یہ کہانی میری دوست شازیہ کی ہے۔ جو کہ ایک اچھی بھلی عورت سے آج ایک نفسیاتی مریضہ بن چکی ہے اور وجہ کسی کو نہیں معلوم۔ ایک دن طارق روڈ پر شاپنگ کرتے ہوئے بچوں کی خواہش پر ہم ایک ریستوران میں جابیٹھے۔ بچے تو برگر اور آئس کریم کے انتظار میں اور آپس کی گپ شپ میں مگن ہوئے مگر میری نظر ایک کونے میں بیٹھے ہوئے شادی شدہ جوڑے پر جا ٹھہری۔ ذرا دماغ پر زور دیا تو یاد آیا کہ یہ تو میرے میکے کی پرانی محلے دار شازیہ اور اس کے شوہر ہیں۔ میں نے مسکرا کر اسے اشارہ کیا، وہ بھی مجھے پہچان گئی اور اٹھ کر میرے پاس آگئی۔ اس کے چہرے پر حد درجہ پریشانی کا لیپ تھا اور شوہر بھی بدحال لگ رہا تھا۔
حال چال پوچھنے پرروہانسی ہوکر صرف اتنا کہا کہ کسی روز گھر آنا سب حالات بتاؤں گی۔ اور گھر کا پتا بتادیا۔ کچھ دیر بعد دونوں میاں بیوی الگ الگ یکے بعد دیگرے ہوٹل سے رخصت ہوئے، مجھے لگا ضرور کچھ گڑبڑ ہے۔
اگلے ہفتے مجھے اس کے گھر جانے کا موقع مل گیا۔ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں اس کی رہائش تھی۔ فلیٹ بظاہر خوب صورت تھا لیکن مکین یہاں بھی بدحال دکھائے دیے۔ حال چال پوچھنے پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی جیسے ایک ہی سانس میں داستان سنانے کو بیٹھی تھی، اور اس کی کہانی سن کر میرے بھی رونگٹے کھڑے ہوئے۔
کہانی کچھ یوں تھی کہ اس کا شوہر فراز اسے غصے کی حالت میں طلاق دے بیٹھا تھا۔ اور دونوں نے گھر والوں سے اس بات کو پوشیدہ رکھتے ہوئے دوسرا انتہائی غلط قدم شازیہ کے دوسرے نکاح کی صورت میں اٹھا لیا تھا۔ اور خاندان میں یہ مشہور کردیا کہ ہم لوگ کچھ دنوں کے لیے مری جارہے ہیں۔ فراز نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر ایک بوڑھے شخص سے شازیہ کا نکاح حلالے کی غرض سے کروادیا اور اپنی جمع پونجی سے فلیٹ کرائے پر لے کر ان دونوں کو رہائش مہیا کی کہ جب حالات سدھر جائیں گے تو دونوں گھر سدھاریں گے۔ مگر حالات ان کے ہاتھ سے یک دم اُس وقت نکل گئے جب اس بوڑھے نے فراز کے تقاضے کے مطابق شازیہ کو طلاق دینے سے انکار کردیا۔ اب شازیہ کا رو رو کر برا حال ہے۔ کہنے لگی: اس دن ریستوران میں فراز نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر ایک ہفتے کے اندر میں نے طلاق نہ لی تو وہ خود کشی کرلے گا اور میں دو مردوں کے درمیان کشمکش میں بری طرح پھنس چکی ہوں۔
ہماری باتیں جاری تھیں کہ دروازے کا باہری لاک کھول کر ایک ادھیڑ عمر شخص اندر داخل ہوا جو شازیہ کا دوسرا شوہر تھا۔ اس نے بھی شازیہ کو روتے دیکھ کر فوراً صورتِ حال بھانپ لی اور وہی بات کی کہ کچھ بھی ہو وہ شازیہ کو طلاق دینے والا نہیں کیوں کہ اس سے زبردستی کا کسی کو کوئی حق نہیں اور وہ اس کی بیوی ہے۔ شازیہ مزید رو نے لگی۔ میں نے کافی دیر اسے تسلی دی اور اٹھ کر جانے لگی تو اس نے مجھے بھی تاکید کی کسی سے اس بات کا ذکر نہ کروں۔ میں نے کہا: یہی تم لوگوں کی بڑی غلطی ہے۔ اگر دونوں نے اپنے اپنے گھر والوں کو اعتماد میں لیا ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ خیر اسے نماز اور دعاؤں میں مغفرت طلب کرنے کا مشورہ دے کر گھر آگئی۔ گھر آکر بھی اس کا بے بس چہرہ نظروںمیں گھومتا رہا۔ اگلے پورے ہفتے بچوں کے پیپر ہوتے رہے اور میں ان کے ساتھ جت گئی۔ ۱۵؍دن بعد میکے جانے کا اتفاق ہوا تو مجھے شازیہ کے سسرال جو میرے میکے کے قریب تھوڑے فاصلے پر تھا، جانے کا موقع ملا۔ مگر وہاں تو عجب ماتم پڑا ہوا تھا۔ پتا چلا کہ پچھلے ہفتے فراز نے خود کشی کرلی اور شازیہ اس کی موت کے صدمے سے ذہنی توازن کھوچکی ہے۔ شازیہ کو بہت بری حالت میں نیند کی دواؤں کے زیر اثر لاکر کمرے میں بند رکھا گیا، ورنہ وہ ہوش میں آتے ہی گھر سے نکل کر بھاگ بھاگ جاتی ہے۔ مزید یہ کہ وہ بوڑھا ابھی بھی اس کے پیچھے گھر تک آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ میری بیوی ہے، اسے میرے حوالے کردو۔ اب اس کے سسرالیوںمیں یہ کہانی جنم لے چکی تھی کہ شازیہ کا اس بوڑھے کے ساتھ پرانا افیئر تھا جو کہ دونوں کی ازدواجی زندگی کے لیے دراڑ ثابت ہوا اور فراز نے شازیہ کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہوکر خود کشی کرلی۔ ڈاکٹروںکا کہنا ہے کہ شازیہ کے دماغ میں کوئی بات ہے جو وہ بتاتی نہیں ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ فراز شازیہ کو مری بھی اسی لیے لے کر گیا تھا کہ اس بوڑھے سے پیچھا چھوٹے، مگر یہ شخص وہاں بھی تھا اور شازیہ اس کے ساتھ ملوث تھی، اسی وجہ سے فراز بے چارہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں تھیں۔
——