دنیا بھر میں اس وقت بہت سے ادارے قائم کیے جارہے ہیں، جو نوجوانوں کو کیریئر کے بہتر مواقع فراہم کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ ساتھ ہی یہ ادارے خواتین کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں کہ وہ ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں کیونکہ مردوں کی طرح خواتین میں بھی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی تعلیم کا فروغ اہمیت کاحامل ہے، تاکہ وہ اس بنا پر ٹیکنالوجی کے میدان اور اس تیز رفتار دورمیں اپنا کردار نبھا سکیں گی۔
ایسینچر اینڈ گرلز (Accenture and Girls)میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایک ادارے جینڈ ر گیپ (Gender Gap)نے جو اعداد وشمار جمع کیے تھے اس میں یہ بات واضح کی گئی تھی کہ کمپیوٹنگ کی فیلڈ میں صنفِ نازک کی تعداد 2025ء تک 22فیصد یا اس سے بھی کم ہوسکتی ہے اوراگر حالات یہی رہے تو مختلف شعبوں میں خواتین کی تعداد تو کم ہوگی ہی مگر ٹیکنالوجی کی دنیا میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔
انٹرپرینیورز کی بات کی جائے تو وہاں بھی ہمیں CEO کے کردار میں زیادہ خواتین نظر نہیں آتیں۔ گزشتہ برس فارچون 500کمپنیوں کی خواتین سی ای اوز کی تعداد گھٹ کر 25فیصدر ہ گئی تھی لیکن خواتین کو مایوس ہونے کی چنداںضرورت نہیں ہے۔ نئے دور کے حالات حوصلہ افزا ہیںا ور امریکن ایکسپریس میں شائع ہونیوالی’’دی اسٹیٹ آف ویمن اونڈ بزنس رپورٹ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018ء میں امریکا میں خواتین ہر روز1821کاروبار شروع کررہی تھیں جب کہ یہ تناسب 2012ء سے 2017ء تک 952تھا۔
1899ء سے شائع ہونے والے ایم آئی ٹی یعنی میساچوٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے معروف میگزین ’’ ٹیکنالوجی ریویو‘‘ نے گزشتہ برس سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی میں ایجادات اور تخلیق کے حوالے سے لوگوں، منصوبوں اور ادار وں کی فہرست شائع کی، جن میں ’’35انڈر35‘‘ کی فہرست میں دو پاکستانی خواتین کا نام بھی شامل تھا۔
ان خواتین میں 28سالہ حرا حسین بھی ہیں، جنہوں نے کثیر لسانی کرائوڈ سورس پلیٹ فارم تخلیق کیا ، جس کے تحت گھریلو تشدد اور ظلم کی شکار خواتین اپنا مقدمہ بغیر کسی وکیل کی خدمات لیے درج کرواسکتی ہیں اور صرف جسمانی تشدد ہی نہیں بلکہ نفسیاتی تشدد کی شکار خواتین بھی اس پلیٹ فارم سے مدد لے سکتی ہیں۔ اس فہرست میں دوسرا نام31سالہ شہربانو کا ہے، جب 2012ء میں پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی لگی تو انہوں نے ریاست کی جانب سے سنسر شپ کے اقدام کو منظم اندازمیں سمجھنے کی کوشش کی۔ یونیورسٹی کالج لندن میں زیر تعلیم شہربانو نے تین سال تک پاکستان میں انٹر نیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کا ڈیٹا جمع کیا اور ان وجوہات کا پتہ چلایا جن کی بنا پر انٹرنیٹ سنسر شپ کی جاتی ہے۔
دیگر شعبہ جات میں بھی خواتین کا کردار بہرحال موجود ہے اور ان شعبوں میں ٹیکنالوجی بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے اور تمام تر حالات کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ٹیکنالوجی نے کمیونیکیشن کی رفتار تیز کردی ہے اور گھریلو کام سے لے کر دفتری فرائض تک ہمیں ہر وقت کمپیوٹر یا گیجٹس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس صورتحال میں بچے بچیوں کی تعلیم میں بھی ٹیکنالوجی کی اہمیت بے حد بڑھ جاتی ہے اور زندگی کے ہرموڑ پر، ہر شعبے میں، چاہے وہ صنعتیں ہوں یا تعلیمی ادارے، ٹیکنا لوجی ہمارے درمیان کھڑی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں اگر ٹیکنالوجی کی دوڑ میں خواتین پیچھے رہ جائیں اور اپنا کردار ادا نہ کرسکیں تو اس سے بڑا نقصان کیا ہوگا۔
اگر ہم ٹیکنالوجی کے حوالے سے کیریئر کی بات کریں، جس میں خواتین اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں ،تو اچھی خاصی فیلڈز ہیں ، جیسے وہ کسی بھی ادارے میں آئی ٹی پروجیکٹ منیجر، سوفٹ ویئر انجینئر، ویب ڈویلپرز، کمپیوٹر پروگرامر اور ویب ڈیزائنر کی خدمات انجام دے سکتی ہیں۔ ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے ہمارے ملک میں خواتین کسان بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ اگر ان کو بھی ٹیکنالوجی کی لہر کا حصہ بنانے کیلئے نیٹ ورک بنایا جائے تو اس سے ملک وقوم کو بھی فائدہ ہو گا اور وہ زراعت میں بااختیار بھی ہوں گی۔ وہ اس تاثر کا خاتمہ بھی کرسکتی ہیں کہ یہ شعبے صرف مرد حضرات کے لیے ہی مخصوص ہیں۔
یہ بات بھی خواتینکے لیے حوصلہ افزا ہے کہ چاندپر انسان بھیجنے کی ٹیکنالوجی کا الگورتھم بھی ایک لڑکی نے لکھا تھا اور حالیہ عرصے میں بلیک ہول کی تصاویر حاصل کرنے کا راستہ بھی ایک لڑکی کی ذہانت سے ملا۔ اسی طرح میڈم کیوری کو کون بھول سکتاہے، جو ریڈیم ایجاد کرکے لاکھوں انسانوں کو مو ت کے منہ سے نکالنے کا سبب بنیں اور نوبل انعام کی حقدار ٹھہریں۔