بیلنس شیٹ

سید الطاف علی بریلوی

۱۹۴۶ء کا واقعہ ہے، سوائی مادھوپورکے ایک بزرگ نے ایک نوجوان کو میرے پاس علی گڑھ بھیجااور لکھاکہ ’’یہ بہت ہونہارطالب علم ہے، اس نے بی اے پاس کرلیاہے، ایم اے اور ایل ایل بی کی تعلیم کے لیے میری تحریک پر مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتا ہے،مالی حالت سقیم ہے، آپ اس کی مدد کریں۔‘‘ میں نے اس نوجوان کو اپنے مکان پر چند روز مہمان رکھا، فیس داخلہ اور کتابوں کا انتظام کیا، ڈیوٹی سوسائٹی سے وظیفہ دلایااور ماہوار فیس بھی معاف کرادی۔ کچھ عرصہ بعد اس نے مجھ سے کہاکہ بالائی اخراجات کی بھی کچھ سبیل کرادیجیے کیونکہ گھر سے ایک پیسہ نہیں منگاسکتا۔ اس پر میں نے کہاکہ میرے بڑے لڑکے (شاہد) کو جو میٹرک کا امتحان دینے والا ہے پڑھادیاکیجیے، میں آپ کو پچیس روپے ماہوار دیا کروںگا۔
کچھ عرصہ اور گزرنے پر مذکورہ ونوجوان نے مجھ سے کہاکہ ’’آپ مجھے کسی جگہ رہائشی استاد مقرر کرادیجیے تاکہ رہنے اور کھانے کا معقول انتظام ہوجائے۔‘‘
میرے ایک بہت خوشحال وکیل دوست کو حسنِ اتفاق سے اپنے بچے کے لیے ایک ایسے ہی استاد کی ضرورت تھی۔ چنانچہ میں نے سفارش کردی اوربہ فراغت تمام ایک اعلیٰ درجے کی کوٹھی میں رہنے لگا۔
چھ ماہ گزر گئے اور سالانہ امتحانات کا زمانہ قریب آیا تو اس طالب علم نے مجھ سے فرمائش کی کہ ’’آپ کی بڑی مہربانی ہوگی اپنے صاحبزادے کی ٹیوشن کی تین ماہ کی تنخواہ مجھے پیشگی دے دیجیے تاکہ میں ایم اے اور لاء کے امتحان کی فیسیں جمع کرادوں۔‘‘
میں نے جواب دیا’’میں آپ کی ضرور مدد کروںگا، لیکن ایسا نہ کیجیے گاکہ آپ میرے لڑکے پر سے اپنی توجہ ہٹالیں، کیونکہ آپ کے امتحان کی طرح اُس کا امتحان بھی قریب ہے۔‘‘
اس پر وہ بولا: ’’سید صاحب! کیا آپ مجھے ایسا احسان فراموش خیال کرتے ہیں! میں شریف آدمی ہوں، آپ کوکبھی دھوکانہیں دے سکتا۔‘‘
مجھے اطمینان ہوگیا اور میں نے پورے خلوص کے ساتھ اس کو تین ماہ کی تنخواہیں پیشگی دے دیں، جن کو وصول کرنے کے دوسرے ہی دن سے اس نے میرے بچے کو پڑھانے آنا ترک کردیا۔ چند روز انتظار کیا، آدمی بھیجے، پرچے لکھے، مگر سب بے سود۔ بہ اطمینان ایک ماہ بعد اپنا ایم اے کا امتحان دیا۔ لاء کے امتحان میں ڈیڑھ ماہ کا وقفہ تھا لہٰذا گھرپر زیادہ سکون سے پڑھنے کے لیے جے پور چلاگیا۔
اس دوران میرے بچے نے ٹیوٹر کی نگرانی کے بغیر میٹرک کا امتحان دیا۔ امتحان سے فارغ ہوکر وہ تبدیلی آب و ہوا کے لے نینی تال چلاگیا اور وہاں ایک روز کا لرا میں مبتلا ہوکر اچانک انتقال ہوگیا ؎
برفت آں گلبن خرم بہ بادے
دریغے ماند و فریادے و دادے
اس جانکاہ حادثے کے بعد وہ جے پوری نوجوان پولیس کا امتحان دینے واپس علیگڑھ آیا، میرے متذکرہ بالا وکیل دوست سے جن کی کوٹھی میں وہ مقیم تھا، اسے اپنے سابق شاگرد کے مرنے کی اطلاع ملی، مگر وہ میرے پاس تعزیت تک کو نہ آیا، بلکہ ایک سال مزید علی گڑھ میں رہا، لیکن مجھے صورت دکھانے کی بھی اسے توفیق نہ ہوئی۔ اگر سوئے اتفاق سے میں اس کو کہیں نظر بھی آجاتا تو وہ فوراً راستہ کاٹ کر کسی دوسری جانب چلاجاتا!
…٭…
ایک مشہور مسلم نواز شخصیتپنڈت سندر لال نے الٰہ آباد سے ایک نوجوان کو میرے پاس علی گڑھ بھیجا اور خط میں تحریر فرمایا:
’’یہ بڑا ہونہار اور لکھنے پڑھنے کا شوقین ہے، اسے اپنی ’’مجلس مصنفین‘‘ میں کوئی جگہ دے دیجیے۔‘‘
مجلس کے پاس کوئی فنڈ نہ تھا، تاہم میں نے توکل بخدا اُسے رہنے کو ایک کمرہ دے دیا ۔ اپنے گھر سے کھانے کا انتظام کردیا اور رسالہ ’’مصنف‘‘ کی قلیل آمدنی سے کچھ ماہوار الائونس بطور جیب خرچ مقرر کردیا۔ کئی مہینے یہ نوجوان نہایت ادب وآداب سے رہتا رہا اور جو تحریری کام میں سپرد کرتاتھا اس کو مستعدی کے ساتھ انجام دیتاتھا۔ ایک روز اس نے مجھ سے کہاکہ میری بڑی بہن کان پور سے پاکستان جارہی ہیں، مجھے اجازت دے دیجیے کہ میں ان کو رخصت کرآئوں، ایک ہفتہ میں واپس آجائوںگا۔ ساتھ ہی فرمائش کی کہ اگلے مہینے کا الائونس بطور پیشگی دے دیجیے تاکہ آنے جانے کا خرچ برداشت کرسکوں۔میں نے اس فرمائش کی بھی تعمیل کردی۔ شام کو وہ دوبارہ مجھ سے ملا اور پچپن روپے کاایک کراس چیک دے کر کہاکہ ’’ایک صاحب نے ازراہِ ہمدردی یہ چیک دیاہے لیکن چونکہ میرا بینک میںاکائونٹ نہیں ہے اس لیے مہربانی کرکے اسے اپنے حساب میں جمع کرادیجیے اور اس کے روپے مجھے دے دیجیے، میری بہن بہت بیمار اور غریب ہیں، میں یہ رقم اُن کو دینا چاہتاہوں۔‘‘
میں نے تھوڑی دیر پس وپیش کیا لیکن بالآخر روپے دے دیئے۔ چند روز بعد چیک مذکور بینک سے واپس آگیا کہ جس شخص نے چیک لکھاہے اس کے اکائونٹ میں کچھ نہیں ہے۔
بارہ سال بیت گئے مذکورہ ہونہار ادیب نے پھر کبھی صورت نہ دکھائی، البتہ ابھی حال میںایک سفارش کے سلسلے میں ایک بڑی تجارتی کمپنی کے دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہ بھولا بسرانوجوان اسی معزز کرسی پر بیٹھا ہوا نظر آیا جس سے مجھے کام تھا۔ ظاہر ہے اس نے مجھے نہیں پہچانا! میں نے بھی اسے اپنی ناگوار یاد تازہ نہ کرائی۔ کھڑے کھڑے عرض حال کی ’’جو گردگان برگنبد‘‘ ثابت ہوئی اور میں بے نیلِ مرام نادم و شرمسارگھرواپس آگیا ؎
ما و مجنوں ہم سفر بودیم دربستان عشق
او بجنت رفت و مادر نار بریاں محی شدیم
ہمدردی اور نیکی کے بدلے بدی کے یہ صرف دو واقعات مشتے نمونہ ازخروارے پیش کیے گئے۔
اس طرح کے واقعات سے انسان عام طورپر مردم بیزار ہوجاتاہے، طبیعت میں چڑچڑاپن اور بے مروتی پیدا ہوجاتی ہے، دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ہمدردی کرنے سے نفرت ہوجاتی ہے اور
کس نیا موخت علمِ تیر ازمن
کہ مرا عاقبت نشانہ نکرد
جیسے حزنیہ اشعار وردِ زبان ہوجاتے ہیں، اگر بڑھاپے کا زمانہ ہوتا ہے تو آہِ سرد اور کرب و بے چینی دل و دماغ پر طاری رہتی ہے، اور اگرطبیعت کے زور اور جوانی کے ایام ہوتے ہیں تو ظلم وتشدد اور انتقام کاجذبہ ترقی پاجاتاہے۔
انسانی زندگی میں یہ بڑے امتحان کا وقت ہوتاہے، اگر سعدی کی اس نصیحت پر عمل کرنے کی توفیق ہوگئی کہ ؎
گر گزندت رسد تحمل کن
کہ بعفو از گناہ پاک شوی
تو یہ حیاتِ مستعار خوشی خوشی کٹ جاتی ہے، اور اگر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی جانب طبیعت رجوع ہوگئی تو زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔
دراصل ہونا یہ چاہیے کہ جب احسان ناشناسوں کی برائی کاخیال دل و دماغ پر مستولی ہوتو اس وقت اُن باخیر لوگوں کی یاد سے اپناایمان تازہ کرلینا چاہیے جنہوںنے کسی خدمت کے بغیر بالکل بے لوث طریقے پر ہماری امداد کی اور پھر کبھی اس کاتذکرہ بھی زبان پر نہ لائے۔ اس معاملے میں بقول جناب حاتم علوی ہمیں فوراً ایک بیلنس شیٹ بنانی چاہیے، جس قدر نیکیاں ہم نے دوسروں کے ساتھ کی ہیں، حساب لگانے سے اندازہ ہوگاکہ ان سے کہیں زیادہ مہربانیاں اور احسانات ابنائے عالم نے ہم پر کیے ہیں، یہ علاحدہ بات ہے کہ مخصوص طورپروہ لوگ ہمارے ساتھ کچھ نہ کریں جن کے لیے ہم نے کچھ کیا تھا۔ مطلب تو ثواب سے ہے، دیکھنا صرف یہ ہے کہ ہم نے کس مقدار میں دیا اور دوسروں نے اس کے مقابلے میں کتنی زیادہ مقدار میں ہمارے ساتھ سلوک کیا۔ مثلاً میں عرض کروںکہ زندگی کابڑا حصہ گزارکر میرا پاکستان آناہوا تو وہ تمام لوگ جن پر میں نے اپنی جان اور مال نچھاور کیا، مجھ سے دور ہوگئے اور یہاں عالم بے کسی میں وہ لوگ کام آئے جن کے لیے میں نے کبھی کچھ نہیں کیاتھا۔ میرے پاکستان کے بڑے بڑے محسن میجر شمس الدین محمد صاحب سابق وزیر تعلیم بہاولپور، حسن علی عبدالرحمن بارایٹ لا، مرزا ممتاز حسن قزلباش سابق وزیراعلیٰ خیرپور اور جناب ممتاز حسن سابق منیجنگ ڈائرکٹر نیشنل بینک آف پاکستان ہیں جن کی میں نے کبھی کوئی خدمت نہیں کی تھی اور انہوںنے محض خدا واسطے مجھے زمین سے اٹھاکر صوفہ پر بٹھادیا۔ اس طرح میری بیلنس شیٹ ایزادی (سرپلس) ہوگئی، اورآپ یہ سن کر خوش ہوںگے کہ بحمد اللہ مجھے پورا پورا اطمینان قلب حاصل ہے، نہ کسی سے شکایت اور نہ کسی کے خلاف جذبۂ انتقام…
خیرے کن آں فلاں و غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146