دونوں اپنی اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے بعد گھر جانے کے لیے نکلے۔ رمیش موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور اس کی بیوی رنجنا پیچھے بیٹھی تھی۔
رمیش پرائیویٹ کمپنی میں ملازم تھا اور رنجنا مہانگر پالیکا کے اسکول میں ٹیچر۔
آسمان پوری طرح صاف و شفاف نہیں تھا، بادلوں کے چند آوارہ ٹکڑے روئی کے گالوں کی طرح آسمان میں ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ سورج ڈیوتی پوری کرنے کے بعد اپنا چہرہ تانبے کی تھالی کی طرح بنائے مغرب کی سمت غروب ہونے جا رہا تھا۔ شام کا دھندلکا پھیلنے کو تھا اور جب وہ دونوں بلڈنگ کے کمپاؤنڈ میں پہنچے تب تک شام ہوچکی تھی۔ رمیش نے موٹر سائیکل کمپاؤنڈ کے کونے میں کھڑی کی اور پھر دونوں میاں بیوی بلڈنگ کے دوسرے منزلہ پر اپنے فلیٹ کے دروازے پر پہنچے۔ فلیٹ کے دروازے پر لگا قفل رمیش نے کھولا پہلے وہی اندر داخل ہوا اور اس کے پیچھے رنجنا۔ رمیش نے اندر داخل ہوتے ہی ڈرائنگ روم کا بلب آن کیا اور دیوار میں لگی کھونٹی میں اپنا بیگ لٹکایا۔ رنجنا اپنا ہینڈ بیگ لیے سیدھی بیڈ روم میں چلی گئی۔
’’بہت بھوک لگی ہے!‘‘ رمیش بیڈ روم میں داخل ہوکر رنجنا سے بولا۔
’’مجھے بھی…، آپ کھانا سپلائی کرنے والے سروس سینٹر کو جلدی فون کردیجیے تاکہ وہ فورا کھانا لے آئے۔‘‘ رنجنا قد آدم آئینے کے سامنے اپنی بکھری زلفوں کو ہاتھوں سے سنوار کر بولی۔
’’کرتا ہوں، تھوڑا فریش تو ہونے دو!‘‘ رمیش تولیہ کندھے پر رکھ کر بولا۔
’’پہلے فون کردیجیے۔ فریش ہونے تک وہ کھانا لے آئے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ رمیش نے پتلون کی جیب میں رکھا ہوا اسمارٹ فون نکالا، اسکرین پر انگلی گھما کر فون آن کیا اور کھانا سپلائی کرنے والے اسی سروس سینٹر کے مینیجر سے رابطہ کیا جہاں سے وہ ہمیشہ کھانا منگوایا کرتا تھا۔
کھانے کا آرڈر دینے کے بعد وہ باتھ روم چلا گیا۔ رنجنا اس کے انتظار میں پلنگ پر بیٹھ کر اخبار میں خبروں کی سرخیاں دیکھنے لگی۔ رمیش جلد ہی غسل کر کے آگیا۔ اس کے بعد رنجنا نہانے کے لیے چلی گئی۔
شاور کی پھوار کا لطف لیتے ہوئے وہ دیر تک نہاتی رہی… جب وہ اپنی گیلی زلفوں کو تولیہ میں لپیٹ کر سر پر پگڑی کی طرح باندھے غسل خانے سے نکلی تو رمیش کو ڈرائنگ روم سے نکل کر ہال نما کمرے میں کمر پر ہاتھ باندھے ٹہلتے ہوئے دیکھا، اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا اور تیوری پر بل تھے۔
’’آگیا کھانا!‘‘ اس نے رمیش سے پوچھا۔
… رمیش نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ ناک پھلائے ہونٹ بھینچے غصے میں کمر پر ہاتھ باندھے ٹہل رہا تھا۔
’’کیا ہوگیا آپ کو! ابھی تو فریش فریش باتھ روم سے نکلے تھے کیوں موڈ خراب ہوگیا۔ کھانا نہیں آیا اس لیے؟‘‘ رنجنا قریب جاکر پوچھنے لگی۔
’’نہیں بات ایسی نہیںہے۔ کھانا سپلائی کرنے والے نے کھانا بھجوایا تھا، مگر میں نے کھانا واپس کردیا!‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کھانا لانے والا لڑکا نیا تھا۔ میں نے اس کا نام پوچھا، وہ مسلمان نکلا۔‘‘
’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے!‘‘ رنجنا کی بھوئیں سکڑ گئیں۔‘‘
’’تمہیں نہیں فرق پڑتا لیکن مجھے پڑتا ہے فرق۔ میں نے کھانا سپلائی کرنے والے کو فون کر دیا کہ آئندہ کسی مسلمان کے ہاتھوں کھانا مت بھجوانا۔ وہ مجھے گیان دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا ’’کھانے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا صاحب!‘‘
’’ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا وہ۔ آپ کے اندر مسلمانوں کے لیے اتنی گھڑنا کیوں آگئی؟ کسی مسلمان نے آپ کا کچھ بگاڑا ہے کیا؟‘‘ رنجنا نے پوچھا۔
’’میرا تو کچھ نہیں بگاڑا مگر میرا دماغ خراب ہوچکا ہے۔ ٹی وی پر ہونے والی ہندو مسلمان کی ڈبیٹ سنو، سوشل میڈیا پر دیکھو، ہندو مسلمان، ہندو مسلمان، اس کا لہجہ نہایت تلخ تھا۔ چند لمحے رک کر اس نے رنجنا سے پوچھا، کیا تمہیں اس سندربھ میں ایک بڑے نیتا کی بات یاد ہے!‘‘
’’نیتاؤں کی باتیں بھی کہیں یاد رکھنے کے لیے ہوتی ہیں!‘‘ رنجنا اپنے سر پر پگڑی کی طرح لپٹا ہوا تولیہ کھول کر مسکرانے لگی۔
رنجنا کی مسکراہٹ نے رمیش کے طیش کو تھوڑا بھی کم نہیں کیا۔ وہ غصیلے لہجے میں بولا ’’ہر مسلمان آتنک وادی نہیں ہوتا لیکن ہر آتنک وادی مسلمان ہوتا ہے، اس کا مطلب کیا ہے سوچو!‘‘
یہ سب سوچنے کی فرصت اس کے پاس ہوتی ہے جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ شاید آپ کو بھوک نہیں ہے۔ مجھے تو بہت بھوک لگی ہے، کچن میں توس، بسکٹ رکھے ہیں میں چائے بنا لاتی ہوں۔‘‘
رنجنا مسکراتے ہوئے کچن میں چلی گئی۔ رمیش ڈرائنگ روم میں صوفے پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا… رنجنا فورا ٹرے میں چائے، توس اور بسکٹ لے آئی دونوں نے چائے بھری پیالیوں میں توس، بسکٹ ڈبو کر کھالیے۔ مگر اس سے اُن کی بھوک ختم نہیں ہوئی ہاں پیٹ میں دوڑتے چوہوں کی قلابازیاں کچھ حد تک کم ہوگئی تھیں۔
رنجنا نے رمیش کے چہرے کا جائزہ لیا، اس کے چہرے پر اب غصے کا تناؤ نہیں تھا۔ رمیش کو نارمل حالت میں دیکھ کر وہ کہنے لگی۔ ایک بات کہوں؟‘‘
’’کہو۔‘‘
’’آج مجھے آپ کے اندر چھپے ہوئے انسان کو دیکھ کر دکھ ہوا۔ آپ نے نیتا کی بات یاد رکھی اور میں نے اپنے ایک ٹیچر کی بات گرہ میں باندھ لی۔ انھوں نے کہا تھا، کسی انسان کے لیے دل میں نفرت مت رکھو، ہر انسان اچھا ہوتا ہے ہاں اس کے اندر کی برائی اچھی نہیں ہوتی اس لیے انسان کے اندر کی برائی سے نفرت کرو۔انسان سے نفرت کرنے پر زندگی کی خوشی، سکھ اور چین برباد ہو جاتا ہے۔ آپ اپنی سوچ بدل لیجیے، ہم سماج کو تو نہیں بدل سکتے لیکن اپنی سوچ تو بدل سکتے ہیں!‘‘
اس نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور جواب میں کچھ کہنا ہی چاہ رہا تھا کہ کال بیل بجی۔
’’کون ہے؟‘‘ رنجنا اٹھی اور دروازہ کھولا۔ سریتا کھڑی تھی۔
سریتا، سدھیر دیشمکھ کی بیوی تھی۔ سدھیر دیشمکھ پرائیویٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ اس بلڈنگ میں گراؤنڈ فلور پر ان کا فلیٹ تھا۔
’’ارے سریتا آنٹی آپ؟‘‘
سریتا آنٹی جواب میں مسکرائیں اور ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں۔ ان کے ہاتھ میں ٹیفن تھا۔
’’آپ لوگوں نے کھانا نہیں کھایا اس لیے ٹیفن لے آئی۔‘‘
’’آپ کو پتہ کیسے چلا؟‘‘ دونوں حیرت زدہ سریتا کو دیکھنے لگے۔
’’یہ میں بعد میں بتاؤں گی پہلے کھانا کھالو، میں نے ابھی بنایا ہے۔ گرما گرم ہے، جلدی کھالو۔‘‘
’’نہیں پہلے آپ بتائیے نا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ ہم بھوکے ہیں!‘‘
’’بتادوں گی، تھوڑا سسپنس تو رہنے دو، لو ٹیفن!‘‘ سریتا نے رنجنا کی طرف ٹیفن بڑھا دیا۔ ’’تم دونوں اطمینان سے کھانا کھالو، پھر میں تمہیں حقیقت بتادوں گی۔‘‘ سریتا مسکراتے ہوئے بولی۔
’’ٹھیک ہے آنٹی!‘‘ رنجنا نے ٹیفن لیا اور سریتا سے بولی۔ ’’آپ بھی ہمارا ساتھ دیجیے نا۔‘‘
’’نہیں میں کھانا کھا چکی، آپ دونوں کھائیے۔‘‘
رمیش اور رنجنا کو بھوک کافی لگی تھی دونوں نے سارا ٹیفن صاف کر دیا۔ پھر ہاتھ دھوکر منہ پونچتے ہوئے دونوں ڈرائنگ روم میں آئے جہاں صوفہ پر سریتا بیٹھی تھی۔
’’اچھا آنٹی اب بتائیے حقیقت!‘‘
’’سچ بات بتادوں!‘‘
’’ہاں!‘‘ دونوں ایک آواز میں بولے۔
سریتا نے کنکھارا اور حقیقت بیان کرنے لگی۔ ’’میں کمرے میں بیٹھی اخبار پڑھ رہی تھی کہ کال بیل بجی میں نے جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے پروفیسر ساجد علی صاحب کھڑے تھے۔ ساجد علی میرے پتی کے دوست ہیں۔ آپ لوگ انہیں جانتے ہی ہوں گے۔‘‘
’’ہاں، وہ آپ کے فلیٹ کے بازو میں رہتے ہیں!‘‘ رنجنا نے کہا۔
’’ہاں، وہی انھوںنے مجھے بتایا کہ آپ لوگ بھوکے ہیں۔‘‘
’’انہیں کیسے پتہ چلا؟‘‘ رنجنا نے پوچھا۔
’’وہ نماز پڑھ کر آئے تھے اور اپنے فلیٹ کے سامنے کھڑے تھے۔ تبھی کھانا سپلائی کرنے والے سروس سینٹر کا لڑکا ٹیفن لیے سیڑھیاں چڑھا اور فورا ہی ٹیفن لیے پلٹ آیا۔ انھوں نے اس سے پوچھا ’’کیوں رمیش جی نہیں ہیں کیا؟‘‘ لڑکے نے انہیں بتایا کہ آپ نے اس کے ہاتھوں کھانا لینے سے اس لیے انکار کر دیا کہ وہ مسلمان تھا۔ یہ سن کر پروفیسر صاحب میرے گھر آئے اور مجھ سے کہا ’’سریتا دیدی! آج رات رمیش صاحب اور ان کی پتنی بھوکے ہی سوجائیں گے اگر آپ میری مدد نہ کریں گی تو!‘‘
’’کیوں، ہوا کیا؟‘‘ میں نے کارن پوچھا تب انھوں نے مجھ تفصیل بتائی، مجھے سن کر دکھ ہوا۔ لیکن انہیں اس بات کا دکھ تھا کہ آپ بھوکے نہ سوجائیں، جانتے ہو انھوں نے کیا کہا؟‘‘
’’کیا کہا… رنجنا نے بے تابی سے پوچھا۔
’’وہ بولے، سریتا دیدی ہمارے دھرم میں ہے کہ کسی مسلمان کا پڑوسی بھوکا سوجائے تو یہ بڑا پاپ ہے اور میں اس پاپ کا بوجھ لے کر نہیں سو سکتا۔ اس لیے میری آپ سے نمروِنتی ہے کہ آپ اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا کر انہیں دے آئیں۔ میرے گھر کا کھانا انہیں نہیں چلے گا اس لیے میں آپ کے پاس چلا آیا میری مدد کیجیے، میں آٹا، تیل، سبزی وغیرہ لاکر دے دیتا ہوں۔‘‘
’’نہیں بھیا اس کی کوئی ضرورت نہیں، میں انہیں کھانا بنا کر دے دوں گی، آپ چنتا مت کیجیے اور اُن کے اندر بھری ہوئی نفرت بھی ختم کردوں گی۔‘‘
’’نہیں بہن جی! انہیں شرمندہ مت کرنا، بس کھانا دے آنا، میرا تذکرہ بالکل مت کرنا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ گئے اور فورا کھانے کا سارا سامان مجھے لاکر دے دیا، میں نہیں نہیں کرتی ہی رہ گئی۔
سریتا اپنی بات ختم کر کے رمیش اور رنجنا کی طرف دیکھنے لگی۔ رنجنا رمیش سے مخاطب تھی۔ ’’کیوں جی! میں نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ اپنی سوچ بدل ڈالیے۔ اب کیا خیال ہے؟‘‘
رمیش کا سر شرمندگی سے جھکا ہوا تھا۔ وہ بظاہر اپنے دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں میں دبا کر سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا لیکن ندامت اور شرمندگی کے احساس نے اس کے اندر عجیب سی بے قراری بھردی تھی۔ اپنی اسی کیفیت سے دوچار وہ سر اٹھا کر بولا ’’مجھے ساجد علی سر سے ملنا ہے ابھی اسی وقت۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور ڈرائنگ روم سے باہر نکل آیا۔ سریتا اور رنجنا بھی اس کے پیچھے چل پڑے۔
رمیش نے پروفیسر ساجد علی کے فلیٹ کے دروازے کی چوکھٹ پر لگا کال بیل کا بٹن دبایا۔ تھوڑی ہی دیر میں دروازہ کھلا۔ پروفیسر ساجد علی دہلیز میں کھڑے تھے۔ رمیش کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے مخاطب ہوئے۔ آئیے رمیش جی، اندر تشریف لائیے!‘‘
’’سر!‘‘ رمیش چوکھٹ پر ہی کھڑا رہا۔ ’’آپ مہان انسان ہیں، آج آپ نے مجھے اس نفرت کی آگ سے نکال لیا، جس میں میں جل رہا تھا۔‘‘ رمیش کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔
’’نہیں بھئی! میںنے ایسا کیا کیا؟‘‘
’’سر مجھے سریتا آنٹی نے سب کچھ بتا دیا۔‘‘
سریتا اور رنجنا پیچھے کھڑے مسکرا رہے تھے۔ پروفیسر ساجد علی سریتا سے کہنے لگے ’’سریتا دیدی! میں نے آپ کو منع کیا تھانا!‘‘
سریتا بولی ’’اچھے کام کی چرچا ہونی چاہیے۔ تب ہی تو برائی ختم ہوگی نا!‘‘
’’…‘‘ جواب میں پروفیسر ساجد علی کچھ نہ بولے۔ رمیش سے مخاطب ہوئے۔ ’’آج پہلی بار آپ دونوں میاں بیوی میرے غریب خانے پر تشریف لائے ہیں، اندر آئیے نا۔ آئیے۔‘‘
’’میں بھی آؤں!‘‘ سریتا چہکی۔‘‘
’’کیوں نہیں!‘‘
تینوں پروفیسر ساجد علی کے فلیٹ میں داخل ہوگئے۔lll