’’میرے پاس تو کپڑے ہی نہیں، مجھے تو اس تقریب کے لیے ایک نیا سوٹ بنانا ہے۔‘‘
’’یہ جیولری سیٹ مجھے اتنا پسند آیا کہ بس میرا تو دل ہی اس پر اٹک کر رہ گیا تھا۔ خواب میں بھی یہی نظر آرہا تھا۔ آخر کار آج میں جاکر لے ہی آئی، حالانکہ مہنگا ہے مگر دیکھا جائے گا۔‘‘
یہ اور اس جیسے بہت سے جملے ہم خواتین سے اکثر سنا کرتے ہیں۔ کپڑوں سے الماریوں کی الماریاں بھرجائیں لیکن پھر بھی ایک ہی بات کا رونا ہوتا ہے کہ جی کپڑے نہیں۔ اتنی جیولری جمع کرکے بھی تسکین نہیں ہوتی۔ اور تو اور تعیشات کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ اب اس کے بغیر زندگی بسر کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔
اگر ہم دولت، وسائل، وقت اور صلاحیتیں جو ہمیں عطا کی گئی ہیں، ان کے استعمال اور اسراف کے درمیان فرق کرنا سیکھ لیں، اس کی آگاہی اور شعور جان لیں تو بہت ممکن ہے ہماری زندگی کا دھارا بدل جائے۔ اسلام میں نہ تو خرچ کرنے پر پابندی ہے اور نہ ہی زندگی کی سہولیات سے لطف اندوز ہونے کی ممانعت۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے: ’’رحمن کے بندے وہ ہیں… کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ہی کنجوسی کرتے ہیں۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا: ’’نہ اپنے ہاتھ گو گردن میں باندھے رکھو اور نہ پوری طرح کھلا چھوڑ دو بلکہ درمیانی راستہ اختیار کرو۔‘‘
چنانچہ ہمیں بے جا اسراف سے بچنے اور اپنے رویہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اپنا زاویۂ نظر تبدیل کرنے کی کوشش وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کسی بھی چیز کا بے جا استعمال یا اسراف، اس کی حیثیت بدل دیتا ہے۔ یہاں بات صرف روپے پیسے کی ہی نہیں، وقت اور وسائل کی بھی ہے، اپنی صلاحیتوں کی بھی ہے۔ کبھی کبھی کسی بے مصرف چیز کے حصول کے لیے ہم اندھا دھند اپنا وقت لگارہے ہوتے ہیں جس کا نتیجہ بے سود ہوتا ہے۔ اسراف سے ذہن میں جو تصور ابھرتا ہے وہ مادی وسائل کا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم یہ جان لیں کہ وقت، صلاحیت یا قابلیت بھی کہیں بے جا صرف ہورہی ہیں تو پھر ان کی قدر بھی آجاتی ہے۔
ایک قول ہے: ’’دنیا کے لیے اتنا ہی حاصل کرو،جتنا یہاں رہنا ہے۔ اسی طرح آخرت کے لیے اتنی تیاری کرلو جتنا وہاں رہنا ہے۔‘‘ اپنے آپ کو صرف دنیا کے لیے ہی نہ کھپائیں بلکہ وہاں کے لیے بھی اتنا ذخیرہ کرلیں تاکہ اپنے رب کے آگے سرخرو ہوسکیں، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اعتدال کی راہ اپنائی جائے۔
بہت سا وقت فضول گوئی اور بے مصرف کاموں میں خرچ کرنے سے بہتر ہے اسے کسی مثبت سرگرمی میں لگادیا جائے۔ اسی طرح اپنی صلاحیتیں جو خدا کی دین ہیں، ان کو بھی اگر دنیا کے ساتھ دین کے لیے بھی استعمال کیا جائے تو شاید ان کا حق ادا ہوجائے۔ اس دنیا میں انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ سب خدا کی طرف سے امانتاً عطا کردہ ہے، لہٰذا اس امانت میں خیانت نہ کریں، اس کی حفاظت کریں، اس کو اس کی مناسب جگہ پر ہی صرف کریں۔