنے بچوں پر ان تمام اسلوبوں کو دہرانے کی کوشش اس دلیل کے ساتھ نہ کیجیے کہ آپ کی تربیت بھی ایسے ہی ہوئی ہے۔کیوں کہ آپ کے اور آپ کے بچے کے زمانے میں بہت فرق واقع ہوچکا ہے۔
۱۶-کوشش کیجیے کہ بچوں کے ساتھ آپ کی گفتگو کا انداز مثبت ہو منفی نہ ہو۔مثال کے طور پر آپ بچے سے یہ نہ کہیں کہ تم نے فلاں کام غلط طریقے سے کیا ہے۔ بلکہ اس سے یہ کہیں کہ تمھیں یہ کام اس طرح کرنا چاہیے تھا۔تاکہ بغیر کسی احساس ذلت کے وہ غلط اور صحیح کا فرق جان جائے۔
۱۷-کسی مخصوص لفظ یا اشارے کے ذریعے سے بچے سے اپنی محبت کا اظہار کیجیے۔مثلاً میرے ایک عزیز اپنے بچے، عمار کو پیار سے ’سوہنا‘ (اچھا اور خوبصورت) کہہ کر پکارتے ہیں۔
۱۸-بچے کو سزا دینے کے عمل کا سہارا اسی وقت لیں جب کہ تنبیہ نصیحت کے تمام ذرائع آپ آزما چکے ہوں۔اس میں بھی سزا کے اصولوں کو ملحوظ رکھیں۔
۱۹-بچے سے اپنی محبت کے اظہار کے لیے اسے اپنے گلے سے لگائیں اور اس کا بوسہ لیں۔
۲۰-ہمیشہ عفو ودرگزر سے کام لیں۔ بچوں پر سختی کرنے میں مبالغہ نہ کریں، نیز ان کی سابقہ غلطیوں کو بھول جانے کی کوشش کریں۔ ان کے ساتھ اپنے ہر دن کو نئے دن کے طور پر شروع کریں۔
tanveerafaqui@gmail.com

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146