سلام باکی واپسی

انور کمال

بادلوں کے نیچے پرندے دائرے کی شکل میں اڑ رہے تھے۔ لگتا تھا شاید خدا سے رحمت کی بھیک مانگ رہے ہوں۔
ویکلی مارکیٹ روڈ کی پولیس چوکی اور پوسٹ آفس کے درمیان سلام با چپ چاپ، مجسمہ کی طرح کھڑے ہوئے تھے۔ میٹرک پاس سلام با کا مکان پٹیل اسٹریٹ کے نکڑ پر واقع تھا، ان کی ماں نے بیٹی کی شادی کے لئے ایک صاحبِ حیثیت سے کچھ روپئے قرض لئے تھے اس کے عوض اس شخص نے ان کا مکان ہتھیا لیا تھا۔ صدمہ سے ماں پاگل ہوگئی، بیٹی کی شادی ٹوٹی، شادی کا جوڑا پہن کر دولہے کا انتظار کرتے کرتے وہ اللہ کو پیاری ہوگئی، اور سلام با سڑک پر آگئے۔ دبلے پتلے سے درمیانی قد کے شخص، سر پر سیاہ رنگ کی ٹوپی، آنکھوں پر موٹے فریم کا چشمہ جو ناک کی نوک پہ ٹکا رہتا تھا، سلاک شرٹ اور پینٹ میں ملبوس، پیروں میں پلاسٹک کی چپل، بائیں ہاتھ میں ٹن کا ایک بکسہ، اور دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی آسمان کی جانب اٹھی ہوئی رہتی تھی۔
ان کا معمول تھا کہ وہ کلب روڈ سے ہوکر ویکلی مارکیٹ روڈ پہنچتے اور پوسٹ آفس کے دالان پر بیٹھ کر ناخواندہ لوگوں کی چٹھیاں اور خطوط لکھا کرتے اور ان کے فارم وغیرہ بھرتی کرواتے تھے اور خالی وقت میں بیٹھے بیٹھے اپنے آپ سے گفتگو کرتے ہوئے مسکرانے لگتے تھے۔ دھیرے دھیرے ان پر چھوٹے چھوٹے دورے پڑنے لگے تھے۔ کبھی کبھی اٹھ کر سلنگ روڈ، کلب روڈ یا جناح روڈ پہ ٹہلنے لگتے تھے، اور کبھی بلند آواز سے گفتگو شروع کردیتے تھے، کبھی لوگوں پہ کچھ سوالات داغ دیتے تھے، ان کے سوالات عجیب و غریب ہوا کرتے تھے۔
چھپکلی کا انڈا بڑا ہے یا مگرمچھ کا؟
بھینس کی عقل بڑی ہے یا مرغ کی؟
لوگ حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگتے تھے۔ بعض مسکرا دیتے، بعض نظر انداز کردیتے، بعض تبصرہ کرنے لگ جاتے تھے لیکن کوئی بھی ان کے سوالات کا جواب نہیں دیتا تھا، پھر وہ خود اعلان کردیتے تھے کہ وہ خود ان کا جواب دوسرے دن دیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوتا تھا۔
سلام با دو چاردن چپ رہتے، پھر کوئی نہ کوئی عجیب و غریب سوال لے کر حاضر ہوجاتے اور بلند آواز سے سڑکوں پر اس کو دہراتے پھرتے تھے۔ لوگوں کا رویہ جوں کا توں رہتا، بلکہ اب تو وہ شرارت بھری نگاہوں سے ان کی طرف دیکھنے لگے تھے۔
یوں سلام با لوگوں کی زندگی کا ایک حصّہ بنتے چلے گئے تھے۔ لوگ انتظار میں رہتے تھے کہ کب سلام با آئیں گے اور کب انہیں للکاریں گے۔
ایک مرتبہ انہونی ہوگئی!
پرامن شہر میں اچانک فساد پھوٹ پڑا۔ جو ناہونا تھا وہ ہوگیا۔ اکثر لوگ یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ یہ کیسے ہوا اور کیوں ہوا۔ شہر میں آگ بھڑکی، خون خرابہ ہوا، شیطان کا ننگا ناچ ہوا، کیا بچے، کیا بوڑھے، اور عورتیں، تمام لپیٹ میں آگئے۔ جانی و مالی نقصان ہوا، انسانیت سسکی، زندگی نے چوٹ کھائی، خوف و حراس پھیل گیا۔ اعتبار اٹھ گیا۔ کون بھائی، کون دشمن امتیاز مشکل ہوگیا۔ ہوش مند، ہوش کھو بیٹھے، عزت و آبرو کا لبادہ تار تار ہوا۔ ایک محشر برپا ہوا، کون منصف، کون لٹیرا پتہ لگانا مشکل ہوگیا۔ کوئی پرسانِ حال نہ رہا، بے بس لوگ دعائیں مانگنے لگے تھے۔
کسی نے جیزسس کرائسٹ کے مجسّمے کے سامنے گھٹنے ٹیک کر کہا: ’’اوہ، گاڈ! تو ہر ایک کو اپنے بیٹے کا فرماں بردار بنا دے اور دشمنوں کو ختم کردے‘‘۔
کسی نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا: ’’اے اللہ! ہماری حفاظت فرما، اور ہمارا بول بالا فرما۔ ہم کو کافروں پر غالب کردے‘‘۔
ایک نے بھگوان کی مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑکر کہا ’اے بھگوان! ہمیں شکتی دے اور ہماری قوم کو کامیاب کردے‘‘۔
نیتا نے دل ہی دل میں کہا: ’’اوہ، اوپر والے! فسادات کی ذمہ دار موجودہ حکومت کو ہرادے اور اب کی بار الیکشن میں میری پارٹی کو کامیاب کردے‘‘۔
ایک شکستہ مکان کے تاریک گوشے سے کمزور سی آواز ابھری: ’’اے خدا! میرے پاپا لاپتہ ہیں۔
کل رات خاکی وردی والے میری ممی کو کھینچ کر اپنے ساتھ لے گئے ہیں
دو دن سے کرفیو ہے اور میں بھوکی ہوں
اے خدا روٹی دے
اے خدا امن دے!‘‘۔
پالارندی کسی زمانے میں زندہ ندی تھی، اب وہ ایک وسیع میدان میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ندی کے اُس پار ایک فرقہ اور اِس پار دوسرا فرقہ بستا تھا۔ کبھی یہاں کسی تہوار کا جشن منایا جاتا تھا تو کبھی محرم میں الائو روشن ہوجاتے تھے، کبھی میلہ لگتا تھا تو کبھی بارش کے لئے دعا مانگی جاتی تھی، سیاسی جلسے بھی ہوتے تھے اور یہاں دونوں فرقوں کے لوگوں کو مل بیٹھنے کا اچھا سا موقع بھی ملتا تھا۔
پرامن شہر میں فساد سے دونوں گروہ پریشان تھے۔ کرفیو لگا ہوا تھا اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ ایسے میں رات کے اندھیرے میں ایک مجذوب سا شخص اِدھر کے چند لوگوں سے ملا پھر اُدھر کے چند لوگوں سے ملاقات کی، بات بن گئی، دوسرے دن کرفیو ہٹا لیا گیا اور ندی کنارے امن و سلامتی کے لئے ایک اجلاس منعقد ہوا، دونوں طرف کے لوگ آکر بیٹھ گئے۔ گلے شکوے دور کرنے کی کوشش کی گئی۔
اچانک وہاں ایک آواز ابھری!
چھپکلی کا انڈا بڑا ہے یا مگرمچھ کا؟
بھینس کی عقل بڑی ہے یا مرغ کی؟
سلام با کی آواز کافی بلند تھی، سب کو صاف صاف سنائی دے رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے لوگوں کی طرف دیکھا اور مسکرا دیئے، ان کی اپنی عجیب طرز کی مسکراہٹ، اس مسکراہٹ کو کیا نام دیا جائے۔ کیا یہ لوگوں کی عقلوں پر چوٹ تھی، یا ناسمجھی کا ماتم، یا کوئی راز تھا جس پر پردہ پڑا تھا؟
وہاں کچھ ہلچل ہوئی، کچھ آوازیں آئیں، پھر خاموشی چھا گئی اور لوگ دم سادھے، ان کی طرف دیکھنے لگے۔
سلام با کی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔
’’ہم اس دنیا میں کیا لے کر آئے ہیں؟‘‘ ان کی تیز آواز نے سکوت توڑا۔
کچھ لمحے وہ خاموش رہے انہوں نے کہا-
’’صرف وقت!‘‘
پھر ٹھہر ٹھہرکر ایک ایک جملہ ادا کرنے لگے۔
’’ہاں! صرف وقت! اس وقت کا حساب دینا پڑے گا۔
چھپکلی اور مگرمچھ میں کیا مقابلہ! بھینس اور مرغ میں کیا موازنہ!، کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، بنانے والے کی نگاہ میں سب برابر۔ خاک کی مختلف شکلیں خاک ہیں۔ پھر جھگڑا کاہے کا؟‘‘۔
انہوں نے لوگوں کی طرف دیکھا، لوگ حیرت و استعجاب سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔
بادلوں کے نیچے پرندے دائرے کی شکل میں اڑ رہے تھے۔ لگتا تھا شاید خدا سے رحمت کی بھیک مانگ رہے ہوں۔
اور ایک پرندہ اپنی چونچ میں ٹہنی دبائے، آشیاں تعمیر کرنے کے لئے پرواز کررہا تھا۔
اچانک!
سلام با نے ایک قہقہہ لگایا۔ پھر چپ سادھ لی۔
تیس برس بیت گئے، اس شہر میں فساد کا نام و نشان نہ رہا۔
اب سلام با نہ رہے
اور اب کی بار انتخابات کے لیے ندی کے دونوں کنارے بٹ گئے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے اپنی اپنی قوم کی برتری کا سہارا لیا جانے لگا۔
کیا پھر ایک بار؟
سلام با کی واپسی ہوگی؟!
——

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146