حضرت عیسیٰ کے اٹھالیے جانے کے ۶۰۹ سال بعد ۱۲؍فروری ۶۱۰ء کو پیرکے دن غیب سے فرشتہ ظاہر ہوا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش خبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو دنیا کی ہدایت کے لیے اپنا رسول بنایا ہے۔ ۱۷؍رمضان المبارک (۱۷؍اگست ۶۱۰ء) جمعہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کا نزول شروع ہوا۔ ابتدا میں سورہ علق کی درج ذیل پانچ آیات اتریں:
’’پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیداکیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتاتھا۔‘‘ (العلق:۱ تا ۵)
نبوت کا بارگراںپڑنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوف زدگی کی کیفیت محسوس ہوئی۔ کچھ دیر بعد جب یہ حالت دور ہوئی تو آپؐ نے حضرت خدیجہؓ سے کہا: ’’اے خدیجہ مجھے کیاہوگیا ہے؟‘‘ پھر آپؐ نے سارا قصہ ان کو سنایا اور کہا ’’مجھے اپنی جان کاڈر ہے۔‘‘اس پر حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو تسلی دیتے ہوئے جو کچھ کہا وہ احادیث کی کتابوں میں محفوظ ہے، اور اس سے آپؐ کی نبوت سے قبل کی زندگی کے اعلیٰ وقابلِ تقلیدکردار کی عکاسی ہوتی ہے، جس کو آپؐ کی شریکِ حیات ہی نہیں پورامکہ تسلیم کرتاتھا۔ انہوںنے فرمایا:
’’ہرگزنہیں، اللہ کی قسم، اللہ آپؐ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، بے شک آپؐ (۱)رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں (۲)بے سہارا لوگوں کابار برداشت کرتے ہیں (۳)نادار لوگوں کو کماکر دیتے ہیں (۴)مہمان نوازی کرتے ہیں (۵)نیک کاموں میں مدد کرتے ہیں۔‘‘
بظاہر یہ پانچ صفات ہیں، مگر اس میں خدمت خلق و فلاحِ عام کی قابلِ تقلید وہ مثال موجود ہے جو مرورزماں ومکاں سے بالاتر ہر انسان کے لیے قابل قبول ہے۔ اور اس سے یہ بھی ہوتاہے کہ انسانیت دوستی، رحمۃ العالمین بناکر بھیجے گئے اس پیغمبرکی گھٹی میں ڈال دی گئی تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی امن دوستی اور انسانیت کو عظمت تک پہنچانے کی عظیم داستان ہے۔
حلف الفضول کی انجمن کا قیام
عرب میں اسلام کے آغاز تک لڑائیوں کا متواتر سلسلہ جاری رہا۔ ان میںحرب فجار سب سے زیادہ مشہور اور خطرناک ہے۔ یہ جنگ قبیلہ قریش اور قبیس کے درمیان ہوئی تھی۔ قریش کے تمام خاندانوں نے اس معرکہ میں اپنی الگ الگ فوجیں قائم کی تھیں۔ بڑے زور کامعرکہ ہوا۔ پہلے قبیس پھر قریش غالب آئے، بالآخر صلح پرخاتمہ ہوا۔ متواتر لڑائیوں سے سیکڑوں گھرانے برباد ہوگئے اور قتل و سفاکی اخلاق بن گئے۔ یہ دیکھ کر بعض طبقوں میں اصلاح کی تحریک پیدا ہوئی اور خاندان کی سرکردہ شخصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازبیر بن عبدالمطلب کی تجویز پر ذی القعدہ سنہ ۲۰ عام الفیل میںایک معاہدہ ہوا جس میں آپؐ بھی شریک تھے۔ قیام امن کے اس معاہدے کو حلف الفضول کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ اس وقت آپ ؐ کی عمر محض بیس سال تھی۔ یہ معاہدہ آپؐ کے نزدیک اتنا اہم تھاکہ آپؐ عہدِ نبوت میں فرمایا کرتے تھے:
’’عبداللہ بن جدعان کے گھر معاہدے کے وقت میں موجود تھا۔ اس کے معاوضے میں سرخ اونٹ بھی دیے جاتے تو لیناپسند نہ کرتا۔ اسلام میںبھی اس طرح معاہدے کے لیے بلایاجائے تومیں ضرور شریک ہوںگا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماتے تھے:
’’جاہلیت میں جو معاہدہ تھا، اسلام نے اس کے استحکام ہی کو بڑھایا ہے۔‘‘
اس بات سے اندازہ ہوتاہے کہ آپؐ قیام امن اور خدمت انسانیت کو بے حد اہمیت دیتے تھے۔ معاہدے میں بنوہاشم، بنومطلب، بنواسد، بنوزہیدۃ اور بنوتمیم شامل تھے اور حسب ذیل امور پر یہ معاہدہ ہوا:
۱- ہم ملک سے بدامنی دور کریںگے۔
۲- ہم مسافروںکی حفاطت کیاکریںگے۔
۳- ہم غریبوںکی امداد کیاکریںگے۔
۴- ہم زبردست کو زیردست پر ظلم کرنے سے روکا کریںگے۔
۵- ہم مکہ یا غیرمکہ کے مظلوموں کی حمایت کریںگے۔
امن و امان کے قیام اور خوں ریزی کے خاتمے کے لیے یہ آپؐ کی پہلی اجتماعی کوشش تھی۔
عالم گیر فساد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا اپنے تاریک ترین دور سے گزررہی تھی۔ صدیوں سے انسانیت جس پستی کی طرف گامزن تھی وہ اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ خدا فراموش انسان خود فراموش ہوکر حیوانیت کو بھی مات دے چکاتھا۔ اس عالم گیر تاریکی ، پستی اور فساد کا نقشہ قرآن مجید نے انتہائی جامع اور مؤثر انداز میں یوں کھینچا:
ترجمہ:’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے۔‘‘ (الروم:۴۱)
اس کے بعد اگلی ہی آیت میںصاحب نظر افراد کو اس طرف متوجہ کیاگیا کہ اس فساد کے نتیجے میں انسانیت کو جو تباہی و بربادی ہوئی ہے اس کے آثار زمین میں محفوظ ہیں، ان سے سبق حاصل کیاجائے تاکہ اس قسم کی غلطی کو دوہرا کراسی طرح کی بربادی سے دوبارہ دوچار نہ ہوناپڑے:
’’ان سے کہو کہ زمین میں چل پھر کر دیکھیں کہ پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہوچکا ہے، ان میںسے اکثر مشرک ہی تھے۔‘‘ (الروم: ۴۲)
مسئلہ کسی ایک ملک یا قوم کا نہیں بلکہ تمام نسلِ انسانی کے مستقبل کاتھا۔ گویا سامنے آگ کا ایک گڑھا تھا جس میں چھلانگ لگانے کے لیے وہ تیار کھڑی تھی:
ترجمہ: ’’تم آگ سے بھرے ہوئے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچالیا۔‘‘ (آل عمران: ۱۰۳)
انسانیت کی اس زبوں حالی میں اللہ رب العالمین کی طرف رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ک ظہور ہوا۔ آپؐ نے تمام انسانوں کو امن وسلامتی، آزادی، اخوت،مساوات اور حق شناسی سے آشنا کیا، سچی ہمدردی سکھائی اور فساد زدہ دنیا کو امن کا گہوارا بنادیا۔ عالم انسانیت کو بھیانک انجام سے بچانے کے سلسلے میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے جواہم کردار انجام دیا، اس کو آپؐ نے تمثیل کی شکل میں یوں بیان فرمایا:
’’حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اورمیری امت کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی، پھراس میں کیڑے اور پتنگے گرنے لگے اور میں پکڑے ہوئے ہوں تمہاری کمر کو اور تم بلاتامل اندھا دھند اس میں گرے پڑتے ہو۔‘‘ (صحیح مسلم- کتاب الفضائل)
انسانیت کی اس زبوں حالی کی کیفیت میں اللہ رب العالمین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا کے لیے رحمت بناکر بھیجا:
وماارسلنک الارحمۃ للعٰلمین
(الانبیاء:۱۰۷)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تمام عالم انسانیت کے لیے اس لیے بھی رحمت تھی کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب انسانوں کے لیے ایک قابل قبول شریعت کے ساتھ مبعوث ہوئے۔ آپؐ کی بعثت صرف عرب ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام نسل انسانی کے لیے تھی اور اس کی رحمت سے تمام نسل انسانی نے فوائد اٹھائے اور اٹھارہی ہے۔
جنگ برائے امن
حق و باطل کی کش مکش ازل سے ہے اور اس میںجنگ لازمی امر ہے۔ مگر اسلام انسان دشمنی اور کشورکشائی کے لیے جنگ نہیں کرتا بلکہ انسان کو انسان کی غلامی اور محکومی سے نجات دلاکر تمام انسانوں کے خالق ومالک اور پروردگار کی غلامی میں لانے، انصاف، مساوات اورظلم وجبرسے پاک ایک پُرامن معاشرہ قائم کرنے اور ایک عالمی انسانی برادری تشکیل دینے کے لیے جنگ کرتاہے۔ اسلام میں جہاد کی بنیاد لڑنے والے کی نیت پر ہے۔ کوئی بھی مجاہد اپنی ذات کے لیے یا اپنا ذاتی انتقام لینے کے لیے جنگ نہیں کرتا۔ جو کوئی اپنی ذات کو مقدم رکھے گا، وہ چاہے کتناہی نیک کام کیوں نہ کرے، اللہ کے نزدیک بے ثمر ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے استفسار کیاگیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث بیان کیجئے، تو انہوںنے ایک طویل حدیث بیان کی جس کے پہلے حصے میںفرمایا:
’’ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ قیامت کے دن جس پہلے شخص کا فیصلہ ہوگا وہ شہید ہوگا۔اس کو اللہ تعالیٰ کے پاس لایاجائے گا، اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں اس کو جتلائے گا، وہ پہچانے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گاکہ ’’تم نے اس کے لیے کیاعمل کیا‘‘؟ وہ کہے گا: ’’میں تیری راہ میں لڑا، یہاں تک کہ شہیدہوا‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’تونے جھوٹ بولا، تو تو اس لیے لڑاتھا کہ لوگ تجھے بہادر کہیںاور تجھے بہادر کہاجاچکا۔‘‘ پھر حکم ہوگا اور اس کو اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیاجائے گا…‘‘ (مسلم، حدیث ۴۹۲۳)
اس حدیث پر یقین رکھنے والا ہر مسلمان صرف اللہ کی خاطر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے قواعد و ضوابط کے مطابق ہی جہاد کرسکتا ہے۔ اسلام نے جنگ کے لیے چند ناگزیر اصول مقرر کردیے ہیں تاکہ کسی بھی صورت ان کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے۔
جنگ کے چند اصول
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحابؓ کو کسی مہم پر روانہ کرتے ہوئے جو ہدایات دیتے تھے وہ تاقیامت سپہ سالاروں کے رہنما اصول ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی فوجی دستہ روانہ کرتے تو یہ ہدایت دیتے:
۱- جنگ کرو اللہ کے نام سے۔
۲- اور اللہ کی راہ میں۔
۳- ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ سے کفر کریں۔
۴- مبالغہ آرائی نہ کرو اور دھوکا نہ دو۔
۵- اور مُثلہ (اعضاکو کاٹنا) نہ کرو۔
۶- اور نہ قتل کرو عورتوں اور بچوں کو۔
جب کوئی فوجی مہم بھیجو یا کوئی دستہ روانہ کرو تو ان کو بھی ایسا ہی حکم دینا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع سے واپسی پر اسامہؓ بن زید کی سپہ سالاری میںایک لشکر شام کی طرف روانہ کرنے کا اہتمام فرمایا۔ آپؐ کی رحلت کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ پہلے خلیفہ منتخب ہوئے تو انہوںنے اس مہم کو بھیجا اور اس موقع پر جو ہدایات دیں وہ بھی اسلامی قوانین جنگ کی بنیاد ہیں اور سپہ سالاروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آپؓ نے فرمایا:
لوگوٹھیرو، میں تمہیں دس باتوں کی نصیحت کرتاہوں، میری ان باتوں کو یاد رکھو:
۱- خیانت نہ کرنا
۲- اور مبالغہ آرائی نہ کرنا۔
۳- اور دھوکا نہ دینا۔
۴- اور مُثلہ نہ کرنا۔
۵- اور چھوٹے بچوں ، بوڑھے مردوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا۔
۶- اورکھجور کے درخت نہ کاٹنا، نہ انہیں جلانا اور نہ کوئی پھل دار درخت کاٹنا۔
۷- اوربھیڑ، بکری اور گائے کو کھانے کے علاوہ ذبح نہ کرنا۔
۸- تمہارا گزر ایسے لوگوں کے پاس ہوگا جو اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کیے، گرجوں اور عبادت خانوںمیں بیٹھے ہیں۔ انہیں اپنے حال پر چھوڑدینا، ان سے کوئی تعارض نہ کرنا۔
۹- تمہیں ایسے لوگوں کے پاس جانے کا موقع ملے گا جو تمہارے لیے برتنوں میں ڈال کر متنوع کھانے پیش کریںگے، ان کو کھاتے ہوئے بسم اللہ ضرور پڑھنا۔
۱۰- تم ایسے لوگوں سے ملوگے جنہوںنے سر کا درمیانی حصہ منڈوارکھاہوگالیکن سر کے چاروں طرف بڑی بڑی لٹیں لٹکی ہوںگی، انہیں تلوار سے قتل کردینا۔
طعن وطاعون سے اپنی حفاظت اللہ کے نام سے کرنا۔ اللہ تمہیں شکست سے محفوظ رکھے۔
اس کے بعد خاص طورپر اسامہؓ کو نصیحت کی۔
خلیفہ اوّل حضرت ابوبکرصدیقؓ کے بعد تمام حق پسند خلفا اور امرا نے ان جنگی اصولوں کی پابندی کی، اور یہ پابندی دائمی ہے۔
تہذیب حاضر کی انسانیت دشمنی
بیسویں صدی کو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کاعہدِ معراج کہا جاتاہے۔ اس صدی میں انسان نے اپنی محیرالعقول ایجادات و انکشافات سے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے دنیا کو حیران کردیا، مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی حیوانی اور وحشیانہ صفات پر بھی قابو پاسکا ہے؟
بیسویں صدی کا انسان دو بڑی جنگوں سے دوچار ہوا ۔ یہ دونوں جنگیں مادی وسائل پر قبضہ کرنے، دوسری اقوام کو محکوم اور غلام بنانے اور اپنی تجارت کو وسعت دینے کی غرض سے ہوئیں۔ ولیم ایل لینگر کے مطالق پہلی جنگ عظیم کے جانی نقصانات کا اندازہ کم و بیش ایک کروڑ ہلے۔ جبکہ دو کروڑ کے قریب افراد زخمی ہوئے۔
ولیم ایل لینگر نیویارک ٹائم کے حوالے سے الجزائر میں دو سال دس مہینے کی جنگ کے نقصانات کی حسب ذیل تفصیل بیان کرتاہے:
الجزائری مقتولین: 36,000
اسیر: 20,000
فرانسیسی فوجی مقتولین: 4,000
مجروح اور لاپتا: 10,000
غیرمصافی مسلمان مقتولین:6,000
مجروح،لاپتا: 2300
غیرمصافی یورپی مقتولین: 1,000
مجروح،27,000، لاپتا: 140
ان اعدادوشمار کے علاوہ خود فرانس میں تین سو الجزائری قتل اور دوہزارچارسومجروح ہوئے۔
ہیروشیما میں جوہری طاقت کا وحشیانہ استعمال
دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں ہیروشیما کی آبادی دو لاکھ سے کم نہیں تھی اور یہ جاپان کا وہ واحد شہر تھا جو بمباری سے بچاہواتھا اس لیے اطراف سے جاپانی نقل مکانی کرکے یہاں آتے رہے۔ چنانچہ اگست ۱۹۴۵ء میں یہاں کی آبادی پونے چار لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ ۶؍اگست ۱۹۴۵ء بروز اتوار صبح آٹھ بجکر پندرہ منٹ پر جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو سے ۵۲۷ میل کے فاصلہ پر واقع شہر ہیروشیما پر دنیا کا پہلا جوہری بم پھینکا گیا جس کے نتیجے میں 20,000 عسکری اور 118,661غیرفوجی انسان پلک جھپکنے میں لقمہ اجل بن گئے۔ بم گرنے سے اردگرد تین ہزار گز کے رقبے میں درجہ حرارت پانچ ہزار تین سو ڈگری فارن ہائٹ تک پہنچ گیا۔ اس وقت گرم ہوا کی رفتار بارہ سو فٹ فی سکینڈ تھی۔ ہزاروں انسان جل کر راکھ ہوگئے، باقیوں کی چمڑی گل گئی اور جسم بھننے لگا، کھال ادھڑگئی، سر کے بال گرنے لگے، بھنویں اور پیوٹے جھڑگئے۔ ان کا شمار زندوںمیں رہا نہ مُردوں میں۔وہ سسک سسک کر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوگئے۔ جو لوگ کچھ فاصلے پر تھے وہ بھی تاب کاری کا شکار ہوئے اور تہذیب حاضر کے وحشیانہ سلوک کا نشانہ بنے رہے۔ جو ابھی بھی زندہ ہیں وہ زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ کس گناہ کی پاداش میں ہمیں یہ سزا دی گئی۔ ۱۳ مربع کلومیٹر کاعلاقہ تباہی سے دوچار ہوا۔ شہر کے 76,000مکانات کاستر فیصد جل کر راکھ ہوا جن میں اسکول، کالج، اسپتال، مندر، کلیسا، یتیم خانہ اور معذور افراد کے مراکز شامل تھے۔
ناگاساکی
اس حادثے کے تین روز بعد ۹؍اگست بروز بدھ جاپان ہی کے ایک اور شہر ناگاساکی پر دوسرا جوہری بم گرایاگیا جس سے 250,000بنی آدم لقمہ اجل بنے۔ اس کے علاوہ ۱۹۵۰ء تک اس کے اثرات سے مزید 300,000لوگ مارے گئے۔ انسانی تاریخ میں ان دو واقعات کے علاوہ اتنے کم وقت میںاس قدر زیادہ جانی نقصانات کی اور کوئی نظیر نہیں ملتی۔
ویت نام جنگ میں انسانی تہذیب کی تباہی
۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۳ء تک کل ۸ سال پر محیط ویت نام جنگ میں جدید دور کے مہذب انسانوں کے ہاتھوں انسانی تہذیب کی جو تباہی ہوئی اس کی تفصیل کچھ یوںہے:
تعلیمی ادارے تباہ ہوئے 2923
اسپتال تباہ ہوئے 1850
گرجے اور کلیسا تباہ ہوئے 484
مندر، مساجد اور دیگر عبادت خانے 465
مندرجہ بالا تمام واقعات اور ان کے نتیجے میں ہونے والی کوئی بھی تباہ کاری دین اور مذہب کی بنیاد پر نہیں ہوئی بلکہ یہ سب کی سب لادینیت کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اور ان فسادات کے نتیجے میں آج بھی دنیا کی ۳ فیصد آبادی اپنی جائے پیدائش سے باہر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
دوسری عیسوی ہزاریے کا آغاز بڑے بلند بانگ دعووں کے ساتھ کیاگیا۔ امید کی گئی کہ یہ ہزاریہ جنگوں سے پاک انسانیت کے عروج کا ہزاریہ ثابت ہوگا۔ مگر ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکا کے شہر نیویارک پر حملہ ہوگیا۔ ابتدائی طورپر بتایاگیاکہ اس حملہ کے نتیجے میں دنیا کے ۶۷ ممالک سے تعلق رکھنے والے 6700افراد لقمہ اجل بنے۔ تاہم بعد کے اعداد وشمار سے یہ تعداد کم ہوکر مرنے والے اور گم شدہ افراد کیکل تعداد 2752رہ گئی۔
اس واقعہ کے نتیجے میںمارچ 2003ء سے عراق میں جاری جنگ میںاب تک سات لاکھ سے زائد انسانی جانوں کا نقصان ہوچکا ہے، ایک لاکھ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور اب تک کم از کم 3900امریکی فوجی کام آچکے ہیں۔ قدیم انسانی تہذیب کے گہوارے کو جو نقصان ہوا، وہ ناقابل تلافی ہے۔
عظمتِ انسانیت
مندرجہ بالا اعدادوشمار سے تہذیب حاضر کی ہولناک وحشیانہ تصویر سامنے آتی ہے جو اپنے جنگی جنون میں نہ صرف بے گناہ اور جنگ سے لاتعلق افراد کا بلاتخصیص قتل عامکرتی ہے بلکہ انسانوں کے ہاتھوں سجائے تہذیب و تمدن کو نیست ونابود کردیتی ہے۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی دی گئی تعلیمات اس بات کاپابند کرتی ہیں کہ غیرعسکری افراد کی جان ومال کا بلاتخصیص عقائد ونظریات، رنگ، نسل اور لسان و ثقافت احترام کیاجائے، کیوں کہ اسلام کے نزدیک انسانی جان تخلیقی طورپر محترم ومکرم ہے:
ترجمہ: ’’اور ہم نے ابن آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی اور تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۱۷:۷۰)
انسانی جانوں کااحترام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوی زندگی میں انسانی جانوں کے احترام کی لازوال مثالیں قائم کیں۔ کل ۲۳ سالہ نبوی زندگی میں سے ۱۳ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہم وطنوں اور اپنے قبیلے قریش کے درمیان بسر کیے۔ مکہ کے بااختیار لوگ آپؐ کے اصحاب پر ناقابل برداشت مظالم ڈھاتے رہے، یہاں تک کہ آپؐ اور آپؐ کے خاندان بنوہاشم پر کم وبیش تین سال تک سیاسی، سماجی اور اقتصادی پابندیاں عائد رکھی گئیں۔
اپنے خاندان اور اہلِ مکہ سے مایوس ہوکر جب آپؐ نے طائف کاسفر اختیارفرمایاتو اہلِ طائف نے بھی آپؐ پر مظالم کی انتہاکردی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے استفسار پر آپؐ نے فرمایا:
’’میں نے تیری قوم سے بہت آفت اٹھائی ہے اور سب سے زیادہ سخت رنج مجھے عقبہ کے دن ہوا۔‘‘ (مسلم کتاب، الجہاد والسیر، حدیث:۴۶۵۳)
مکی زندگی کے دوران میں بھی اور مدنی زندگی میں بھی متعدد مواقع ایسے آئے کہ مشرکین مکہ اور کفار سے مقابلہ ہوسکتاتھا مگر آپ نے ہر موقع پر جنگ کرنے سے گریز کیا، کیوں کہ دعوتِ حق کے لیے جنگ و جدال آسانی پیدا کرنے کے بجائے رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ آپؐ کی اس حکمت عملی کو قرآن مجید میں یوں سراہا گیا:
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے، جب کہ ایک گروہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کیاتھا مگر اللہ نے ان کے ہاتھ تم پر اٹھنے سے روک دیے۔‘‘ (المائدہ:۵:۱۱)
ایک اور آیت میںاسی مضمون کو مزید واضح کیاگیاہے:
ہوالذی کف ایدیہم عنکم وایدیکم عنہم ببطن مکۃ من بعد ان ظفرکم علیہم، وکان اللہ بما تعملون بصیراً
(سورہ الفتح:۴۸:۲۴)
پہلی آیت میں مسلمان اور کفارہ کو باہم جنگ وجدال سے روک رکھنے کو اللہ کی نعمت کے طورپر بیان کیاگیا ہے۔ دوسری آیت میں مخالف گروہ کفار پر فتح حاصل کرنے کے باوجود ان کو کوئی ایذا نہ پہنچانے کو اللہ نے اپنی شان سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اسلام کا منشا کسی انسانی جان کو نقصان پہنچانا نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳ سالہ نبوی زندگی میں کل ۸۳ جنگیں لڑیں جن میں ۵۶ سریا اور ۲۷ غزوات ہیں۔ ان جنگوں میں ۲۵۹ مسلمان شہید اور ۷۵۹ کفار مارے گئے، جب کہ ۶۵۶۴ کفار اسیر ہوئے۔ اس دوران میں جو غیرمعمولی نتائج برآمد ہوئے، اس کے بارے میں ممتاز محقق سیرت تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’عہدِ نبویؐ کی جنگیں تاریخ انسانی میں غیرمعمولی طورپر ممتاز ہیں۔ اکثر دگنی تگنی اور بعض وقت دس گنی قوت سے مقابلہ ہوا، اور قریب قریب ہمیشہ ہی فتح حاصل ہوئی۔ دوسرے چند محلّوں پر مشتمل ایک شہری مملکت کا جو آغاز ہوا وہ روزانہ دو سوچوہتر مربع میل کے اوسط سے وسعت اختیار کرتی ہے اور دس سال بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو دس لاکھ سے زیادہ مربع میل کا رقبہ آپؐ کے زیر اقتدار آچکاتھا۔ تقریباً ہندوستان کے برابر وسیع علاقے کی اس فتح میں، جس میں یقینا ملینوں کی آبادی تھی، دشمن کے بمشکل ڈیڑھ سو آدمی قتل ہوئے۔ مسلمان فوج کامشکل سے اس دس سال میں ماہانہ ایک سپاہی شہید ہوتا رہا۔
انسانی خون کی یہ عزت تاریخ عالم میں بلاخوفِ تردید بے نظیر ہے۔ پھر ان فتوحات کا دوسرا پہلو قبضے کا استحکام، مفتوحوں کی ذہنیت کی کایا پلٹ اور ان کا مکمل طور سے اپنالیاجانا اور ایسے افسروں کی تربیت کرجاناکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پندرہ سال بعد تین براعظموں (ایشیا، افریقہ اور یورپ) پر پھیلے ہوئے علاقوں پر مدینے کی حکومت کا قائم ہوجانا، یہ تمام اور دیگر امور ہمیں عہد نبویؐ کی جنگوں کامطالعہ کرنے سے زیادہ اس ذات کی عظمت جاننے کا شوق پیدا کرتاہے جس نے ان افراد کی تربیت دی اور جس نے ان کے اندر یہ جذبہ پیدا کیا۔
——