دستک کے جواب میں دروازہ کھولنے پر گھر میں ہماری ایک شناسا عورت داخل ہوئی گھر کے افراد نے اس کا خیر مقدم کیا اُسے ہم چچی کہتے تھے اُس کا برسوں سے ہمارے گھر آنا جانا رہا تھا۔ میں ڈرائنگ روم میں بیٹھا کچھ لکھنے کے عمل میں مصروف تھا مگر اس کی باتوں کی آواز کمرے تک آرہی تھی۔ میں نے سنا کہ چچی، امّی سے کہہ رہی تھیں۔ ’’سنا کچھ تونے۔۔۔ فاطمہ؟‘‘
میری امی نے جواب دیا ’’کس بارے میں؟‘‘
’’سرور بھائی کی بہو بہت بیمار ہے پتا چلا ہے اُسے ڈینگو بخار نے آلیا‘‘۔
اچھا۔ مجھے تو کسی نے بتایا نہیں
سرور میری امّی کے تایازاد تھے جو پاس ہی کے محلے میں رہتے تھے۔
’’تو پھر تم عیادت کو چل رہی ہو‘‘۔ چچی نے کہا
ہاں چلوں گی۔۔۔۔ ابھی گھر کا ڈھیروں کام پڑا ہے۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔۔ میں چل رہی ہوں تم بعد میں آجانا‘‘ یہ سنتے سنتے میرا کام بھی ختم ہوگیا میں نے امّی سے کہا ’’کیا آپ عیادت کو جارہی ہیں‘‘؟
’’نہیں۔۔۔ گھر کا کام نپٹا کے جائوں گی‘‘۔ امّی نے جواب دیا۔
میں کسی سے ملنے چلا گیا تقریباً دو گھنٹے بعد لوٹا تو امّی دوپہر کے کھانے کی تیاری کررہی تھیں۔
’’تو آپ عیادت کو نہیں گئیں‘‘ میں نے یاد دِلایا۔
’’نہیں۔۔۔ ابھی کھانا بنا لوں پھر چلتی ہوں‘‘ انہوں نے جواب دیا۔
اتنے میں ہمارے رشتے کی ایک خالہ گھر میں داخل ہوئی۔ آتے ہی انہوں نے کہا ’’فاطمہ۔۔۔۔ جلدی چلو جمال پورہ میں میری ننو کے لڑکے کا انتقال ہوگیا ہے۔ ایکسیڈنٹ میں۔۔۔۔ جواں موت ہے۔ منہ ہی دیکھ آئیں‘‘۔
میری امّی نے جلدی سے برقع پہنا اور جمال پورہ چلی گئیں جو کہ ہمارے گھر سے کافی دوری پر تھا تقریباً شہر کی آخری حدود پر۔