بدو کی بات!

غزالہ عزیز

علم دنیا میں انسان کو اللہ کی طرف سے عطا ہونے والا عظیم ترین عطیہ ہے۔ یہ عطیہ ہر ایک کے لیے ہے۔ اپنے احساسات کو زبان فراہم کرنے کا ہنر… دیکھیے تو یہ کام ایک ننھا بچہ بھی بخوبی کرلیتا ہے۔ ارشاوں ہی اشاروں میں… آواز اور انداز سے اپنے سارے کام کروالیتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ہنر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پھر اس کو کچھ مزید بہتر کرنے کے لیے اسکولوں، کالجوں کی دوڑ شروع ہوتی ہے۔ ڈیڑھ اور ڈھائی سالہ بچے پیمپر اور دودھ کی بوتل کے ساتھ کنڈر گارٹن پہنچائے جاتے ہیں۔ والدین کی نظر میں ان کے بچے کے علامہ بننے میں کچھ ہی کسر رہتی ہے۔ اس کسر کو پورا کرنے کے لیے تن من دھن سے پوری لگن کے ساتھ کوششیں جاری رہتی ہیں۔

لیکن علمیت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود خدا تک نہ پہنچ سکے، اس کی وحدانیت کو نہ پہچان پائے، تو یقینا علم کی بنیاد میں غلطی ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کے باوجود کائنات کی حقیقتوں سے لا علم ہیں یا لا علم رہنا چاہتے ہیں، یقینا بنیاد کی اس غلطی میں والدین قصوروار ہیں۔

خدا سے دوری اور اس کی محبت اور قربت کا انکار کرتے کرتے ہی علم کی وادیوں میں بچوں کو اتاردیا جاتا ہے۔دنیائے خارزار میں آبلہ پائی اور خواہشات کے صحراکے سراب زبانوں کو خشک کرڈالتے ہیں۔ پھر جب بہترین وقت اور صلاحیتیں رخصت ہوجاتی ہیں تو اللہ کی طرف پلٹنے کا ہوش آتا ہے، لیکن اب جب کہ نہ بصارت رہی نہ بصیرت اور نہ ہی سماعت… اٹھتے بیٹھتے لاچاری مقدر بن کر چمٹ گئی تو پروردگار کی طرف لوٹنے اور اللہ کو پہچاننے کا سفر شروع کرتے ہیں، یا شروع کرنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ لیکن اب علم ہوکر بھی لا علمی مقدر ٹھیرتی ہے۔
’’اور تم میں سے کچھ وہ ہیں، جو عمر کے برے دور کی طرف لائے جاتے ہیں کہ علم کے بعد بھی انھیں علم نہیں رہتا۔‘‘ (الحج:۵)
بہترین وقت اور صلاحیتیں ایک جھوٹے مقصد پر نثار کرکے جب نچوڑے ہوئے لیمو کی طرح ہوجاتے ہیں اور دنیا ہمیں ریٹائر کردیتی ہے تو خالقِ کائنات کی پہچان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، چلیے ’’دیر آید درست آید‘‘ متوجہ ہوگئے، بہت اچھا کیا۔ لیکن کیا ہمیں قرآن کے مطالب تک پہنچنے کے لیے مطالعے کی ضرورت نہیں؟ باقی ماندہ زندگی کی بہترین جدوجہد کی ضرورت نہیں؟ یقینا ہمیں اپنے رب سے ایسی محبت کی ضرورت ہے جو ہمیں اس کی بارگاہ تک رسائی دلادے۔ یہ محبت اور لگن ہمیں ذہنی اور جسمانی تجسس کی ایک ہی ترجیح کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے، اور وہ ہے اول و آخر اللہ کو ترجیح دینا۔ زندگی میں جس چیز کو آپ ترجیح دیں گے، وہی آپ کے ساتھ ساتھ رہے گی اور وہی آپ کے ساتھ قبر تک جائے گی۔ حمدوتسبیح لبوں پر اور دل ہر عمل کی ابتدا پر لوگوں کے ردِ عمل سے ڈرے، ذہن ان کے سوالات و جوابات سے الجھتا رہے تو دل و دماغ کا معاملہ انھی کے ساتھ رہتا ہے۔
پس اللہ کو ترجیح اول وآخر رکھیں اور پھر خوش گمان رہیں۔ ایک مرتبہ آپؐ کے پاس ایک بدو آیا اور پوچھنے لگا: ’’یا رسول اللہ ﷺ قیامت کے دن کون حساب لے گا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ خود۔‘‘
بدو ہنسا اور چل دیا۔ رسول اللہ ﷺ حیران ہوئے کہ اس میں ہنسنے کی کون سی بات تھی۔ فرمایا: ’’دوڑو اور اس کو واپس لاؤ۔‘‘ جب وہ واپس آیا تو پوچھا: ’’تو ہنسا کیوں؟‘‘ اس نے کہا: ’’یا رسول اللہ ﷺ میں نے دیکھا کہ جب کوئی دنیا میں اعلیٰ ظرف حساب لیتا ہے تو نرم لیتا ہے۔ اللہ سے بڑا اعلیٰ ظرف کون ہوگا؟‘‘
تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دیکھو اس بدو کا گمان اللہ پر کتنا اچھا ہے۔‘‘ اور پھر فرمایا کہ ’’آخرت پر گمان اللہ سے درست رکھنا۔‘‘ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146