بیس برس کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی اس کے رشتے آنے شروع ہوگئے تھے لیکن اس کے لیے جو بھی رشتہ آتا اس کے والد اسے نامنظور کردیتے۔دن گزرے، مہینے گزر ے ، برسو ںگزر گئے، نہ رشتوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہوا اور نہ ہی اس کے والد نے کسی رشتے کو منظوری دی۔آخر کار بچی بھی بیس سال کی عمرسے چالیس سال کے سن میں داخل ہوگئی۔
ایک روز یہی لڑکی، جس کی عمر چالیس کو پہنچنے کے بعد بھی شادی نہیں ہوسکی تھی، بیمار پڑ گئی۔بیمار بھی ایسی پڑی کہ اسے ہسپتال میں داخل کرنا پڑا کیوں کہ وہ بیماری کی وجہ سے بے ہوش ہوگئی تھی۔بیماری سے افاقہ ہوااور ہوش آیا تو اس نے اپنے سامنے والدکو بیٹھے دیکھا۔اس نے بڑے درد بھرے انداز میں اپنے والد سے کہا: ’’ابو! میں بچپن سے ہی آپ سے بہت پیار کرتی ہوں ، آپ کے جو احسانات ہیں ان سے بھی میں انکار نہیں کرسکتی۔ میں جب تک زندہ ہوں آپ کی اطاعت وفرماں برداری کرتی رہوں گی۔لیکن میں اب یہ بات آپ سے چھپا نہیں سکتی کہ آپ کے تعلق سے میرے جذبات بدل چکے ہیں۔کیوں کہ آپ ہی نے مجھے اب تک شوہر سے محروم رکھا ہے اور میری یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی کہ میں ایک شوہر کے ساتھ اپنا الگ گھر بسا کر رہوں۔میرے مامتا کے جذبے اور ماں بننے کی خواہش کے درمیان آپ آڑ بنے رہے۔مجھے شوق تھا کہ میرے بچے ہوں اور میں بھی ماں بنوں لیکن آپ نے مجھے اپنی ایک ایسی دنیا بسانے اور اس میں خود کو آباد کرنے کے احساس سے محروم کیے رکھا جس کا خواب ہر لڑکی دیکھتی ہے۔خدا کی قسم ، ابو جان! اگر مجھے اللہ کا ڈر نہ ہوتا تو میں اس سے آپ کی شکایت ضرور کرتی۔‘‘ اس کے بعد لڑکی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔بیٹی کی باتیں سن کر باپ کی انکھوں میں بھی آنسو آگئے اور وہ رو روکر اپنی بیٹی سے کہنے لگا کہ’’ میری بچی ! مجھے معاف کردے، بیٹی مجھے معاف کردے، میری بیٹی مجھے معاف کردے۔مجھے احساس ہوگیا ہے کہ میرا سوچنے کا انداز غلط تھا۔دراصل میں یہ چاہتا تھا کہ تیرے لیے کوئی مال دار لڑکا تلاش کروں جس کے ساتھ تیری زندگی سکون اور عیش کے ساتھ گزر جائے۔ بس،میری بچی ، مجھے معاف کردے۔‘‘
ایک واقعہ تو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک باپ نے عین نکاح کے وقت اپنی بیٹی کی شادی کرنے سے انکار کر دیا۔وجہ یہ تھی کہ دولہا لڑکی کے باپ کے وہ سامان مہیا نہیں کر پا رہا تھا جن کا مطالبہ اس نے پیشگی اطلاع کے بغیر نکاح والے روز ہی کیا تھا۔اس طرح بعض والدین محض اپنی غلط سوچ سے اپنے بچوں کا نصیب خراب کردیتے ہیں۔ دوسری طرف بعد نوجوان لڑکے لڑکیا خود بھی اپنے لیے مشکلیں پیدا کردیتی ہیں۔
ایک مسلم بہن نے مجھے اپنی بھابھی کا قصہ سنایا جو کہ آج بھی اپنے شوہر کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ نکاح ہوجانے کے بعد جب رخصتی کے لیے گاڑی لائی گئی تو اس نے جانے سے انکار کر دیا۔کیوں کہ اس کا مطالبہ تھا کہ مرسیڈیز کے بجائے ’’ہمر‘‘ لائی جائے۔انجام کار دولہا کو دوگھنٹے مذکورہ کار کا انتطام کرنے میں لگے۔ ظاہر اس کی وجہ سے اہل خانہ اور مہمانوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
شادی اللہ کی آیتوں میں سے ایک آیت:
شادی
۳-نوجوانی کا مرحلہ: ۱۲-۱۸ برس
عمر کے اس مرحلے کی خاص بات یہ ہے کہ بچے کی توجہ اپنی ذات پر مرکوز رہتی ہے۔اس عمر میں وہ چاہتا ہے کہ اس کے بارے میں بات کی جائے، اسے اپنی رائے ظاہر کرنے کا موقع دیا جائے۔ اسے یہ بات بھی اچھی لگتی ہے کہ ہم اس سے مشورہ طلب کریں اور اس کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کریں، اس کی باتوں کو زیادہ توجہ سے سنیں وغیرہ۔
اس عمر کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ بچے بہادری اور جانبازی کے قصے پسند کرتے ہیں۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ ہم انھیں غزوات و فتوحات اور اسلامی جانبازوں کے قصے سنائیں، جوانی کی قوت وطاقت کے بارے میں انھیں بتائیں اور یہ بتائیں کہ دعوت وکامیابی کے میدان میں نوجوانوں کی کتنی اہمیت ہے اور ان کیا کردار ہے۔
انداز گفتگوکیا ہو؟
بچوں کے ساتھ ہماری گفتگو مفید اور بارآور ہوسکتی ہے اگر ہم چند بنیادی اصولوں کو ملحوظ رکھیں۔
مختصر اور جامع بات
اگر ہم بچے کو حد سے زیادہ تلقین کرتے رہتے ہیں، یا ہر وقت اس کے لیے احکاماتہی صادر کرتے رہتے ہیں، ہر وقت اسے ڈائریکشن دیتے رہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں اس مقصد حاصل نہیں ہو رہا اور مقصود ومدعا حاصل ہونے کے بجائے بچوں میں ضد اور ہٹ دھرمی برھتی جارہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم غلطی کررہے ہیں۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ ’’اچھی بات وہ ہے جس کے الفاظ مختصر ہوں لیکن مفہوم مدعا کے اعتبار سے مکمل ہو۔‘‘ یعنی بیک مختصر اور واضح دونوں ہو۔
بچوں کے ساتھ گفتگو کے اسلوب
بچوں کے ساتھ گفتگو کرنے کے کچھ اسلوب اور طریقے ہیں۔ ا گر انھیں اختیار کیا جائے تو ہمارے اور بچوں کے درمیان رابطے کے پل کا کام کرسکتے ہیں۔
۱-تعلیم وتربیت
تعلیم سب سے اہم اور عام طریقہ ہے۔ جب کہ والدین بھی اپنی سب سے اولین ذمہ داری یہی سمجھتے ہیں کہ بچوں کو تعلیم ورہنمائی حاصل ہو اور اخلاق واقدار کی بنیاد پر ان کی تربیت و پرورش ہو۔
۲-جذباتی گفتگو
کبھی کبھی بچے اکتا جاتے ہیں،یا انھیں غصہ آجاتا ہے، ماں باپ کے اوپر ہی مشتعل ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی ان کی طرح کا ردعمل ظاہر نہ کریں، بلکہ ان کے جذبات و احساسات اور ضروریات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ان کے منفی جذبات کے جواب میں ہمیں مثبت طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہمارے لیے اللہ کے رسول ﷺ کا عمل نمونہ ہونا چاہیے۔آپ ﷺ بچوں کے ساتھ بلکہ تمام ہی لوگوں کے نرم دلی خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔آپ ؐ اپنی ذات کے لیے کبھی بھی غضب ناک نہیں ہوئے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : ایک بدو(دیہاتی) اللہ کے رسولﷺ کی خدمکت میں آیا اور بولا: آپ بچوں کا بوسہ لیتے ہیں، ہم تو کبھی بچوں کا بوسہ نہیں لیتے۔نبی کریمﷺ نے اس کی بات سن کر فرمایا: ’’میں کیا کرسکتا ہوںجب اللہ نے تیرے دل سے رحمت و شفقت کو سلب کر لیا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
۲-حوصلہ افزائی اور شاباشی
جب بھی ہم اس کے کسی مثبت رویے پر اس کی حوصلہ افزائی کریں گے ، ہماری یہ حوصلہ افزائی اس کے رویے کو مضبوط ومستحکم کرنے اور دوبارہ اس کو اختیار کرنے کا سبب بنے گی۔لہٰذا اس کے ہر اچھے اور مثبت عمل پر اس کی حوصلہ افزائی کیجیے۔
۳-گفتو اور لچک دار رویہ
حکمت یہ ہے کہ بچے کے لیے آپ کا رویہ لچک دار ہو ۔ اور جن معاملات میں آپ کے اور آپ کی اولاد کے درمیان اختلاف واقع ہوجائے ان کو حل کرنے کے لیے گفتگو کا سہارا لیں۔یہ بھاری غلطی ہوگی کہ ہر بارایک قطعی فیصلہ صادر کردیں اور اسے اپنی اولاد پر زبردستی تھپنے کی کوشش کریں۔مقصد یہ نہیں کہ آپ غلطی پر اولاد کا محاسبہ ہی نہ کریں بلکہ مقصد یہ ہے کہ جس معاملے میں آپ کے درمیان اختلاف ہے اس سلسلے میں باہم گفتگو کریں، بحث اور گفتگو کا موقع فراہم کریں۔اس کے بعد آپ کے رویے کی بنیاد عفو درگزر ہو۔
عام منفی جملے
ماں باپ کو اپنی اولاد سے گفتگو کرتے ہوئے اکثر میں چند جملے سنا کرتا ہوں۔ مثلا:
۱۔ ’’یہ تم نے کیا حماقت کی ہے۔۔۔‘‘ حالانکہ آپ کو یوں کہنا چاہیے کہ ’’اس معاملے پر باہم گفتگو کے ذریعے حقیقت معلوم کیے لیتے ہیں۔‘‘
۲۔ ’’تم سے یہ کام بھی نہیں ہوسکا۔۔۔‘‘ حالانکہ آپ کو یوں کہنا چاہیے کہ ’’بہر حال تم نے کوشش تو کی ، کوئی بات نہیں چلو دوبارہ اس کا تجربہ کیے لیتے ہیں۔‘‘
۳۔ ’’جب تک تم میری بات نہیں سنوگے اور میری بات کی مخالفت کرتے رہو گے ، کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘ اس کے بجائے آپ ’’میرے بیٹے ، پیارے‘‘ وغیرہ کہہ کر اسے بات سمجھانے کی کوشش کریں۔
گفتگو کا ماحول کیوں نہیں ہے؟
۱-افشاء راز
بچوں کے بعض والد اپنے بچوں کو تو یہ تاکید کرتے ہیں کہ وہ ان کا کوئی راز کسی کے سامنے ظاہر نہ کرے، لیکن بیٹا اپنا کوئی راز والد کو بتادیتا ہے اور پھر اسے اچانک یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا راز گھر کے تمام لوگ جان گئے ہیں۔ اس طرح باپ خود اس بات کا سبب بن جاتا ہے کہ بیٹا اس سے بات نہیں کرتا۔باپ اگر اپنے بیٹوں کے مزاج اور طبیعت سے ناواقف ہے تو یہ عذر ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ بیٹے اپنے راز کو باپ سے مخفی رکھنے لگیں۔اسی لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کے راز کی حفاظت کریںاور اپنے بچوں، بچیوں کی باتیں سننے کی عادت کو بہتر بنائیں۔
۲-میں تم سے زیادہ جانتا ہوں
بعض والدین اپنی اولاد کے سامنے ہمیشہ یہی جملہ دہراتے رہتے ہیں کہ ’’ میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔جتنا میں جانتا ہوں اتنا تم نہیں جانتے۔ زندگی کاتمھارا تجربہ مجھ سہ کم ہے۔‘‘ اگرچہ یہ بات صحیح ہے، لیکن والدین کی طرف سے اس قسم کے جملوں کے استعمال میں اعتدال ہونا چاہیے۔اسی طرح بعض والدین اس قسم کے جملے بول کر بچوں کو اس بات سے روکنا چاہتے ہیں کہ وہ کبھی بھی کوئی فیصلہ خود سے نہ لیں، اور نہ انھیں اس بات کی تربیت دینا چاہتے ہیں کہ وہ زندگی میں خود فیصلہ لینا سیکھ سکیں۔
مزید یہ بھی گفتگو کے اسرارورموز میں سے ہے کہ آپ —گفتگو کے دوران — بچے کو یہ احساس دلاتے رہیں کہ وہ بھی آپ ہی کی طرح ہیں، ان کے اندر بھی فیصلہ لینے کی صلاحیت ہے، جس طرح ان سے غلطیاں ہوتی ہیں ، ہم سے بھی ہوجاتی ہیں۔یہ چیز انھیں ہمارے ساتھ گفتگو کرنے پر آمادہ کرے گی، ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوگی ، ہم کسی مسئلے پر بات کرتے ہوئے انھیں کوئی خوف محسوس نہیں ہوگا، اوراپنے راز میں ہمیں شریک کر یں گے۔کیوں کہ اس طرح سے ہم انھیں یہ احساس دلادیں گے کہ ہم ان کے دوست ہیں نہ محض ان پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے والے۔
۳-اولاد کے لیے وقت نکالنے میں بخل
بعض والدین کی ترجیحات ہی اضطراب کا شکار رہتی ہیں۔وہ اپنا اصل وقت تو مادی ضروریات کی تکمیل اور دنیاوی آسودگی کے حصول میں صرف کر دیتے ہیں ، اس میں سے اگر وقت بچ پاتا ہے تو وہی بچوں کے حصے میں آپاتا ہے۔اس سے بچے اپنے والدین سے بات چیت کرنے کے مواقع کے سلسلے میں مایوس ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھربات بڑھتے بڑھتے ماں باں سے بے اعتنائی تک پہنچ جاتی ہے۔
۴-اولاد کے حقوق
بعض بچے اپنے والدین کے ردعمل کے خوف سے وجہ سے ان سے بات کرنے کی ہمت نہیں کرپاتے ۔ اس لیے اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ بچوں کو اگر آپ سے بات کرنی ہو تو وہ خو دآپ کے پاس چلے آیا کریں تو اس کے لیے آپ کو اپنے نفس پر کنٹرول رکھنا پڑے گا۔یہاں تک کہ اگر وہ کسی بڑے مسئلے کے متعلق بھی آپ سے بات کررہا ہے تو آپ حتی الامکان خود کو پر سکون رکھیں۔کیوں کہ اس سے بچے کو آپ سے بات کرنے اور اپنی بات کہنے کا حوصلہ ملے گا اور آپ کو اس کے مسائل کو حل کرنے میں مدد بھی ملے گی۔
کتنے ہی بچوں کا مستقبل محض اس لیے ضائع ہوجاتا ہے کہ گھر میں ایک دوسرے سے بات کرنے اور مشورہ کرنے کا ماحول ہی نہیں ہوتا ہے۔اس لیے ماں باپ کو بچوں کے مسائل کے تعلق سے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔اور اگر وہ کسی معاملے میں غلطی کر جائیں تو ان سے الجھنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ آپ ان کی مدد کریں، اور آپ ان کی مدد اس وقت تک نہیں کرسکتے ہیں جب تک آپ ان کو یہ احساس نہ دلادیں کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں۔ بچوں کو اس کا احساس اسی وقت ہوگا جب کہ آپ گفتگو کے دوران اپنے سکون اور تحمل کو برقرار رکھیں اور اس کی مشکلات اور حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔کیوں کہ اگر ہم ان پر بے جا سختی کریں گے ، خواہ ہماری نیت ان کی تربیت واصلاح ہی ہو، اس سے باہم بات چیت کا ماحول ختم ہوجانے کا اندیشہ ہے۔اور پھر وہ شاید اپنے دل کی بات کہنے کے لیے کسی متبادل کا سہارا لینے لگیں۔ یہ متبادل ان کے وہ دوست بھی ہوسکتے ہیں جو خود ان کی ہی طرح ناتجربہ کار ہیں۔