قرآن حکیم میں ارشاد ہے کہ بے شک زندگی کی گاڑی چلانے ، عزت اور صحت کو بحال رکھنے اور دوسرے حق داروں پر خرچ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ فضول خرچی اور غیرضروری اور نامناسب اخراجات سے گریز کیاجائے اور اعتدال پسندی کو اپنا شعار بنایا جائے۔ جب کہ فضول خرچی ایک ایسی عادت ہے جو ہر حال میں نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ فضول خرچی سے بچنا اور کفایت شعاری اپنانا تفکرات اور پریشانی کو کم کرتا ہے اور زندگی خوش اسلوبی اور چین سے گزرتی ہے۔ ضرورت کے لئے تو خرچ بہرحال کرنا ہی پڑتا ہے۔ کوئی ضرورت کے مطابق کرتاہے، کوئی ضرورت سے زیادہ اور کوئی ضرورت پر بھی نہیں کرتا۔ یہ مختلف طریقے ہیں جس سے انسان زندگی گزارتا ہے۔ لیکن ان سب سے بہتر طریقہ کفایت شعاری اپنانا اور فضول خرچی سے بچنا ہے، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ بہترین کام وہ ہے جس میں میانہ روی اختیار کی جائے۔
فضول خرچی نہ خدا کو پسند ہے نہ رسول کو۔ اس میں اپنا بھی نقصان ہے۔ خون پسینے سے کمایا ہوا روپیہ فضول اور غیرضروری کاموں پر خڑچ کردینا اور خود تکلیف اُٹھانا بھی کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ ایک تو روپیہ کا ضیاع اور دوسرے اپنے بال بچوں کو محروم کردینا دور اندیشی کے یکسر منافی ہے۔ ہمیں سادہ زندگی گزارنی چاہیے۔ اس سے تسکین بھی رہتی ہے اور فضول خرچی کے نقصانات سے بھی انسان بچارہتا ہے۔
فضول خرچ لوگ ہمیشہ پریشان ہی دیکھے گئے ہیں چاہے ان کی کتنی بھی آمدنی کیوں نہ ہو۔ شادی بیاہ، غم، خوشی پر بے جا اسراف ہوتا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ وہی روپیہ اپنے ضروری کاموں پر لگایاجائے جن سے ملک و قوم کی اورپریشان حال لوگوں کی خدمت ہوسکے۔ فضول خرچی سے خاندان تباہ ہوجاتے ہیں جب کہ کفایت شعاری کو اپنانے سے تنگ دستی اور افلاس سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ ایک مشہور مفکر کاقول ہے: ’’آپ اگر اپنی آمدنی میں اضافہ نہ کرسکتے ہوں تو اپنے خرچ میں کمی کیجیے۔ اپنے خرچ میں کمی کرکے آپ اپنی آمدنی بڑھاسکتے ہیں۔‘‘
اور اپنے خرچ میں کمی صرف فضول خرچی سے بچ کر ہی کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اکثر اوقات ہم اپنی ضرورت اور استعداد سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں۔ امیر کی دیکھا دیکھی غریب بھی اسی مصیبت میں مبتلا ہوگیا ہے۔ سادہ زندگی بسر کرنے اور فضول خرچی کی عادت کو چھوڑنے کے لیے پہل امیر طبقے کو کرنی چاہیے ورنہ معاشرہ کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ غریب اپنی جھوٹی عزت بنانے کے لئے مجبور ہیں۔ حالانکہ لوگوں کی زبانوں کو روکا نہیں جاسکتا۔ مسئلہ انفرادی نوعیت کانہیں بلکہ اجتماعی قسم کا ہے۔ امراء تو زیادہ خرچ کرسکتے ہیں مگر غریب لوگ بھی اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ وہ محض جھوٹا بھرم رکھنے کے لئے ایساکرتے ہیں۔ اگر سادہ زندگی بسر کرنے اور فضول سے بچنے کی عادت اپنائی جائے تو تقریبات بھی سادگی سے سر انجام دی جاسکتی ہیں۔ جھوٹا وقار انسان کو ذلیل کرکے رکھ دیتا ہے۔
فضول خرچی سے بچنے اور کفایت شعاری کو اپنانے کے لئے روزمرہ کا حساب لکھنا ضروری ہے۔ اس سے ہمیں یہ پتہ چلتاہے کہ کون سی مدات ہیں جن میں زیادہ خرچ ہورہاہے، تاکہ اسے کنٹرول کیاجائے اور سادہ زندگی بسر کرنے کی عادت ڈالی جائے۔ ہمیں چاہیے کہ خرچ کرتے وقت کئی بار سوچیں کہ آیایہ ہمارے لئے ضروری ہے؟ اگر ضروری ہے بھی تو اعتدال سے خرچ کیاجائے۔ عقلمندی اور دوراندیشی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اپنی آمدنی سے کچھ نہ کچھ بچایاضرور جائے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم فضول خرچی سے بچنے کی ہرممکن کوشش کریں اور اس موذی مرض سے نجات کا دل میں مصمم ارادہ کرلیں۔
——