پیارے اللہ میاں! اننت السلام
اگلے روز کی بات ہے کہ ایک فلک بوس عمارت میں سے دعوت پر سامان مہیا کرنے والے ایک ادارے کے ملازم کرسیاں اور میز گاڑیوں پرلاد رہے تھے۔ یہ کُرسیاں تونے بھی دیکھی ہوںگی، اللہ میاں! جو رنگ رنگ کی نواڑ سے بنی ہوتی ہیں۔ ایک معصوم غریب بچی پاس ہی کھڑی پھٹی پھٹی نظروں سے یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔
معلوم نہیں کیوں، لیکن اللہ میاں میں اُس سے پوچھ ہی بیٹھاکہ ’’بیٹی کیا دیکھتی ہو؟‘‘ کہنے لگی! ’’یہ کرسیاں کتنی پیاری ہیں… اور چھوٹی چھوٹی ، جیسے بچوں کے لئے بنی ہوں۔‘‘
اس واقعے سے ایک روز پہلے اس کوٹھی کے پائیں باغ کی دیوار کے پیچھے، کھٹّوں کی گھنی باڑ سے پرے، قناتوں اور سائبانوں کی اوٹ میں، یہاں حاجی اور بی جمّن حج سے بخیرو عافیت واپس آنے کی خوشی میں اپنے عزیزوں اور احباب کو ایک شاندار دعوت دے چکے تھے۔
اللہ میاں مجھے معاً یہ خیال آیاکہ اگر یہ حاجی جو مکّے کی یاترا سے پاپ جھاڑکر آئے ہیں، محلّے کے غریب بچوں کی دعوت کرتے، انھیں وہ کھانا کھلاتے جسے کھاکر موٹروں پر آئے ہوئے، بھاری بھاری توندوں والے مہمان سارا دن کھٹی ڈکاریں لیتے رہے ہوںگے اور بچوں کو ان کرسیوں پر بٹھاتے اور کہتے کہ ان پر ناچو اور کودو تاکہ تمہیں وہ لُطف آئے جو ہمارے امیر مہمانوں کی قسمت میں نہیں لکھا، تو کتنا بڑا حج ہوتا۔ لیکن اللہ میاں!
٭
اللہ میاں! اِن لوگوں کاحج کے لئے جانے کا ذوق و شوق اور پھرلبیّک لبیّک پکارتے ہوئے تیری طرف دوڑنے کا تصور اتنا روح افزا ہے کہ اُس نظارے سے بھی تو لطف آجاتا ہوگا۔ خصوصاً اس لئے بھی کہ اس تقریب کے لئے جولباس تونے پسند فرمارکھا ہے…… وہی جو اِناللّٰہ والی پوشاک سے ملتا جلتا ہے اور سائل کی طرح بادشاہ، فقیر، وزیر، جلاہا، متصّور، موچی، پیر، مرید،نواب، کنجڑا، جرنیل، قصائی، مولوی، حلوائی، مضمون نگار اور بھانڈسب اسی میںملبوس ہوکر تیری رضا کے لئے اپنا سب کچھ تج کر تیرے حضور میں حاضر ہوتے ہیں۔ ورنہ اللہ میاں! کئی حاجی حضرتِ عمرؓ کے طائوس کی طرح بن ٹھن کر پیش ہوتے اوربی جمّن ٹیڈی گرل بن کر فریضۂ حج ادا کرتیں۔
٭
اللہ میاں کیا اسمٰعیلؑ کے پیاسے حلق کی چیخیں ان کے کانوں تک نہیں پہنچتیں؟ کیا انہیں صفا اور مروہ پر ہاجرہؑ کے قدموں کی مضطربانہ چاپ سنائی نہیں دیتی؟ کیا ان کی آنکھیںمتاعِ خلیلؑ کو اوندھے منہ لیٹے اور خلیل اللّٰہؑ کو اُس کے گلے پر چھری رکھے نہیں دیکھتیں اور پھرکیا یہ لوگ وادیٔ غیرذی زرع میںابراہیمؑ کی دُعا کی گونج نہیں سنتے اور اسکے خواب کی تعبیرکو اپنی آنکھوں سے نہیںدیکھتے…؟
اللہ میاں کیاوہ کملی پوش نوجوانؑ اب مکّے کی گلیوں میں گھومتا دکھائی نہیں دیتا جو رحمۃ للعالمین کا پُشتارہ اٹھائے غریبوں اور بے نوائوں کو ڈھونڈتاپھرتا تھا۔ وہی جوانمردؑجو یتیموں اور غلاموں کی ڈھارس بندھاتا، ناداروں اور مسکینوںکی ہمت بڑھاتا اور مظلوم کی حمایت میں ظالم سے جاٹکراتا تھا۔ اللہ میاں! وہ سادہ دل انسانؑ جو کہاکرتاتھاکہ ’’سب انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہواتھا‘‘ جس نے انسان کو تیری طرف سے آگاہ کیاتھاکہ ’’زمین میری ہے اور اُن کی تحویل میں دی گئی ہے جو اس کا صحیح استعمال جانتے ہیں۔‘‘ ’’کھیتوں میں اناج تم نہیں اُگاتے، ہم اگاتے ہیں۔‘‘ ’’سطحِ ارض پر پانی کو تم نے نازل نہیںکیا، ہم نے نازل کیا ہے۔‘‘ اور ’’آگ کے لئے درخت تم نے نہیں اُگائے ہم نے اُگائے ہیں۔‘‘ …… ہاںاللہ میاں! وہ سادہ طبیعت انسانؑ جو اپنے گھرمیں دیواروں پر پردے لٹکے ہوئے دیکھ کر بیزاری سے باہر نکل آیا اور بولاکہ ’’کپڑا انسان کی سترپوشی کے لئے بنا ہے، اینٹ اور پتھر کے درو دیوار کو پہنانے کے لئے نہیں‘‘ جو سوکراٹھتا تھا تواُس کے جسم پر کھجور کی چٹائی کے نشان پڑے دکھائی دیتے تھے…… اللہ میاں! وہ خیرالبشرؑ جس نے تیرے گھر سے صرف لات وہبل کو نہیں، بلکہ بنی نوع انسان کے صنم خانۂ دل میں داخل ہوکر خود غرضی اور خودپرستی کے بُت کو توڑا، مفاد پرستی کے صنم توڑے اور کبرو تبخترکے معبود چکناچور کردئے۔
اللہ میاں! اب غارِ حرا سے جبریل امین کی گھن دار آواز معاشیات کا یہ ابتدائی اور انتہائی سبق دیتی ہوئی بلند ہوتی ہے یا نہیں کہ ’’جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہے حاجت مند کو دے ڈالو۔‘‘
اللہ میاں! کیا مسجدِ نبویؐ کے کسی کونے سے رات کی تاریک خاموشیوں میںاُس رقیق القلب انسانؑ کی ہلکی ہلکی سسکیاں سنائی نہیں دیتیں جوکہتاتھا ’’اگر تم میں چھوہارے کا ایک ٹکڑا خیرات کرنے کی استطاعت ہے تو وہی دے دو… اور اگر تمہاری جیب خالی ہے تو سائل سے کوئی میٹھی بات ہی کہہ دو کہ یہ بھی خیرات ہے۔‘‘
٭
اللہ میاں! ابوالہب کے دونوں ہاتھ ابھی کہاں ٹوٹے ہیں؟ نہ اُس کی دولت ابھی تک بیکارہوئی ہے، یہ بہروپیا کبھی سلطان بن کر تیری خلق کو لوٹتا ہے اور کبھی درویش بن کرکھسوٹتا ہے۔ اور اُس کی بیوی، وہ ایندھن جمع کرنے والی، ابھی تک دندناتی پھرتی ہے۔
اللہ میاں! کیا بدروحنین میںتلواروں کی جھنکار اب ختم ہوچکی ہے؟ابھی تو چراغِ مصطفوی اور شرارِ بولہبی میں ویسی ہی ٹھنی ہوئی نظرآتی ہے۔
اللہ میاں! وہ یارِ غارؓ کہاں ہے جو اپنا سب کچھ تیری راہ میںدے کر کہتاتھا کہ ’’میرے لئے اللہ اور اُس کا رسولؐ کافی ہیں۔‘‘
اللہ میاں! کیا اب امیرالمومنینؓ اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری لادے اور کسی غریب بڑھیا کے چولہے میں پھونکے مارتے دکھائی نہیںدیتے؟……
اللہ میاں! وہ ملک التجار بھی تو وہیں ہوگا جو قحط کے دنوں میںاپنا مالِ تجارت دس گنے منافعے پر تیرے ہاتھ بیچ دیاکرتاتھا……
اور پھر اللہ میاں! وہ مشکل پسند سپاہی جسے دشمنوں سے بھرا ہوا میدانِ کارزار دیکھ کر، افطاری کے وقت گھر میں کچھ نہ پاکر اور بھوکے کوکھاناکھلانے کے لئے بیویؓ کی چادر گرہن رکھنے میں لطف آیا کرتاتھا۔
اللہ میاں! کیا مدینے کی فضا میں اب بلالؓ کے مستانہ نعرے تیری تکبیر وتوحید کااعلان کرتے ہوئے بلند نہیں ہوتے؟ کہ لوگ حرص وآز کے بتوں کو آستینوں میں دبائے اپنی منافقت کامظاہرہ آزادانہ کرتے پھرتے ہیں؟… کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تیرا نام سن کر لوگوں کے دلوں پر لرزہ طاری ہوجائے۔ اللہ میاں! اِن کے سینوںمیں چھپے ہوئے سنگ پاروں سے نہریں کیوں جاری نہیں ہوتیں۔ ان میںایسے پتھر کیا ہوئے جن سے چشمے بہتے تھے اور جو اللہ کے خوف سے سربسجود ہوجاتے تھے۔
اور اللہ میاں! اگر تو نے حاجیوں کو آنکھیں اورکان اور دل بھی دیاہے تو پھر یہ سب کچھ دیکھنے، سننے اور سمجھنے کے بعد جس طرح مکّے جاتے ہیںاُسی طرح کیوں خالی ہاتھ واپس آجاتے ہیں؟
٭
اب تو اللہ میاں! تو نے کلکتہ مہاسبھائیوں کو دے ڈالا ہے، انگریز کے زمانے میں ہماراتمہارا گزر بھی اُس طرف اکثر رہاکرتاتھا۔ اگر تو نے بھلانہیں دیاتو تجھے یاد ہوگاکہ ایک دن ایک بھنگن نئی سڑک پر جھکی ہوئی معلوم نہیں کہاں سے دونوں ہاتھوں کے ساتھ جھاڑدیتی ہوئی چلی آرہی تھی کہ ہسپتال کے سامنے پہنچ کر تکان سے چورہوگئی۔ اُس کے چہرے سے شدید دردو کرب کااظہار ہورہاتھا اور وہ دونوں ہاتھوں کو کولہوں پر رکھ کر اپنی اکڑی ہوئی کمر سیدھی کرنے کے لئے زور لگارہی تھی۔میںنے اللہ میاں دادخواہ نظروں سے تیری طرف دیکھا۔ لیکن آپ بے تحاشا ہنس پڑے۔ میں حیران تھا کہ الٰہی ماجرا کیاہے۔ آخر ہنسی کو ضبط کرتے ہوئے تونے صرف اتناکہاتھا’’کیا بھنگی نہیں تھکتے؟‘‘پہلے تو میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ لیکن کچھ دیر بعد تیری اس طنزیہ چوٹ نے مجھ پر گھڑوں پانی ڈال دیا، جسے دیکھ کرآپ اور بھی زیادہ ہنسنے لگے۔
٭
اللہ میاں! داتا گنج بخش کے مزار سے آنے والی سڑک پر، اس ہسپتال کے نزدیک جو ایک انگریز لاٹ کی بیگم کے نام پر بنا ہوا ہے اور جس کے ہمسائے میںتیرے فقیربادشاہ کی وہ مسجد ہے جو دنیا بھر میں سب سے بڑی ہے، راوی روڈ پرذرا ہی آگے بڑھیں تو ایک پُل پڑتاہے جس کی ڈاٹوں کے سائے تلے تیری کچھ مخلوق آباد ہے۔ آسمان کی بلندیوں اور زمین کی پستیوں میں سے کون سی چیز تجھ سے چھپی ہوئی ہے۔ اے مالک ارض و سماء، جس نے پٹواریوںکے ذریعے زمین کا چپہ چپہ نپواڈالا اور امیر کے محل سے لے کر غریب کے جھونپڑے تک پر ہائوس ٹیکس اور پراپرٹی اور پراپرٹی ٹیکس لگواڈالا، لیکن اللہ میاں قربان جائیے تیری تدبیر کے، کہ تو نے لامکان کے اِن مکینوں کو نظر ٹکیس سے محفوظ رکھا۔ تیری اسی پیاری مخلوق میں اے رب العالمین ایک نوجوان لڑکی پچھلے دنوں دھوپ میں اُپلے تھاپتے ہوئے لُو لگنے سے بیمار ہوگئی تھی۔
یاد ہے اللہ میاں؟ اس بیمار بچی کے اضطراب کو دیکھ کر کبھی تم داتا صاحب کے دربارسے آنے والے ناقصوں اور کاملوںکی طرف گھورتے، کبھی ہسپتال کی عظیم الشان اور اُجلی اُجلی عمارت کی طرف دیکھتے اور کبھی اُن حاجیوں اور نمازیوں کو متوجہ کرناچاہتے تھے جن کے ماتھوں پربڑے بڑے سیاہ محراب پھیلے ہوئے تھے…… معلوم نہیں اللہ میاں کوئی اور علاج بھی تم سوچ رہے ہوگے کہ اتنے میں لڑکی کاباپ حجام کو ساتھ لئے آن پہنچا۔ حجام نے آتے ہی اُسترے سے لڑکی کی چندیار کے بال مونڈ ڈالے اور اندر سے سفید سفید جلد نکل آئی۔ لڑکی اپنے لانبے لانبے بالوں کی کٹی ہوئی لٹیں دیکھ کر روپڑی۔ ماں نے دوپٹے کے پلّو سے بچی کے آنسو پونچھے اور کھجوری پنکھے کو پانی میں بھگوکر زور زور سے ہلانے لگی۔
اللہ میاں! میں اُس وقت کنکھیوں سے اس چھوٹے بچے کی طرف تک رہاتھا جو چارپائی کے پاس کھڑا، سڑک پر سے اُٹھائے ہوئے خربوزے کے چھلکے بڑے مزے سے چپارہاتھا۔
جب تم یکایک اُٹھ کرچل دئے تو مجھے بڑا تعجب ہوّا۔ میںتجھے پکار بھی نہ سکا اور اللہ میاں! کہ میرے گلے میں کچھ پھنس رہاتھا… لیکن میرا اظہار حیرت بالکل تصنع اور بناوٹ تھا…… میں نے تیری آنکھ سے ٹپکتاہوا وہ آنسو دیکھ لیاتھا جسے چھپانے کے لئے تو اُٹھ بھاگاتھا…… اللہ میاں! قسم لے لو جو یہ بات آج تک کسی فردِ بشر سے کہی ہو۔لیکن اس میں لاج آنے کی بات بھی کون سی ہے اللہ میاں! تو نے تو بڑے صبرو تحمل سے کام لیاتھا۔ اگر تیری جگہ میرے جیسا بودا انسان ہوتاتو چیخ اُٹھتا اور تیری ساری کائنات کو دم بھر میں بھسم کرڈالتا۔
اُس بچی کو اب آرام ہے اے شافیِ مطلق! اُس کی چند یا کی سفیدی بھی اب دور ہوچکی ہے اور آج وہ پھر اُپلوں کی ٹوکری اُٹھائے لئے جارہی تھی۔
اللہ میاں! اِس بچّی میں گئی ہوئی طاقت پھر سے بھروسے اور اِسے اتنا گوبر عطافرماکہ سارا منٹوپارک اُس کے اُپلوں سے بھرجائے… اللہ میاں اس استدعا کو مذاق میںنہ ٹالنا، ہمارے معاشرے کا تقاضا یہی ہے کہ اس بچی کی حل مشکلات اُپلوں ہی کے ذریعے ہو۔ وہ زمانہ گیا جب بڑے بڑے دیدبے والے بادشاہ لونڈی کو ملکہ بنالیاکرتے تھے، یاکوئی حبشی زادہؓ نکاح کا پیغام دیتاتھا تو جس طرف اُس کی نگاہ اٹھتی تھی، سردارانِ قوم کی گردنیں جھٹکتی جاتی تھیں۔
اللہ میاں! تیرے قرآن کی آواز کو دبانے کے لئے اب بھی شور مچایا جاتاہے، پراچینی احکام کا دور دورہ ہے۔ تعلیم صرف برہمن زادوں کے لئے مخصوص ہے اور شُودر کے کان میں سیسہ پگھلاکرڈال دیاگیا ہے کہ متبرک اشلوکوں سے قطعی ناآشنا رہیں۔
اللہ میاں! ہمارے قارون، شیطان کی اس خوش کپّی پر بھُولے بیٹھے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی دولت انہیں کے پاس رہے گی…… اللہ میاں! انہیں خبردارکردے کہ جب تک تمہارے معاشرے میںایک بھی ایسا کنبہ موجود ہے، تقدیر کی تلوار تمہارے سروں پر لٹکی رہے گی، سڑکوں پر کے گوبر کے ڈھیرتمہاری نازپروردہ بیویوں، بہوئوں اور بیٹیوں کے یاقوتی ناخنوں والے ہاتھوں کے منتظر رہیںگے اور پُلوں کی ڈاٹیںانہیںاپنے آغوش میں لینے کے لئے اپنے غارنما منہ کھولے رکھیںگی۔
٭
اللہ میاں!تونے ہندی مسلمانوں کی متروکہ جائداد جس کی الیت پر انہیں بڑا گھمنڈ تھا، اکافی ہوکر رہ گئی۔ تونے ملازم کی تنخواہ میں وہ برکت دی کہ معمولی عہدیداربھی لاکھوں کی کوٹھیوں کامالک اور ہزاروں کی موٹر پر سوار نظرآیا…… اللہ میاں! تونے پاکستانی جُلاہوں کو وہ بے نظیر ہنر بخشاکہ جاپانی جُلاہا اگر پاکستان کی روئی خریدکر اور بڑا عمدہ کپڑا بُن کر دس آنے گز (توبہ اللہ میاں! ۶۲ پیسے گز)بیچے تو کوئی پُوچھے بھی نہیں اور پاکستانی جب ایسا لٹھا بنائے کہ ایک تار دوسرے سے موٹائی میں مختلف ہو، تو اس کا رخ دوروپے گیارہ پیسے فی گز سے شروع ہوکر دن دُگنا اور رات چوگنا بڑھتا چلاجائے…… اور اللہ میاں! جب ان نعمتوں کی شکرگزاری کا موقع آتا ہے تو سارے اسمگلر، رشوت خور، عمّال،چوربازاری کرنے والے تاجر، مزدوروں کی تنخواہیں ہضم کرنے والے گراں فروش کارخانہ وار، اور وہ لوگ جن کی کھیتیوں کو تو اُگاتا ہے اور پروان چڑھاتا ہے، اپنی سربفلک کوٹھیوں، فاقہ کس مزدوروں کے پسینوں سے چلنے والے کارخانوں، اپنی تیزرفتار موٹروں اور ٹرکوں پر ہذامن فضل ربی لکھ تیرے احسانات سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔
اللہ میاں! انہیں بتاکہ حرص وآز کی یہ شراب جس کے نشے میں وہ مخمور ہیں، سور کاوہ گوشت جس کے زرّیں ڈھیروں کو دیکھ کر اُن کے منہ میںلذّت کے فواّرے چھوٹ رہے ہیں، نفس پرستی اور خود غرضی کے لات وعزّیٰ پر بھینٹ کی ہوئی سنہری اور روپہلی لاشیں اور معاشرے کے ناسوروںسے رِستا ہوا دم مسفوح ان پر حرام ہے اور ان کے لئے زہرِ قاتل کا حکم رکھتا ہے۔
٭
اللہ میاں! خرد شیف کی خیر! مکویان کی خیر!! اللہ میاں! اِن ملحدوں کو لالہ کے چکّر سے نکال اور جس قرآن کو مسلمان اپنے سینوں سے چمٹائے بیٹھے ہیں، انہیں دے دے۔ کہ یہ سادہ لوح جو کارل مارکس کی کتابوں پر ایمان لائے بیٹھے ہیں، تیری کتاب کو اپنا لائحہ عمل بنائیں۔ اللہ میاں اگر انصاف کی نظر سے دیکھاجائے تو یہ تیرے منکر بھی نہیں ہیں…… تیرے بندوں کی ربوبیت کرنیوالے تیرے منکر کیونکر ہوسکتے ہیں؟ صرف اتنی سی بات ہے کہ یہ لوگ تجھے شہ رگ سے قریب تر سمجھنے کی بجائے پیٹ سے قریب ترسمجھ رہے ہیں۔اللہ میاں یہ اپنی لوحِ دل دھو چکے ہیں۔ اس پر اِلّا اللہ لکھ دے کہ یہ اپنے آپ کو اور تجھے بھی پہچان جائیں۔
اللہ میاں! کینیڈی اور خردشیف دونوں تیری تلاش میں سرگرداںہیں۔ زمین کی وسعتوں کو چھاننے کے بعداب یہ آسمان کی بلندیوں میں تیرا کھوج لگانے نکلے ہیں،کبھی چاند میںجھانکتے ہیں، کبھی زہرہ و مریخ میں تاکتے ہیں، لیکن
جنھیںڈھونڈاتھا ہم نے آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے آخر اپنے خانۂ دل کے مکینوں میں
اللہ میاں! کینیڈی کو دولت کی کثرت سے بچاکہ اُسے ہلاکت کی طرف لئے جارہی ہے۔ اور سونے اور چاندیکے جن سکّوں کو تیرے فرشتے جہنم کی آگ میں گرم کررہے ہیں۔ اِن سے پاکستانی قارونوں کے پہلوئوں کو داغنے کاحکم دیدے کہ انہیں اس کی زیادہ ضرورت ہے۔
٭
اللہ میاں! تیرا علم ہر شے پر محیط ہی سہی لیکن اُس روز تونے فرشتوں کی بات ٹھکراکر نتیجہ دیکھ لیاکہ مُلّا فتنہ و فساد برپاکرتا چلا جاتاہے اور زبردست کے ناخنوں سے زبردست کا خون ٹپک رہاہے۔ اللہ میاں اِن دونوں دیوانوں کی چاند کسی ایسے حجام سے گنجی کر جس کااُسترا کُند اور بازو قوی ہوں۔
٭
اللہ میاں! تیری مخلوق اُن پُلوں کے لئے تیری شکرگزار ہے جو تونے اسلام دشمن انگریزسے بنوائے اور جن کے سائے میں وہ امن کی زندگی بسر کررہی ہے۔ یہ لوگ اِتنے محفوظ و مصئون ہیں۔ اللہ میاں! کہ مشرق ومغرب کے بیسیوں تاجدار اِن پر سے گزرگئے لیکن کسی کو آنکھ پھیرکر دیکھنے کی ہمت نہیں پڑی۔ یہ چیونٹے اور چیونٹیاں سلیمان اور اُس کے لشکر کو دیکھ کر اپنے بِلوں میںگھس جاتے ہوںگے۔
٭
اللہ میاں! تیرے قربان جائیے کہ تونے غریبوں کو اسراف سے بچانے کے لئے خربوزے کے چھلکوں میں لذت پیداکردی اور ان کی پرورش کے لئے تیرایہ فضل و کرم کچھ کم ہے کہ تو نے ایک روپے کے چونسٹھ کی بجائے پورے سو پیسے کردیئے۔
٭
اور ہاں اللہ میاں! خوب آیا۔ کَوڈی سائیں کا تیتر بڑا دُبلا ہوگیاہے۔ کیونکہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے گھاس میں کافی ٹڈیاں نہیں ملتیں…… تھوڑی سی بارش برسادے اللہ میاں! اگر تجھے یہ خیال ہو کہ بارش کی وجہ سے چاول کی فصل زیادہ ہوجائے گی اور اناج کا نرخ کم ہونے سے بیچارے زمینداروں کو گھاٹا رہے گا تو خاطر جمع رکھ۔ ہمارے ماہرین اقتصادیات اس کا انتظام کرلیںگے… اور اللہ میاں! تو تو دانے دانے پر مہرکردیاکرتاہے، اناج کے سب دانوں پر غیرملکیوں کے نام لکھ دیجیو۔ اُن کے باپ دادا کے نام لِکھ دیجیو کہ تیری مشیت پوری ہو… سنا ہے کہ آج کل مغربی ممالک میں موٹروں کی فصل بڑی اچھی ہورہی ہے۔اور ایسے ایسے اچھے دانے نکل رہے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے غریب کی بھوک دور ہوجائے۔
اللہ میاں کوڈی سائیں کو تیری ساری کائنات میںسوائے تیتر کے اور کسی چیز سے دلچسپی نہیں۔ اُس کی ضرورتیں بڑی محدود ہیں… صرف ایک پنجرا، پنجرے پر ڈالنے کے لئے کپڑا اور تیتر کے لئے پیٹ بھر ٹڈیاں اور بس۔
صدائے تیشہ کہ برسنگ می خورد ذشگر است
خبر بگیرکہ آوازِ تیشہ و جگراست
٭
میں ہوںاللہ میاں!
تیرا مجذوبؔ
——