دفتر جانے کے لیے میں جلدی جلدی تیار ہورہا تھا کہ اسی دوران بیوی نے کہا:’’بچوں نے کھڑکیوں کے دو ایک شیشے توڑ دیے ہیں، جاتے ہوئے شیشے والے سے کہتے جانا کہ لگا جائے۔‘‘ اور محض سر کی جنبش سے اس کا جواب اثبات میں دے کر میں باہر نکل گیا۔
سہ پہر کو دفتر سے واپسی پر گھر کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے میں بالکل خالی الذہن تھا، مگر جب بیوی دروازہ کھولنے آئی تو اس کے چہرے کی بدلی بدلی سی کیفیت دیکھ کر میں پریشان ہوگیا۔ وہ روہانسی ہورہی تھی، اس کی یہ حالت دیکھ کر زیادہ دیر مجھ سے نہ رہا گیا۔ تو میں نے اسے کریدنے کی کوشش کی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ میں نے اپنے ذہن کو کھنگالا، خیالات کو چاروں طرف دوڑایا، اپنے پچھلے رویے پر غور کیا مگر وجہ سمجھ میں بالکل نہ آئی۔ پریشانی کے عالم میں، میں نے اس سے سبب دریافت کیا تو اس نے آہستگی سے بتایا کہ شیشے والا آیا تھا اور یہ کہہ کر وہ ٹھہر گئی۔ میں اس کے اس توقف کو سہار نہ پایا اور تفصیل جاننے کے لیے اس کی طرف استفہامیہ انداز میں بے چینی سے دیکھا۔ اس نے بتایا کہ اس نے شیشے تو لگادیے ہیں لیکن دو شیشے ٹوٹے ہوئے لگاگیا ہے۔
’’کیوں…؟‘‘ مجھے بجا طور پر حیرانی ہوئی۔
’’اس سے لگاتے ہوئے ٹوٹ گئے ہیں۔‘‘
’’تو اس میں رونے کی کیا بات ہے؟‘‘
’’وہ اپنی غلطی نہیں مان رہا تھا۔‘‘
’’چلو کیا ہوا… وہ ٹوٹے ہوئے شیشے کسی اور سے بدلوالیں گے۔‘‘
اُس نے میری اس بات کو اہمیت نہ دی، وہ اندر ہی اندر خود اپنے آپ سے دست و گریباں ہورہی تھی۔
’’میں نے تو بہت بحث کی، اسے ڈانٹا بھی، وہ نہ مانا اور آخر پیسے لے کر ہی گیا۔‘‘
’’خیر چھوڑو، چند روپوں کی خاطر پریشان کیوں ہوتی ہو۔‘‘
’’یہ روپوں کی بات نہیں ہے۔‘‘ اس نے راز بھرے احساس کے تحت کہا۔ یہ سن کر میں سٹ پٹایا اور اس لمحے چونک کر اس کی جانب دیکھا، کیوں کہ وہ کچھ اور کہنا چاہ رہی تھی۔ مجھے بیک وقت اس کی بات سننے کا اشتیاق بھی تھا اور معلوم ہوجانے کا خوف بھی۔
’’میں نے اس سے کہہ دیا کہ انھیں بھیجوں گی پھر دیکھتی ہوں کیسے نہیں دو گے پیسے۔‘‘
میری حالت اس وقت ایسی ہوگئی جیسے پہاڑ کھودنے کے بعد چوہا نکل آنے پر ہوتی ہے۔ لیکن میں نے بیوی کو تسلی دے کر اطمینان دلاتے ہوئے کہا:
’’اچھا… میں جاکر بات کروں گا۔‘‘
یہ سن کر وہ ایک دم خوش ہوگئی اور اس کی آنکھیں یوں چمکنے لگیں جیسے جو کچھ حاصل کرنا چاہتی تھی وہ اسے ملنے کی امید قوی ہوگئی ہو۔
شام سے پہلے اس نے مجھ سے دو تین بار دکان دار کے پاس جانے کو کہا مگر میں گرمی کا بہانہ کرتا رہا۔ وہ اس تمام عرصے میں مجھے سخت بے چین، بے چین دکھائی دیتی رہی اور اپنی اس کیفیت کی وجہ سے دوپہر کا آرام بھی اس نے نہیں کیا۔ آخر دن ڈھلے میں اسی ارادے سے اٹھا تو اس پر خوشی کی عجیب کیفیت طاری ہوگئی اور میرے جانے سے پہلے الفاظ چبا چبا کر مجھے تاکید کرنے لگی:
’’دیکھو اس سے پیسے ضرور واپس لانا۔‘‘
اس کی اس بات کو اہمیت نہ دیتے ہوئے محض اسے مطمئن کرنے کی خاطر، میں ہنستا ہوا چلا گیا۔
شیشے والے کی دکان زیادہ دور نہیں تھی۔ میں دکان کے اندر پہنچا تو دکان دار دوسری جانب رخ کیے، کسی کام میں مصروف تھا۔ میں نے اس کو مخاطب کرتے ہوئے نہایت نرمی سے کہا:
’’بھئی شیشے تم نے ٹوٹے ہوئے لگادیے اور پیسے پورے لے کر آگئے۔‘‘
لیکن میں چونک کر رہ گیا جب وہ مجھے دیکھتے ہی پھٹ پڑا۔ شاید وہ پہلے ہی سے بھرا بیٹھاتھا اور میرا منتظر ہی معلوم ہوتا تھا۔ ادھر ادھر کی تاویلوں کے سہارے اپنی غلطی ماننے پر قطعی تیار نہ ہوا۔ میں نے یہ دیکھ کر پھر یہی کہا:
’’بھئی جب پورے پیسے لیے ہیں تو شیشے ثابت لگاؤ، ورنہ پیسے واپس کردو۔‘‘
اس بات پر وہ بھڑک اٹھا اور جو جی میں آیا کہنے لگا۔ بکھرتے ہوئے معاشرے کے فرد کی حیثیت سے اس کے وجود کے اندر دوسروں کے لیے جو بھی اکتاہٹ،بیزاری اور نفرت تھی، وہ اگلنے لگا۔ میں نے اس کی یہ حالت دیکھی تو اسی نرم لہجے میں کہا:
’’میاں تمیز سے بات کرو۔‘‘
اس وقت میرے یہ نرم الفاظ خود میرے ذہن کی سطح پر بگولا بن کر اڑنے لگے، وہ سینہ تان کر میرے سامنے آکھڑا ہوا۔
’’سکھاؤں تمھیں تمیز۔‘‘
اس مرحلے پر مجھے غصہ آنا فطری امر تھا، مگر میں نے پھر بھی اجتناب برتا اور مجبوراً اندر ہی اندر تلملا کر رہ گیا۔ اس کیفیت میں مجھے یوں محسوس ہوا گویا اچانک میں خلا میں جاپہنچا ہوں اور میرے اندر کا سب کچھ سانس کے ساتھ باہر نکل آئے گا۔ مجھے چپ دیکھ کر اس کی ہمت شاید اور بڑھی اور گالیاں دیتے ہوئے کہنے لگا:
ایک پیسہ بھی واپس نہیں کروں گا، جاؤ جو کرنا ہے کرو۔‘‘
اس سے جھگڑے کی ہمت میرے اندر نہ تھی، میں برف کی طرح جامد و ساکت ہوکر رہ گیا اور رات کی تاریکی کا احساس میرے چاروں طرف فضاؤں میں چھاگیا۔ اس وقت مجھے پیسوں کی قطعاً پروا نہیں تھی، البتہ اپنی بے عزتی پر میرے جسم کے اندر سے اٹھتی ہوئی درد کی ٹیسیں میری رگ رگ سے ہوتی ہوئی فضا میں چیخ بن کر پھیل گئیں۔ میں نے اور بھی نرم لہجے میں کہا:
’’ایمان داری سے کمانا سیکھو۔‘‘
ان الفاظ نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اپنی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھے جانے سے وہ اپنے آپے میں نہ رہا۔ یہ سنتے ہی اچانک کوئی نوکدار اوزار ہاتھ میں تھامے وہ میری جانب بڑھا۔ اس وقت میرے ذہن میں فوراً یہ بات آئی کہ اگر اس نے مجھے معمولی سا بھی زخمی کردیا تو مجھے اسپتال جانا پڑے گا۔ ماں باپ، بہن بھائی کے علاوہ بیوی بچے پریشان ہوںگے۔ پولیس اور تھانے کے چکر لگانے پڑیں گے اور ان معاملات میں الجھنے کی بنا پر دفتر سے خواہ مخواہ چھٹی لینی پڑے گی۔ یہ سارے مناظر ایک لمحے میں میری آنکھوں کے سامنے گھوم گئے اور نتیجے کے طور پر جو بھی تھوڑا بہت غصہ تھا، وہ بھی میں نے شعوری طور سے دبادیا۔ اسی اثنا قریب کے دکانداروں نے آکر بیچ بچاؤ کرایا لیکن میں یہی محسوس کررہا تھا کہ ہر آدمی مجھے طنزیہ ہنسی کے ساتھ دیکھ رہا ہے، اس لیے اس جگہ مجھ سے کھڑا نہ ہوا گیا۔ چنانچہ میں نظریں جھکائے شکست خوردہ احساس کے ساتھ تیزی سے گھر کی طرف چل دیا۔ اس وقت میں جذبات کی بھٹی میں سلگ رہا تھا اور میرے ذہن و دل پر ہتھوڑے چل رہے تھے۔
گھر پہنچا تو دستک دینے سے پہلے ہی بیوی نے دروازہ کھول دیا جیسے اب تک وہیں کھڑی میرا انتظار کرتی رہی ہو،متجسس اور خوشی کی نظروں سے اس نے مجھے دیکھااور بھروسے والے لہجے میں طمانیت سے پوچھنے لگی:
’’اسے تو تمھیں پیسے واپس دینے ہی پڑیں ہوں گے۔‘‘
جواب دینے کی بجائے اور نظریں جھکائے میں خاموشی سے اندر آگیا۔ یہ دیکھ کر وہ ٹھٹک کر رہ گئی جیسے مجھ سے کسی اور رویے کی امید باندھے ہوئے تھی، مگر سنبھلتے ہوئے اسی پُر اعتماد لہجے میں بے قراری سے بولی:
’’بتاؤ…تم پیسے تو واپس لے آئے نا؟‘‘
اس لمحے میری سمجھ میں قطعی نہ آیاکہ اس کی اس کیفیت میں اسے کیا جواب دوں، اس لیے محض نفی میں سر ہلاکر رہ گیا۔ اس کی حالت صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ گئی گویا اس کے وجود کے اسپرنگ پر کوئی وزنی شے رکھ دی گئی ہو۔ اس کی اس حالت پر اب میں نے کسی قدر جھنجھلا کر جواب دیا:
’’کیا میں بھی اس سے اسی طرح ہاتھا پائی کرنے لگتا…؟‘‘
’’تو کیا ہوا…؟‘‘
اس کا لہجہ بڑا عجیب سا تھا، جس کی تہ تک میں نہ پہنچ پایا مگر میں نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے جواب دیا:
’’بھئی میں شریف آدمی ہوں اور پڑھا لکھا بھی، میری کوئی عزت ہے، کوئی وقار ہے۔‘‘
شاید یہی خوش فہمی میری زندگی کی ڈور کو آج تک سلجھاتی رہی تھی، ورنہ میں اپنے سانسوں کی لڑی کبھی زندگی کے کسی موڑ پر توڑ چکا ہوتا۔ میرے اس جواب پر وہ تلخی سے ہنسی تو میں نے سمجھانے کے لیے کہا:
’’چند روپوں کے لیے آخر کیوں الجھ رہی ہو؟‘‘
میری اس بات سے اجنبی احساسات کی رسّہ کشی کے دوران ایک انجانے کرب سے زیرہوکر وہ ایک دم پھٹ پڑی:
’’یہ صرف چند روپوں کی بات نہیں ہے۔‘‘
وہی احساس کوئی زہریلا کیڑا بن کر اس کے ذہن پر بار بار ڈنک ماررہا تھا۔ اس مرحلے پر میں نے چپ رہنا مناسب سمجھا اور وہاں سے ہٹ آنے میں عافیت جانی۔ پھر اس کا دھیان ہٹانے کی خاطر رات کے کھانے کے بعد میں اسے ٹہلانے کے لیے باہر لے گیا، جہاں ہم دیر تک کھلی فضا میں ٹہلتے رہے۔ واپسی پر اس کی کیفیت تھوڑی سی بہتر ہوئی تو وہ اپنی چپ توڑ کر رفتہ رفتہ باتیں کرنے لگی۔ رات کو عادت کے مطابق کتاب پڑھنے کی بجائے میں اس کے برابر ہی جالیٹا اور ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا۔
صبح نہا دھوکر ناشتے سے فارغ ہوکر دفتر جانے کے لیے تیاری کے دوران میں یہ سوچ کر مطمئن تھا کہ اب اس کا دھیان اس واقعے کی طرف سے ہٹ چکا ہے اس لیے باہر نکلنے سے پہلے اسے میں نے بھرپور اور شرارت آمیز نظروں سے دیکھا تو اس نے نظریں دوسری جانب کرتے ہوئے کسی جذبے سے عاری لہجے میں کہا:
’’کیا شریف آدمی کی مردانگی بس یہی ہوتی ہے۔‘‘
——