اسلام میں تعلیم کی اہمیت مسلم ہے۔ تاریخِ انسانیت میں یہ منفرد مقام اسلام ہی کو حاصل ہے کہ وہ سراپا علم بن کر آیا اور تعلیمی دنیا میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیامبر ثابت ہوا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے انسانیت نے اپنے سفر کا آغاز تاریکی اور جہالت سے نہیں بلکہ علم اور روشنی سے کیا ہے۔
تعلیم کسی قوم کے سماجی نظریات اور اس کی ثقافت سے مربوط ہوتی ہے۔ کسی قوم کا نظامِ تعلیم اپنے مزاج سے مواد اور موضوعات کے اعتبار سے نہ تونظریاتی رنگ سے خالی ہوسکتا ہے اور نہ کسی میں اتنی معروضیت ممکن ہے کہ اسے اقتدار کی گرفت سے آزاد قرار دیا جاسکے۔
پس تعلیم کا اولین مقصد یہ ہونا چاہیے کہ طلباء میں ان کے مذہب اور نظریۂ حیات کی تفہیم و آگہی پیدا کرے۔ اس کے معنیٰ یہ ہوں گے کہ زندگی کا مفہوم اور مقصد دنیا میں انسان کی حیثیت توحید، رسالت، آخرت اور انفرادی اور اجتماعی زندگی پر ان کے اثرات اسلامی ثقافت کی نوعیت اور ایک مسلمان کے فرائض اور اس کا مشن ان کو سمجھایا جائے۔ انھیں بتایا جانا چاہیے کہ وہ کس طرح اعلیٰ مقاصد کے لیے دنیا کی تمام قوتوں کو استعمال کریں۔
تعلیم کو ایسے افراد پیدا کرنے چاہئیں جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں اسلامی نظریات پر بھر پور یقین کے حامل ہوں اور ان کے اندر ایک ایسا نقطۂ نظر پیدا کرنا چاہیے کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنا راستہ خود بناسکیں۔ اسلام راہِ وسط کا داعی ہے اور اس کا نصب العین متوازن شخصیت کی تعمیر و ارتقا ہے۔ رسولؐاللہ کے فرمان کے مطابق فکر اور عمل کا توازن نبوت کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔ گویا اسلامی نظامِ تعلیم علم کی وحدت اور ہم آہنگی کے اصولوں پر استوار ہوگا۔
تعلیم میں سب سے زیادہ اہمیت طالب علم کے کردار کی تشکیل کو حاصل ہوتی ہے۔ تعلیم جب تک اچھے کردار تعمیر نہ کرے گی اپنا حقیقی مقصد کبھی حاصل نہ کرپائے گی۔ اسلام میں نیک اعمال اولین اہمیت کے حامل ہیں۔ قرآن پاک میں ایمان اور عمل صالح کی بیک وقت تلقین کی گئی ہے اور نبی کریم ﷺ کے بنیادی مشن میں نفس کا تزکیہ اور تطہیر شامل ہے اور اسے اولیت حاصل ہے۔ یہ کام تعلیم کا ہے کہ وہ انسانی کردار کو ایک خاص نظریاتی اور تحریکی سانچے میں ڈھال دے اور وہ خاص سانچہ ہمارے رسول اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارک ہے۔
لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ۔
’’رسول اللہ ﷺ کا بہترین نمونہ تمہارے لیے موجود ہے۔‘‘
گویا تعلیم کے تمام مراحل پر طلباء کو رسول اکرم ﷺ اور ان کے صحابہ کی مثالی زندگیاں پڑھائی جانی چاہئیں۔ استاد کو خود اپنی زندگی اپنے کردار اور عمل سے ایک نیک زندگی اختیار کرنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔
ہر زمانے اور ہر قوم کی تربیت کے مختلف نظام مختلف مقاصد کو حاصل کرنے کے ذرائع بھی مختلف ہوا کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان ذرائع سے وہ مقاصد حاصل ہورہے ہیں یا نہیں۔
انسان کے بنائے ہوئے نظام ہائے تربیت مختلف خصوصیات کے حامل ہیں، اور ان کے تاریخی، اجتماعی اور سیاسی حالات بھی متنوع اور ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن ان تمام ذرائع و وسائل اور ان تمام نظام ہائے تربیت کا مقصد ایک ہے اور وہ ہے ایک اچھا شہری تیار کرنا۔ لیکن خود اچھے شہری کے بارے میں یہ تصور ہے کہ وہ ظلم و زیادتی کا قلع قمع کردینے والا سپاہی ہو لیکن جب اس کی اپنی قوم کا مفاد درپیش ہو تو ظلم و ناانصافی میں اسے خود بھی کوئی عار نہ ہو۔
کسی قوم کا اچھے شہری کے بارے میں یہ تصور بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ایسا نیک و صالح شخص ہو کہ نہ خود کسی پر ظلم کرے اور نہ کسی کو اپنے اوپر ظلم کرنے کی اجازت دے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی قوم کی نظر میں ایک اچھا شہری تارک الدنیا زاہد اور خشک انسان ہو جو اس دنیا کو قابلِ نفرت سمجھے اور اس سے کوئی دلچسپی نہ رکھے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی قوم کے نقطۂ نظر سے اچھا شہری وہ ہو جو اپنے وطن کا سچا عاشق ہو، اس میں جذبہ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو، اور وہ اپنی نسل کے امتیاز پر فخر محسوس کرتا ہو اور اس کی خاطر مرمٹنے کے لیے تیار ہو۔
لیکن اسلام کا نظریہ بالکل مختلف ہے۔ وہ صرف اچھا شہری تلاش نہیں کرتا، بلکہ اسلام کے نظامِ تربیت کا مقصد اچھا انسان یعنی انسان صالح تیار کرنا ہے۔ وہ انسان جو مکمل انسان ہو، جس میں انسانیت کے سارے پوشیدہ جوہر نمایاں ہوں۔ وہ انسان جس کا نقشہ ہمیں قرآن پاک اور نبی آخر الزماں نے دیا ہے۔ وہ انسان جو صرف جغرافیائی حدود محض ایک زمین کے ٹکڑے کا اچھا شہری نہ ہو بلکہ متقی، عبادت گزار، خلافت الٰہیہ کا علم بردار اور خالقِ کائنات کی طرف رجوع کرنے والا اوررضائے الٰہی پر مرمٹنے والا انسان ہو:
وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔
(الذاریات: ۵۶)
’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘
اسلام میں بندگی اور عبادت کے معنی چند رسوم کی ادائیگی نہیں بلکہ اسلام میں بندگی اور عبادت کا لفظ اپنے اندر بہت وسیع معنی سمیٹے ہوئے ہے۔ اسلام میں اس کے معنی زندگی کے ہر لمحے میں عمل کے ہر پہلو میں فکر کے ہر گوشے میں اور شعور کے ہر زاویے میں اللہ کی ہدایت پر عمل کرنے اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے کے ہیں۔ غرض پوری زندگی اللہ کی رضا اور اس کے منشا کے مطابق گزارنا اور تمام امور جو خدا کی رضا کے ہوں ان پر عمل کرنا اور ان تمام امور سے بچنا خدا کی ناراضگی کا باعث ہیں، عبادت ہے۔
خالقِ کائنات کی جانب رجوع ہی نظریہ اسلام کا محور ہے اور یہی اسلام کے نظامِ تربیت کا سرچشمہ اور منبع ہے۔ اسی منبع سے تمام قوانین ضابطے اور ہدایات سامنے آتی ہیں جن کی بنیاد پر انسانی زندگی صحیح راستے پر استوار ہوتی ہے۔ اسلام انسان کا رخ اس کے خالق کی جانب موڑکر یہ بتادیتا ہے کہ ہر ایک قوت اور طاقت کی مالک اللہ کی ذات ہی ہے، وہی بادشاہ اور سلطان ہے، جو زمین و آسمان کی ہر شے کا مالک ہے:
سبحٰن الذی بیدہ ملکوت کل شییٔ۔
’’پاک ہے وہ جو ہر چیز کا مالک ہے۔‘‘
اور انسان جب اس حقیقت کے راز کو پالیتا ہے تو پھر وہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں کرتا۔ پھر اس کے سامنے دنیا کی ہر قوت کمزور، ہر طاقت پامال اور ہر توانائی بے اثر ہوتی ہے۔
اس بحث سے یہ واضح ہوگیا کہ اسلام کے نظامِ تربیت کا مقصد دنیا کے جملہ نظام ہائے تربیت کے مقاصد سے نہایت ارفع و اعلیٰ ہے اور اسلام کا نظامِ تربیت اس لحاظ سے بالکل منفرد اور حد درجہ ممتاز ہے کہ اس کے جملہ ذرائع اور تمام مقاصد ایک فکر اور ایک نظریہ سے پوری طرح مربوط اور پیوست ہیں۔ اور یہ نظامِ تربیت اس قدر مکمل، جامع اور ہمہ گیر ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی پہلو اور کوئی گوشہ اس کی رہنمائی اور ہدایت سے خارج نہیں ہے۔
ظاہر ہے اسلام کے نظامِ تربیت کے علاوہ تربیت کا کوئی اور نظام انسانی تاریخ میں اتنا ہمہ گیر اور جامع وجود میں نہیں آیا، اس وسعت اور ہمہ گیری کے باوجود اسلام کا نظامِ تربیت کسی بھی موقع پر اپنے اس مقصد سے گریز کرتا ہوا محسوس نہیں ہوتا، کیونکہ یہ نظامِ تربیت ایسے متفرق اور مختلف ذرائع اور وسائل کا مجموعہ نہیں ہے جن میں سے ہر ذریعہ اور وسیلہ انسان کو ایک نئی سمت کی جانب لے جائے اور اس جذب و کشش میں انسان کی فطری صلاحیتیں ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جائیں، اس کے برعکس اسلام کا نظامِ تربیت انسان کے سامنے ایک صاف اور سیدھی شاہراہ متعین کردیتا ہے اور ایک مقصد سامنے رکھ دیتا ہے تاکہ انسان اپنی تمام فطری صلاحیتوں اور ان کے درمیان پورے تعاون، ہم آہنگی اور سلامتی کے ساتھ اس شاہراہ مستقیم پر گامزن ہوسکے۔ اسلام کے نظامِ تربیت کی یہ خصوصیت اس قدر واضح اور نمایاں ہے کہ یہ پہلی ہی نظر میں آشکار ہوکر نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے اور یہ حقیقت کھلم کھلا محسوس ہوجاتی ہے کہ اسلام کا نظامِ تربیت ہر لحاظ او رہر پہلو سے انسان کے بنائے ہوئے نظامِ ہائے تربیت سے بالکل مختلف، منفرد اور بے مثال ہے۔ اسلام اپنے مقاصد کے لحاظ سے بلند پایہ ہے جبکہ باقی تمام نظام ہائے تربیت و نظام ہائے زندگی دو خانوں میں بٹے ہوئے ہیں، کچھ تو وہ ہیں جن کی تعلیمات یہ بتاتی ہیںکہ زندگی اور اس کی کشاکش سے دامن چھڑا کر انسان صرف خدا کا ہورہے اور رہبانیت اختیار کرے اور کچھ وہ ہیں جن کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کو چھوڑ کر اسی مادی زندگی کی تعمیر و ترقی کے لیے انسان اپنی جان کھپادے اور اس کو حاصلِ زندگی سمجھ لے۔ جبکہ اسلام وہ واحد نظامِ حیات ہے، وہ واحد نظامِ تربیت ہے جو انسان سے اللہ کا رشتہ اس لیے استوار کرتا ہے کہ اس کی دنیاوی زندگی بھی درست ہوجائے اور دنیاوی طور پر اور جسمانی طور پر بھی دنیا میں سرگرمِ عمل ہو لیکن خدا کے بنائے ہوئے قوانین اور احکام اور حدود کی روشنی میں دنیا اور اس کی لذتوں سے فائدہ اٹھائے۔
ہمیں ایسی تعلیم کی ضرورت ہے، ایسی تربیت کی ضرورت ہے جو ہمیں وہ مطلوبہ معلم مہیا کرسکے جس کا نظریہ اسلام نے پیش کیا ہے اور جو ہماری درسگاہوں میں اسلام کا انسانی مطلوب تیار کرسکے۔ جو ایسے افراد پیدا کرسکے جس سے ایک اسلامی معاشرہ تشکیل پذیر ہوتا ہے۔
——