نفسیاتی امراض کے ایک مشہور ماہرِ علاج لکھتے ہیں کہ’’ میں ایک ایسی عورت کو جانتا ہوں جو دو ہفتے تک اس پریشانی میں مبتلا رہی کہ کس حجام کی دکان پر جاکر میں اپنے بال بنواؤں۔ میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ مجھے اس امر کا فیصلہ کرنا سب سے زیادہ مشکل کام معلوم ہوتا ہے کہ میں فلم دیکھنے جاؤں یا نہ جاؤں۔ آخر ایک سکہ کو اچھال کر فلم میں جانے یا نہ جانے کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں مگر اس سے اور بھی زیادہ تذبذب میں پڑجاتا ہوں۔ مثلاً میں نے سکہ اچھالا اور وہ پشت کے بل گرا۔ یہ فیصلہ ماننے کو میرا جی نہیں مانتا، اس لیے پھر اچھالتا ہوں۔ اسی طرح آٹھ دس بار اچھالتا ہوں اور پھر بھی کوئی فیصلہ نہیں کرپاتا۔
آخر اس تذبذب کا سبب کیا ہے اور کیوں کر اس مصیبت سے چھٹکارا نصیب ہوسکتا ہے؟
تذبذب سے یہ بات واضح ہے کہ ہماری شخصیت برسرِ پیکار ہے اور یہ جنگ کسی مخفی اختیار و اقتدار کے خلاف ہوتی ہے۔ گو تذبذب کسی بہت معمولی سے معاملے کے متعلق ہوتا ہے مگر کشمکش اور پس و پیش اس قدر شدت اختیار کرلیتا ہے کہ سوہانِ روح بن جاتا ہے۔
انگلستان کے ایک معالج نفسیاتی امراض کہتے ہیں ’’ایک لڑکی دفتر میں کام کرتی تھی، اسی دفتر میں ایک نوجوان لڑکا بھی ملازم تھا۔ اس لڑکے نے ایک روز اس لڑکی کو سنیما چلنے کی دعوت دی۔ اس دعوت سے وہ کچھ ایسے تذبذب میں پڑگئی کہ اس پر سخت کھنچاؤ اور تناؤ کی کیفیت طاری ہوگئی اور سخت پریشانی میں مبتلا ہوگئی۔‘‘
جب ہم اس عورت کی حالت پر غور کرتے ہیں اور اس کے تذبذب اور شش و پنج کے سب پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت اس نوجوان لڑکے کے ساتھ سنیما جانا چاہتی تھی لیکن اس کے ذہن میں اپنے ماں باپ کی ایک گفتگو جو برسوں پہلے ہوئی تھی اور جس کو اس نے چھپ کر سنا تھا محفوظ تھی۔
ماں کہہ رہی تھی: ’’میں اپنی لڑکی کا مرجانا پسند کروں گی مگر یہ پسند نہ کروں گی کہ وہ اس غنڈے کے ساتھ سیر کو جائے جو سڑک کے اس طرف رہتا ہے۔‘‘
باپ کی رائے یہ تھی کہ آج کل کے نوجوانوں کے ڈھنگ دیکھ کر میرا خون کھولنے لگتا ہے۔ لڑکیوں کے لیے سب سے محفوظ اور مناسب جگہ ان کا اپنا گھر ہے۔
ایک نوجوان آدمی کے ساتھ سیروتفریح کے لیے جانے کا خیال اس کے دل میں جوش اور ہیجان برپا کررہا تھا لیکن اس کے دل کے اندر کی خاموش آوازوں نے اسے تذبذب میں ڈال دیا تھا۔ یہ اختیار، اقتدار اور مفروضہ دانائی اور دور اندیشی کی آوازیں تھیں جو برابر کہہ رہی تھیں کہ ’’لڑکیوں کے لیے سب سے محفوظ اور مناسب جگہ ان کا اپنا گھر ہے۔‘‘
جب یہ لڑکی چھوٹی بچی تھی تو اس کے لیے یہ سیکھنا بہت ضروری تھا کہ ماں باپ کی اطاعت کرنا اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا بہت ضروری ہے۔ مگر چوں کہ ماں باپ کی گرفت بہت سخت تھی اس لیے جوان ہونے تک ان کی آوازیں اس کے تحت الشعور میں گونجتی رہیں اور یہ خوف طاری رہا کہ اگر ان کے ہر لفظ پر عمل نہ کیا گیا تو وہ کسی سخت مصیبت میں مبتلا ہوجائے گی۔
ایک صاحب کو جب کسی معاملہ میں کسی فیصلہ پر پہنچنا ہوتا تھا تو وہ ایک کاغذ پر ’’موافق‘‘ اور ’’مخالف‘‘ کی سرخیاں قائم کرکے دو کالم بنالیتے اور اس معاملے کے متعلق جو دلائل موافقت میں ہوتے تھے وہ ’’موافق‘‘ والے کالم میں، جو مخالف میں ہوتے تھے، وہ ’’مخالف‘‘ والے کالم میں لکھ لیتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس طرح وہ آسانی سے ایک معقول اور مناسب فیصلہ کرسکیں گے۔ مگر اس سے انھیں کوئی مدد نہیں مل پاتی تھی۔ وہ اسی طرح شش و پنج میں مبتلارہتے تھے جس طرح دلائل لکھنے سے پہلے تھے۔
ایسا کیوں تھا؟ وہی والدین کی خاموش آواز جو ان کے ذہن میں بسی ہوئی تھی، انھیں تذبذب میں ڈال دیتی تھی اور انھیں کوئی فیصلہ نہیں کرنے دیتی تھی۔ وہ ذہن کی ان زنجیروں کو توڑنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتے تھے۔ کیوں کہ انھیں ڈر تھا کہ ایسا کرنے سے وہ کسی آفت میں پھنس جائیں گے وہ بات کو ٹالتے رہتے تھے۔ ہوتے ہوتے تذبذب نے ایک عادت کی صورت اختیار کرلی اور جب بھی کوئی فیصلہ کرنے یا کسی معاملہ میں قطعی رائے قائم کرنے کا موقع آیا، پس و پیش اور شش و پنج میں پڑنے لگے۔
تذبذب کی عادت کے پس منظر میں قریب قریب ہمیشہ بہت زیادہ سخت یا بہت زیادہ بالادستی و گرفت رکھنے والے باپ یا ماں کا ہاتھ نکلے گا۔ اس ماں یا باپ نے شخص متعلق کے بچپن میں اس درجہ تسلط اور غلبہ حاصل کرلیا تھا کہ جوان ہونے پر بھی وہ اس حیثیت سے جوان نہ ہوسکا اور نشوونما نہ حاصل کرسکا اور ایک ایسا جوان نہ بن سکا جس کو اپنی مرضی پر چلنے کی آزادی حاصل ہو اور جو اپنے فیصلوں اور نتائج پر بھروسہ کرسکے۔
اس صورتِ حال کا علاج ہمارا ذاتی نشوونما ہے۔
ہمیں والدین کے اس اختیار و اقتدار سے جو ہمارے باطن پر مسلط ہے خود کو آزاد کرنے کی سخت ضرورت ہے، کیوں کہ یہ اختیار اپنے نفع بخش ہونے کی حدوں سے گزرچکا ہے۔
مگر یہ کام آسان نہیں ہے۔ اگر آپ کی تربیت اور نشوونما سخت اور تنگ نظم و ضبط کے حدود میں ہوا ہے تو آپ کا باطن جن زنجیروں میں کسا ہوا ہے ان کو توڑنا آسان نہیں ہے، وہ آپ کا ضمیر بن گیا ہے۔ اس کے خلاف بغاوت کو آپ اسی طرح محسوس کرنے لگتے ہیں جیسے کوئی جرم آپ سے سرزد ہورہا ہے اور آپ سزا کے مستحق ہیں۔
ایک طالب علم امتحان کی تیاری میں مصروف تھا۔ ایک دن اس کا جی چاہا کہ آج شام کو نمائش دیکھنے جاؤں، مگر امتحان کی تیاری کا بھوت سر پر سوار تھا۔ شام کا سارا وقت اسی تذبذب میں گزرگیا کہ نمائش دیکھوں یا امتحان کی تیاری میں مصروف رہوں، وہ نہ نمائش دیکھ سکا اور نہ امتحان کی تیاری کرسکا۔
آخر وہ کیوں کوئی فیصلہ نہ کرسکا؟ اس کا تذبذب اس بغاوت کی نشان دہی کررہا تھا، جو اس کے باطن پر غلبہ پانے والی قوت کے خلاف اس میں پیدا ہورہی تھی۔ وہ ایک آدمی نہیں تھا بلکہ دو آدمیوں کا مجموعہ تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے اس اندرونی نفاق کو تسلیم کرے اور اسے دور کرنے کی کوشش کرے۔
تذبذب اور پس و پیش کی جنگ عموماً بہت چھوٹی عمر ہی میں شروع ہوجاتی ہے۔ اکثر اس کا آغاز بچے کی شکست سے ہوتا ہے۔ بچے اپنی مرضی پر چلنا چاہتے ہیں، لیکن ماں یا باپ کی قوی تر مرضی کا غلبہ اور اثر اس کی مرضی کو دبالیتا ہے اور وہ مجبور ہوکردب جاتا ہے اور اس کی مرضی کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ خیال اس پر مسلط ہوجاتا ہے کہ میں جو کچھ چاہوں وہ نہیں کرسکتا اور مجھے ہمیشہ دوسروں کی مرضی پر چلنا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قوتیں جو اس کے ذاتی نشوونما اور آزاد فضا کی تشکیل میں صرف ہونی چاہیے تھیں، وہ کوفت، پژمردگی اور تذبذب کی نذر ہوجاتی ہیں اور وہ ایسا شخص بن جاتا ہے جو شاید کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا اور اختیار اور اقتدار کی اس خاموش مزاحمت سے وہ اک قسم کی تلخ اور مخفی تسکین حاصل کرتا رہتا ہے اور یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ ناکام رہنا اس کی قسمت ہی میں ہے۔
ایسے آدمی کو جب کبھی کامیابی کا سامنا ہوتا بھی ہے تو وہ گھبرا جاتا ہے، کانپنے لگتا ہے، اور تذبذب میں پڑجاتا ہے اور کامیابی اس کے ہاتھوں سے نکل جاتی ہے اور وہ غمگین اور ناکام تکتا رہ جاتا ہے۔
اپنی اس حالت پر قابو پانے کے لیے اسے یہ بات صحیح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ اس کا مقصد اصل میں کامیابی حاصل کرنا نہیں تھا، بلکہ اپنے باطن میں تذبذب کی بدبختی اور ذلت کو ڈھونڈنا اور پانا تھا۔
واقعہ یہ ہے کہ اس کی ذات کا نشوونما کبھی ہوا ہی نہیں، وہ ابھی تک وہی چھوٹا سا بچہ ہے جو کبھی تھا وہ اب بھی اپنے ماں باپ کے ہاتھوں محروم ہے اور منزل پر نہ پہنچ کر وہ اپنی زندگی سے غضب ناک انتقام لے رہا ہے۔
ایسے آدمی کو چاہیے کہ عقل اور نفسیاتی بصیرت سے کام لے کر اپنی حالت کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش کرے۔ جب کسی معاملہ میں وہ تذبذب میں پڑجائے اور خود کو تعویق اور لیت و لعل کی الجھنوں میں پائے تو اس کو چاہیے کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے توقف کرے اور سوچے کہ ’’یہ صورت اب سے پہلے کب پیش آئی تھی۔‘‘
اگر اس کی قوتِ متخیلہ نے اس کی مدد کی تو اس کا ذہن اسے اپنے بچپن کی کسی کشمکش، کسی جدوجہد تک لے جائے گا، جس کو اس کے بزرگوں نے ناکام بنادیا تھا اور جس کی وجہ سے اس کے دل میں نفرت پیدا ہوئی تھی اور وہ سخت کوفت میں مبتلا ہوگیا تھا۔ اگر اس کے حافظے نے اس کا ساتھ دیا تو اسے یاد آئے گا کہ اسی قسم کی اذیتیں اسے اکثر پہنچتی رہی ہیں اور اسی طرح وہ مایوسی، محرومی اور بے اطمینانی کا شکار رہا ہے۔ یہاں تک کہ یہی محرومی اور مایوسی اس کے جذبات کی جائے پناہ اور زندگی کا سہارا بن گئی۔
یہی وجہ ہے کہ عین اس وقت جب اسے اپنی قوتِ فیصلہ سے کام لینا تھا، وہ خود کو اپنے باطن میں چھپے ہوئے بزرگوں کے ساتھ بندھا ہوا پاتا ہے اور کوئی راستہ اختیار نہیں کرپاتا۔
کسی مرض کا سبب معلوم ہوجانے سے علاج کی صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں، جب زہر کی نوعیت واضح ہوجاتی ہے تو تریاق سے کام لیا جاسکتا ہے۔
یہی حال تذبذب کے عارضہ کا ہے۔ اگر تم اس میں مبتلا ہو تو تمھیں چاہیے کہ وہ مایوسی اور محرومی جو تمہارے دل میں بیٹھی ہوئی ہے اس کو اپنے دل سے نکال ڈالو اور خود اپنے بنائے ہوئے راستے پر چلو۔ ممکن ہے ایک آدھ بار تم غلطی کرو مگر وہ غلطی بھی تمہاری آئندہ کامیابی کا پیش خیمہ ہوگی۔
تمہارا تذبذب تمہارے بچپن کے غلط دباؤ اور غلط قسم کی رہنمائی اور سہارے کا نتیجہ ہے اور جیسے ہی تم نے یہ اندازہ کرلیا کہ وہ دباؤ تمہاری زندگی کو ناکام بنا رہا ہے تم آسانی کے ساتھ اپنا پیچھا چھڑالوگے۔
——