السلام علیکم: مطلب اور مقصد

عقیدت اللہ قاسمی

مسلمانوں میں سلام کرنے کا رواج، اسلام کی تعلیمات اور قرآن و حدیث کے حکم کے مطابق بھر پور انداز میں تو نہیں پایا جاتا تاہم کافی حد تک موجود ہے۔ البتہ عملاًیہ محض ایک رسم و رواج بن کر ہی رہ گیا ہے۔ اس کے مطلب، مفہوم، مقصد اور غرض و غایت پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ اس کا مقصد پورا ہوتا ہے اور نہ ہی معاشرہ میں اس کے مقاصد، غرض و غایت اور نتائج ہی برآمد ہوتے نظر آتے ہیں۔ پھر بھی جو کچھ رواج ہے اسے یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ غنیمت ہے اس کا کسی نہ کسی شکل میں کچھ نہ کچھ فائدہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ’’اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے‘‘ کے مطابق جب مقاصد اور غرض و غایت پیش نظر نہیں ہوتے تو ایسے امور میں وہ خود بخود حاصل بھی نہیں ہوتے۔

باہم ملاقات کے وقت سبھی لوگ اپنے اپنے مذہب، دھرم، تہذیب و ثقافت، روایات اور رسم و رواج کے مطابق کچھ الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ہند و بھائی آپس میں ملاقات کے وقت رام رام جے شری رام، نمستے یا نمسکار وغیرہ الفاظ کہتے ہیں۔ چونکہ وہ راجہ رام چندر جی کو بھگوان، ایشور کا اوتار مانتے ہیں یا رام کو خود ایشور کا ایک نام قرار دیتے ہیں اس لیے آپس میں ملاقات کے وقت خیر مقدم کے لئے سلسلۂ تخاطب شروع کرنے سے پہلے ’’رام رام‘‘ کہنے کا مقصد ا یشوریا بھگوان کا نام لینا اسے یاد کرنا اور اس کی ’’جے‘‘ کا نعرہ لگانا ہے۔ وہ اسے کار خیر اور ثواب و نیکی کا عمل سمجھتے ہیں اور اس صورت میں اسے ثواب کا کام قرار بھی دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس میں خود ملنے والوں کے لئے ایک دوسرے سے کہہ دینے یا خواہش و جذبات کا اظہار کردینے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

نمستے اور نمسکار میں ایک دوسرے کے لئے کمال ادب و احترام کا اظہار ہے۔ ان الفاظ کا مطلب ہے ’’میں آپ کے احترام میں سر جھکاتا ہوں، سر تسلیم و اطاعت خم کرتا ہوں‘‘ یہ کہنے کا مطلب صرف ایک دوسرے کے لئے احترام اور عزت کا اظہار نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ کا اس قدر احترام کرتا ہوں کہ آپ کے احترام میں اپنا سر بھی جھکاتا ہوں۔ ایسا کہنے والے زبان سے کہنے کے علاوہ خاص اشخاص کے سامنے عملاً سر جھکاتے بھی ہیں۔ ان کے پائوں بھی چھوتے ہیں اور پائوں پر سربھی رکھ دیتے ہیں۔ ہاتھ بھی جوڑتے ہیں۔

اسلام کی بھی یہ ایک اہم تعلیم ہے کہ سب لوگ ایک دوسرے کی عزت اور احترام کریں۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہماری جماعت میں شامل نہیں ہے‘‘ لیکن اسلام نے ادب، احترام اور عزت کیلئے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے درجہ بندی کی ہے۔ بڑے بھائی کے احترام کی بھی تعلیم دی ہے لیکن یہ احترام اس درجہ کا نہیں ہوتا جو احترام ماں کا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح چچا کا احترام وہ نہیں ہوتا جو والد کا ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر شخص کا احترام اس کے مقام و مرتبہ درجہ، معاشرتی و علمی و عملی وغیرہ سطحوں اور تعلقات کے مطابق ہوتا ہے۔ کسی کے آگے سر جھکانا، عزت و احترام کا آخری درجہ ہے۔ ظاہر ہے یہ کام صرف سب سے اعلیٰ مقام و مرتبہ والی ہستی کے لئے ہی ہونا چاہئے۔ یعنی سر صرف سب سے عظیم ہستی اور سب سے بلند مقام و مرتبہ والی ذات کے سامنے ہی جھکنا چاہئے۔

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اس قسم کا احترام صرف اللہ تعالی کا ہی ہو نا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے ہم پلہ کسی کا احترام حتی کہ اطاعت و فرماں برداری بھی شرک ہے۔ ارشاد باری ہے۔ ’’ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو میرے شریک کی حیثیت سے نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگزنہ مان۔ بس دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کر۔‘‘ (لقمن ۴ ۱۔۱۵)اور رسول اللہ علی علیہ وسلم نے فرمایا’’جن امورمیں خالق کی نا فرمانی ہوتی ہو ان میں کسی مخلوق کی اطاعت جائزنہیں۔‘‘

فارسی میں صبح نجیر، شب نجیر وغیرہ الفاظ کہے جاتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ایک شخص دوسرے کے لئے خیر و عافیت اور بھلائی کی خواہش کا اظہار کرتا ہے یا ایک دوسرے کیلئے خیر و بھلائی کی دعا مانگتا ہے۔ انگلش میں بھی گڈ مارننگ، گڈ نون، گڈ آفٹر نون، گڈ ایونینگ اور گڈ نائٹ وغیرہ الفاظ کہے جاتے ہیں۔ ان کا مقصد بھی ایک دوسرے کے لئے بھلائی کی دعایا خواہش کرنا ہی ہے لیکن ان دونوں زبانوں اور تہذیبوں میں خیر و بھلائی کی دعا اور خواہش محدود وقت کے لئے کی جاتی ہے۔ صبح خیریت سے گزرے، شام خیریت سے گزرے، رات، دوپہر، بعد دو پہر خیریت سے گزرے وغیرہ۔ ان سب کے برعکس السلام علیکم کے معنی اور عرض و غایت میں بہت وسعت پائی جاتی ہے۔

السلام علیکم کا مطلب ہے آپ کے اوپر اللہ کی طرف سے سلامتی اور رحمتوں کی بارش ہو، آپ ہمیشہ سلامت رہیں۔ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے ملتا ہے تو کہتا ہے السلام علیکم۔ دوسرا ارشاد ربانی ’’اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو تم اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اس طرح۔‘‘ (النساء ۸۶) پر عمل کرتے ہوئے کہتا ہے ’’و علیکم السلام‘‘اور آپ بھی ہمیشہ سلامت رہیں۔ اور آپ کے اوپر بھی اللہ کی طرف سے ہمیشہ سلامتی اور رحمتوںکی بارش ہوتی رہے۔ ان الفاظ میں ایک دوسرے کے لئے سلامتی خیر و عافیت اور بھلائی کی دعا، خواہش اور تمنا ہے جبکہ ان میں خیر و عافیت اور سلامتی کے لئے وقت کی کوئی حد یا قید یا پابندی نہیں۔

دونوں مسلمان ایک دوسرے کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں۔ کوئی چھوٹا ہویا بڑا۔ مردہو یا عورت بچہ ہو یا بوڑھا جب آپس میں ملتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کے لئے پیار و محبت اور جذبۂ خیر سگالی ظاہر کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے سلامتی اور خیریت و عافیت کی دعا کرتے ہیں۔ سلام آپس میں پیار و محبت پیدا کرنے،بڑھانے اور تعلقات کو خوشگوار اور مستحکم کرنے کا ذریعہ ہے۔ ایک دوسرے کے لئے سلامتی، امن و آشتی خیریت و عافیت اور تحفظ کی دعا ہے۔

السلام علیکم کہہ کر مسلمان ایک دوسرے کے لئے سلامتی، امن اور حفاظت کی ساری دعائیں سمیٹ لیتا ہے۔ اس کا وسیع مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اللہ آپ کے اوپر ہر طرح کی سلامتی اور امن کی ہمیشہ بارش فرماتا رہے۔ آپ کی جان و مال، عزت و آبرو کو سلامت رکھے، گھربار کو سلامت رکھے، دین و ایمان کوسلامت و محفوظ رکھے، بال بچوں، اہل خانہ، رشتہ داروں اعزاواقربا کو سلامت رکھے، دنیا میں سلامت رکھے اور آخرت میں بھی سلامت رکھے۔

سلام کرنے والا اپنے بھائی کے لئے اللہ سے دعا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے بھائی کو یہ یقین بھی دلاتا ہے کہ میرے دل اور دماغ میں آپ کے لئے صرف بھلائی ہی ہے۔ پیار و محبت اور خلوص ہے۔ سلامتی اور تحفظ کا جذبہ ہے۔ اس لئے تم میری طرف سے کبھی کسی قسم کا کوئی اندیشہ دل میں نہ رکھنا کہ میری طرف سے تمہیں کبھی کوئی تکلیف، دکھ، رنج، غم یا نقصان نہیں پہونچے گا، میں کبھی تمہاری بد خواہی نہیں کروں گا۔ میں ہمیشہ تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں۔ اس لئیاللہ سے بھی تمہاری بھلائی کے لئے دعا کرتا ہوں۔ یہ دعا صرف صبح کی، شام کی بھلائی کے لئے، صرف رات کی یا دن کی بھلائی کے لئے نہیں ہے بلکہ ہر وقت اور ہمیشہ کے لئے ہے۔

اگر کوئی شخص دوسرے کو سلام کرتا ہے۔ یعنی اللہ سے اس کے لئے دعا کرتا ہے اور خود اس کے دل میں سامنے والے کے لئے خیر و بھلائی کا جذبہ نہیں ہے کہ وہ اسے گالی دیتا ہے، اس کا برا چاہتا ہے، اسے نقصان، تکلیف پہونچاتا ہے، اس کی غیبت کرتا ہے یا اس پر بہتان و الزام لگاتا ہے۔ لڑتا جھگڑنا یا دوسروں کو لڑاتا، بھڑکاتا ہے، نفرت پھیلاتا ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ نہ تو سچے دل سے اللہ سے دعا کرتا ہے۔ نہ ہی خود یقین دلاتا ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے بھائی کے لئے کوئی اچھی دعا صرف اسی وقت کرسکتا ہے جب خود اس کا دل صاف ہو، اس کے دل میں اپنے بھائی کے لیے کدو رت، میل اور کینہ، بغض یا عناد نہ ہو۔

اگر آدمی کے ا پنے دل میں کدورت ہو اور ایسی حالت میں وہ السلام علیکم کہتا ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ جھوٹا، دروغ گو، کذاب، دھوکہ باز اور فریبی ہے سلام کرتے ہوئے جھوٹ بول رہا ہے۔ سامنے والے کودھوکہ اورمغالطہ میں مبتلا کر رہا ہے۔ ایسا شخص دشمن سے زیادہ خطرناک ہے۔ اعلان باری ہے ’’منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں جائیں گے اور تم ان کا کوئی مددگار نہ پائوگے۔‘‘ (النساء ۱۴)

سلام کا مطلب تو یہ ہے کہ سلام کرنے والا اپنی طرف سے پورا یقین دلاتا ہے گارنٹی دیتا ہے کہ میرا دل بالکل صاف ہے میری طرف سے تم کوئی اندیشہ نہ کرنا۔ اگر میرے دل میں کوئی کھوٹ ہوتا تو اللہ سے دعا کس طرح کرپاتا۔ سچ ہے اگر کوئی اللہ سے دعا کرے اور دل میں بدخواہی کا خیال رکھے تو اللہ تعالیٰ نہ صرف اس کی دعا قبول نہ کرے گا کہ دعا دل سے نہیں ہے، الٹا خفا ہوگا۔ سلام کرتے وقت الفاظ کے ساتھ ساتھ آواز میں بھی دعا، خیر خواہی، پیار و محبت اور احترام و عزت والے جذبات ہونے چاہئیں۔ نرمی، عاجزی و انکساری، خشوع و خضوع اور ادب و احترام ہونا چاہئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب بھی ملے اسے سلام کرے۔ آپس میں زیادہ سے زیادہ سلام کریں۔ زیادہ سے زیادہ سلام کی عادت ڈالیں۔ سلام کرنے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔ میل جول، پیار و محبت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ جب مسلمان ایک دوسرے کو دل کی گہرائی کے ساتھ دکھ تکلیف اور نقصان نہ پہونچانے کا یقین دلاتے ہیں۔ دل میں خیر خواہی، ہمدردی، محبت، ایثار و قربانی اور ادب و احترام کے جذبات رکھتے ہیں اور اللہ سے بھی دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ دکھ، درد، تکلیف اور نقصان سے ان کی حفاظت کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں بھی مسلمانوں میں دوسری قوموں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ میل و محبت اور اتفاق و اتحاد پایا جاتا ہے۔ وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو خواہ وہ کہیں بھی اور کسی بھی ملک میں ہوں، اپنا بھائی تصور کرتے ہیں، ان کے دکھ درد، تکلیف اور نقصان پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر السلام علیکم کے دو الفاظ پر مشتمل اس مختصر سے فقرہ کے مقصد اور غرض وغایت کو ذہن میں رکھتے ہوئے سچے دل سے سلام کرنے کا احساس اور جذبہ پیدا ہوجائے تو اس کے نتائج بھی اسی طرح بڑھ چڑھ کر برآمد ہوسکتے ہیں۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146