آج اپنے بچوں کو شام کے وقت پڑھا رہی تھی کہ میری بڑی بیٹی بڑے شکایتی انداز میں بولی کہ ہمارے اساتذہ کو بچوں کا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔ ادھر Time Tableمل جاتا ہے اور دوسری طرف ٹیچر اسکول میںکام مکمل کروارہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح کی چند اور شکایات جب بیٹی نے بیان کیں تو دل رنجیدہ ہوا۔ بیٹی نے کہا کہ اگر ہمارے سب سے اچھے ’’استاد‘‘ سب سے اچھے ’’معلّم‘‘ نبی آخر زماں حضرت محمد ﷺ اس دنیا میں ہوتے تو میں سارے اساتذہ کی شکایتیں ان سے لگاتی کہ ’’استاد‘‘ ایسے ہوتے ہیں؟ اور نہ جانے کیا کچھ وہ دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔ مگر میرا دل آج کے اساتذہ کے بارے میں گم سوچ رہاتھا۔ مجھے وہ بے شمار طالب علم یاد آگئے جو اساتذہ کی سختی کے باعث تکالیف جھیل رہے ہیں۔ کئی طلبہ جسمانی طورپر ہمیشہ کے لیے معذور ہوگئے اور اساتذہ کی طلبہ پر تشدد کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ میری ذمہ دارانِ تعلیم سے بھر پور التجا ہے کہ وہ اس معاملے پر اپنی اولادوں کو سامنے رکھ کر سوچیں کہ خدانخواستہ کبھی یہ معاملہ ہمارے معصوم بچوں کے ساتھ پیش نہ آجائے۔ خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا ہو۔
’’استاد‘‘ معاشرے میں بڑا مقدس مقام اور درجہ رکھتا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں رائج تعلیم کا نظام بہت قابلِ توجہ ہے۔ ماہرینِ تعلیم کے لیے تشدد کے واقعات غوروفکر کا سامان مہیا کرتے ہیں کہ ’’تعلیم کا نظام‘‘ فقط نصاب، اسکول کی عمارت، فرنیچر اور تنخواہ کے اسکیلوں کا نام نہیں ہے، بلکہ یہاں تعلیم کے لیے ایسے بہترین ’’اساتذہ‘‘ کی ضرورت ہے جن کی تربیت نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے طریقۂ زندگی پر ہوئی ہو۔ دراصل اپنی ذمہ داری کا احساس معاشرے کے ہر فرد پر عائد ہوتا ہے۔ ہر فرد اکائی ہے اور اینٹ اینٹ جڑ کر معاشرہ بنتا ہے۔ آج تعلیمی اداروں میں استاد کی سب سے زیادہ اہمیت ہے، جبکہ ہمارے ملک کی صورتِ حال اور امتِ مسلمہ کی تباہی کی بڑی وجہ تعلیم کا فقدان ہے۔ نئی نسل کے اندر تعلیمی صورت حال کا بڑی حساسیت سے جائزہ لینا چاہیے۔ کسی دانا نے کہا تھا کہ مجھے اچھی نسل درکار ہے تو اس کو جواب دینے والے ’’دانا بزرگ‘‘ نے کہا تھا کہ ’’تم مجھے اچھے استاد دو، میں اچھی نسل دو ں گا۔‘‘
لہٰذا اچھی نسل کے لیے اچھے استاد لازم و ملزوم ہیں۔ ہمارا ملک اس وقت بڑے بڑے بحرانوں سے گزر رہا ہے، ان میں سرِ فہرست تعلیم وتربیت کا بحران ہے۔ مگر کسی کو فرصت ہی میسر نہیں کہ اس پر بھی توجہ دے۔ اچھے تعلیمی معیار، اچھے اساتذہ پر توجہ اور تقرری ہی مسئلہ کا حل ہے۔
——