ہمت

امِ زبیر

’’ایک خاتون آپ سے ملنا چاہتی ہیں بی بی جی۔‘‘ خادمہ نے آکر کہا۔
’’انھیں کمرے میں لے آؤ۔‘‘ کہتے کہتے میں خود برآمدے میں نکل آئی۔ سامنے زبیدہ کھڑی تھی۔
’’السلام علیکم، معاف کیجیے گا بے وقت آپ سے ملنے آگئی۔‘‘ اس نے جھینپتے ہوئے کہا۔
’’واہ! یہ بھی خوب ہی رہی۔ مجھے تو آپ کو اپنے گھر میں دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ کیا کہوں۔‘‘ میں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کرتے ہوئے کہا اور اسے ساتھ لے کر کمرے میں آگئی۔
وہ ایک صوفہ پر بیٹھ گئی۔ سر پشت پر ٹیک دیا۔ خوشبو میں بسا رومال نکالا، اپنے چہرے سے پسینے کے ننھے ننھے قطرے پونچھ ڈالے۔ چشمہ اتارا، اسے صاف کیا اور خاموشی سے میری طرف دیکھنے لگی۔
’’آج آپ کا اسکول بند تھا۔‘‘ آخر میں نے سکوت توڑا۔
’’نہیں‘‘ وہ مسکرائی’’آپ سے ملنے کے لیے میں نے آج چھٹی لے لی ہے۔ اس دن کی ملاقات کے بعد مزید گفتگو کے لیے دل تڑپ رہا تھا۔‘‘ وہ اپنی انگلی پر دوپٹہ کا پلو لپیٹنے لگی۔
’’یہ میری عین خوش نصیبی ہے کہ آپ نے مجھے اس لائق سمجھا۔‘‘
اتنے میں میری تینوں بہنیں بھی آگئیں، رفیعہ کے ہاتھ میں طشتری تھی، جس میں خشک میوہ تھا۔ اسے مہمان نوازی کا بہت خیال رہتا تھا۔ شہناز ہاتھوں میں سلائیاں لیے ہوئی تھی۔
’’یہ وہی بس والی خاتون ہیں جن کا میں نے تم سے ذکر کیا تھا۔ گلی کے اس نکٹر پران کا مکان ہے… اور یہ میری بہنیں ہیں رفیعہ، صفیہ اور شہناز۔‘‘ میں نے تعارف کراتے ہوئے کہا۔ ’’آپ سب آپس میں مل کر یقینا خوش ہوں گی۔‘‘
اجنبی خاتون کی پروقار و دلکش شخصیت دیکھ کر اور اس کی دلچسپ اور بے تکلف گفتگو سن کر سب مسرور ہوئیں۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد وہ واپس جانے کے لیے اٹھیں اور معذرت طلب ہوئیں ’’میرے آنے سے یقینا آپ کا حرج ہوا ہوگا۔‘‘
میں نے جواب میں کہا کہ مجھے توقع ہے آئندہ ہماری دوستی قائم رہے گی۔ ان شاء اللہ کہہ کر وہ چلی گئیں۔
انھیں پہلی مرتبہ میں نے بس میں دیکھا تھا۔ پھر ایک دن ان سے ایک دینی پروگرام میں ملاقات ہوئی۔ کتابی چہرہ، کھلتا ہوا گندمی رنگ، ابھرے ہوئے رخسار، ستواں ناک، ہلکی سی لپ اسٹک لگے ہوئے گلابی ہونٹ، چہرے پر انتہائی سنجیدگی، وہ انتہائی خوبصورت اور بیش قیمت لباس پہنے ہوئے تھیں۔
صدر محفل حقوقِ نسواں پر تقریر کررہی تھیں جو اسلام نے عورت کو عطا کیے ہیں۔ وہ بڑے انہماک سے تقریر سن رہی تھیں اور گہری گہری سرد آہیں کھینچ رہی تھیں۔ تقریر میں ان کی یہ محویت مجھے ان کی طرف کھینچنے لگی۔ اختتام جلسہ پر معمولی بات چیت ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ وہ اسکول میں ٹیچر ہیں اور حقوقِ نسواں سے بڑی دلچسپی رکھتی ہیں۔ ہماری ہی گلی میں رہتی ہیں۔ میں نے انھیں اپنے یہاں آنے کی دعوت دی، جسے انھوںنے بہ خوشی قبول کرلیا۔
اب وہ اکثر دوسرے تیسرے دن پچھلے پہر شام کے بعد ہمارے یہاں آجاتی تھیں۔ ہماری دوستی گہری ہوتی جارہی تھی۔ اگر چند دن وہ نہ آتیں تو ہم بلا بھیجتے۔
کڑکڑاتے جاڑے پڑرہے تھے۔ دھوپ ہوئی تو ہم سب اپنے چھوٹے سے باغیچے میں بیٹھ جاتے۔ شام کا وقت ہوتا تو اپنے ہال کمرے میں آتش دان کے گرد کرسیاں کھینچ لیتے۔ مونگ پھلی اورگڑ من بھاتا کھاجا تھے۔ باتوں کا سلسلہ اورمونگ پھلی کی ٹک ٹک جاری رہتی۔ دنیا بھر کی باتیں ہوتیں۔ وہ سلجھا ہوا مذاق رکھتی تھیں اور ہم میں بھی کوئی خشک مزاج نہ تھا، خوب مزیدار چٹکلے ہوتے۔ کبھی معاشرے کی برائیوں پر تنقید اور اس کی اصلاح کے لیے لمبے چوڑے پروگرام بنتے بگڑتے رہتے۔ انھیں بار بار مسکرانے کی عادت تھی، لیکن ان کی آنکھیں کسی گہری سوچ میں ڈوبی رہتیں۔ کبھی اتنی گہری آہ ان کے منھ سے نکلتی کہ یوں معلوم ہوتا جیسے ان کا دل اس راستے سے باہر نکل پڑے گا۔ وہ حاضر جوابی اور بے تکلف ہنسنے ہنسانے کے بعد بھی یوں مجلس سے غیر حاضر ہوتیں گویا ان کو اپنے وجود کی بھی خبر نہیں۔ ان کی یہ سنجیدگی اور کھوئی کھوئی سی آنکھیں کسی پوشیدہ غم اور انتہائی پریشانی کی غمازی کرتی تھیں۔ لیکن انھوں نے اپنی زبان سے کبھی اظہار ہونے نہیں دیا۔
ہم سب ان کے غم کے متعلق اکثر پریشان ہوجایا کرتے۔ نہ جانے بے چاری کو کون سا غم ہے۔ ہم نے بار بار پوچھا لیکن وہ بڑی خوبصورتی سے ٹالتی رہیں۔
ایک دن ان کی آنکھوں میں خلافِ معمول آنسو دیکھ کر میں تڑپ اٹھی لیکن ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
’’زبیدہ بہن اتنے عرصے سے ہماری ملاقات ہے اور اب تو شاید ہم کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا ہونا پسند نہ کریں گے۔ اس کے باوجود میں بعض اوقات آپ کے طرزِ عمل میں ایسی بے گانگی پاری ہوں کہ مجھے بے حد رنج ہوتا ہے۔ اپنے دل کی بات ہمیشہ چھپائی ہے، آپ نے۔ بعض اوقات اپنے ہمدردوں سے دل کا راز کہنے سے فائدہ بھی ہوتا ہے اور کچھ نہیں تو غم ہی ہلکا ہوجاتا ہے۔‘‘
’’باجی! آپ کی آنکھیں بتارہی ہیںکہ آپ بہت پانی بہا کر آئی ہیں۔‘‘ رفیعہ نے کہا۔
انھوں نے پھیکی سی مسکراہٹ میں بات چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ مگر دوسرے ہی لمحے ان کی آنکھوں میں غم کے سیاہ بادل گھر آئے اور ساون بھادوں کی جھڑی لگ گئی۔ انھوں نے دونوں ہاتھوں سے منہ چھپالیا۔ جانے کب سے ضبط کررہی تھیں۔ ہمدردی کے دو بول پاکر اس کی قوتِ برداشت جاتی رہی۔ پرشور ندی کب سے رکی کھڑی تھی، ذرا سی ٹھوکر لگنے سے بند ٹوٹ گیا۔ جیسے ساز کو ہاتھ لگتے ہی غمزدہ راگ پھسل پڑے۔
ہم حیران اور ششدر ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے۔
’’ہم بہنیں کس مرض کی دوا ہیں؟‘‘ میں نے اٹھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔’’اگر آپ ہمیں اپنا راز دار بنانا مناسب نہیں سمجھتیں تو میں آپ کو مجبور نہیں کرتی۔‘‘
ان کے دل کی بھڑاس تو نکل چکی تھی۔ انھوں نے ایک سسکی لی، گہری سرد آہ بھری اور نہایت مدھم آواز میں بولیں: ’’ناحق آپ کو پریشان کیا۔ اپنا غم اپنے تک ہی محدود رکھتی تو بہتر تھا۔ مگر آپ کی شفقت اور ہمدردی نے مجبور کردیا ہے کہ آپ کو اپنا شریکِ غم بنالوں۔‘‘
انھوں نے رومال سے اپنا چہرہ صاف کیا۔ رفیعہ چائے بناکر لے آئی۔ مگر آج کا ماحول اس قدر غمزدہ تھا کہ بس چائے کی خانہ پری ہوگئی، لطف کچھ بھی نہ آیا۔ پھر انھوں نے ہلکی ہلکی سسکیوں اور آہوں کے درمیان اپنی آپ بیتی شروع کردی۔ ہم سب ہمہ تن گوش ہوگئیں۔
’’میری شادی بڑی خواہش اور چاؤ سے ہوئی تھی۔ جمیل کو پاکر اور ان کی وارفتگی کا عالم دیکھ کر میں یہ سمجھتی تھی کہ ہفت اقلیم کی دولت مجھے مل گئی ہے۔ وہ اپنی قسمت کو سراہتے کہ بڑا ہی خوش نصیب ہوں جو تم جیسی تعلیم یافتہ اور ہنر مند بیوی پائی ہے۔ میں شمع تھی وہ پروانہ۔ ہر چیز کا خود خیال رکھتے۔ پھر بھی یہ خواہش رہتی کہ کچھ فرمائش کروں۔ زندگی کے ورق پلٹتے رہے ، پلک جھپکتے دو سال بیت گئے۔ آہ دو سال کس مسرت سے معمور تھے۔‘‘ انھوں نے طویل سرد آہ بھری۔
’’وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس بہار کی تاک میں خزاں بیٹھی ہے۔ وہ زمانہ ایک خواب تھا۔‘‘
لمحہ بھر کی خاموشی کے بعد پھر بولیں: ’’شاید میں بھٹک گئی ہوں۔‘‘ انھوں نے بہتے ہوئے آنسو رومال سے صاف کیے اور سنبھل کر بیٹھ گئیں۔
’’بوبی کی پیدائش پر میں بیمار ہوگئی۔ چھ ماہ کا عرصہ اسی علالت کی نذر ہوگیا۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ بدل گئے ہیں۔ علاج تو جاری تھا مگر وہ جاں فشانی، محبت یا فکر نہ تھی، جس کا پہلے اظہار ہوتا تھا۔ بچے پر تو بہت کم ہی توجہ دیتے۔ بسا اوقات تو بچے کے لیے نفرت کا جذبہ اس انتہا کو پہنچ جاتا کہ صاف لفظوں میں کہہ گزرتے ’’اس نے میرا عیش خراب کردیا۔‘‘
میری صحت دوبارہ لوٹ رہی تھی مگر وہ دور ہوتے جارہے تھے۔ مجھ سے دور، بچے سے دور، اپنے گھر سے دور۔ میں پہلے سے زیادہ ان کی خوشنودی کا خیال رکھتی۔ مگر ان کو مجھ میں دن بدن عیب نظر آنے لگے۔ کبھی کسی بات پر ٹوکا جارہا ہے، کبھی کسی بات پر، بچے کی دیکھ بھال کی وجہ سے ان کی سیروتفریح کے پروگرام میں ساتھ نہ دے سکتی تھی۔ تو ان سے عدم توجہی کا الزام لگتا۔ نمازوں پر طعن شروع ہوا، تو پردے پر جاہلوں کی بھپتی کسی۔ ایک دن برقع پکڑ کر کسی کو دے دیا… چونکہ خاوند مجازی خدا ہے اور اس مجازی خدا کو راضی رکھنا ہی عورت کا مقصدِ حیات ہے اس لیے میں نے بھی طوعاً و کرہاً بے پردگی قبول کرلی۔ ان کا کہنا تھا کہ خاوند کے ساتھ بغیر پردے کے پھر ناکوئی منع نہیں۔ خاوند کی خوشی کے لیے عورت جان تک دے سکتی ہے۔ کچھ دن شرم آئی، رفتہ رفتہ رخصت ہوگئی۔ اور شرم کی جگہ بے باکی نے لے لی۔ پھر محض ان کی خوشی کے لیے میرے تین فٹ لمبے بال حجام کی قینچی کی زد میں آگئے۔ بالوں کے غم میں دو دن مسلسل روتی رہی۔ مجھ سے کھانا تک نہ کھایا گیا۔ ان سب چیزوں کو اختیار کرلینے کے باوجود چند دن کی خوشی کے سوا میرے حصے میں کچھ نہ آیا۔ اور وہ مجھ سے دن بدن بے پروا ہوتے چلے گئے۔ ان کا رویہ بدلا تو ساس نندیں خود بخود بدل گئیں۔ وہ ہنر اور سلیقہ جو انھیں پہلے مجھ میں نظر آتا تھا اب پھوہڑپن دکھائی دینے لگا۔ وہ برملا مجھ کو آوارہ کہتیں، حالانکہ خود دیکھ رہی تھیں کہ میں سب کچھ ان کے بیٹے کے حکم سے کررہی ہوں۔ میری زندگی سخت اجیرن ہوگئی۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں؟ تین سال اسی کشمکش میں گزرگئے۔ باپ زندہ نہ تھے ایک بھائی اور ماں تھی۔ زیادہ اداس ہوتی تو ماں کے پاس چلی جاتی۔ جب تک دل چاہتا رہتی، کوئی پیچھے بلانے والا نہ تھا۔ جب خود ہی واپس جاتی تو کوئی خوش آمدید کہنے والا بھی نہ ہوتا۔ ان کی سرد مہری بدستور تھی۔شامیں کلبوں اور رقص گاہوں میں گزار دیتے۔ جب پوچھتی تو جواب ملتا تمہارا غلام نہیں ہوں۔ رہنا ہے تو اسی طرح رہو ورنہ جہاں دل چاہے چلی جاؤ…‘‘
وہ پل بھر کے لیے رکی پھر لبوں پر زبان پھیر کر بولی:’’پہلے میں اپنے آپ کو قصوروار ٹھہراتی تھی کہ شاید میں ان کا ساتھ نہیں دے سکی۔ اس لیے انھیں بگڑنے کا موقع مل گیا ہے۔ ان کے اخلاق کی تباہی کا باعث میں ہوں۔ اگر میں خاندان کی پروا کیے بغیر ان کی بیرونی دلچسپیوں میں شریک ہوجاؤں تو وہ سنبھل جائیں گے۔ لیکن جہاں تک میں گرچکی تھی، اس سے زیادہ گرنے کی ضمیر اجازت نہیں دیتا تھا۔ پہلے ہی خدا کی حدود کو توڑ کر میں نے ان کو کون سا اپنی طرف راغب کرلیا تھا۔ سوچتی ہوں اگر یہ سب کچھ نہ کیا ہوتا تو کم از کم ضمیر کی طرف سے تو مطمئن ہوتی۔ اب اتنا آگے بڑھ گئی ہوں کہ واپس لوٹنا محال نظر آتا ہے۔ ان کا رویہ ناقابلِ برداشت ہوگیا تو میں تینوں بچوں کو لے کر ماں کے پاس آگئی۔ اب چار سال سے یہاں ہوں۔ انھوں نے کوئی خط بھیجا نہ خرچ۔ بچوں سے انھیں محبت نہیں، میری انھیں پروا نہیں۔
ہم سب اس کی داستان بڑی توجہ سے سن رہے تھے۔ مگر صفیہ کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ بہت متاثر ہے۔ رہ رہ کر اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے۔
آتش دان میں لکڑیاں چٹخ رہی تھیں۔ خون کو منجمد کرنے والی سرد ہوا سرسرارہی تھی۔ انھوں نے اپنے کندھے پر شال لپیٹ لی۔ ان کی یہ آپ بیتی ماحول کو غمگین بنائے ہوئے تھے۔ جسم کچھ سردی سے اور کچھ ان کی درد انگیز باتوں سے کپکپا رہے تھے۔
’’پھر اب کیسے گزر ہورہی ہے؟‘‘ میں نے آتش دان میں ایک لکڑی ڈالتے ہوئے پوچھا:
’’اسی لیے تو میں نے ملازمت کی ہے۔ مگر اب اس ملازمت سے دل بھرگیا ہے۔ آتے جاتے مردوں کی عجیب نگاہیں سامنا کرتی ہیں۔ پھر اسکول کے علاوہ دو جگہ ٹیوشن پڑھا کر بھی بچوں کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ بچوں کو ان کے پاس بھیج دوں۔ شاید وہ اپنا طرزِ عمل بدلنے پر مجبور ہوجائیں۔ سنا ہے کہ اب وہ دوسری شادی کا بھی سوچ رہے ہیں۔‘‘
’’یہ ٹھیک ہے باجی۔‘‘ شہناز ایک دم اچھل پڑی۔ ’’بچوں کی موجودگی ان کی دوسری شادی کے راستے میں رکاوٹ ثابت ہوگی۔‘‘
’’آپ کا فیصلہ صحیح ہے۔‘‘ رفیعہ بولی۔
’’بچوں کے بغیر آپ کیا کریں گی؟‘‘ صفیہ جو اب تک خاموش تھی نہایت غمزدہ آواز میں بولی۔
’’کچھ بھی نہیں، جہاں اتنا کچھ برداشت کیا ہے، وہاں یہ تکلیف اور سہی۔‘‘ انھوں نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا۔
’’مگر وہاں بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا۔‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’بچے کافی بڑے ہیں۔ خود اپنا خیال رکھ سکتے ہیں۔‘‘
’’نہیں زبیدہ بہن … کھانا کپڑا، پھر تعلیم کا خیال …یہ بچے نہیں کرسکتے۔ باپ کے بغیرتو وہ گزارا کرسکتے ہیں، ماں کے بغیر ان کے حلیے بدل جاتے ہیں۔‘‘ میں نے نرمی سے سمجھایا۔
’’مگر آپا، اب میں نے ان کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اور جس بات کا میں ارادہ کرلیتی ہوں اسے کوئی متزلزل نہیں کرسکتا۔‘‘ اس کے ماتھے پر نفرت کی موٹی موٹی لہریں ابھریں۔
’’اگر آپ بچوں کو لے کر گھر چلی جائیں تو کیا یہ زیادہ ناراضگی کا باعث ہوگا زبیدہ بہن؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں تو … بلکہ مجھے یقین ہے کہ اب میں جاؤں تو وہ شاید خوش ہی ہوں۔‘‘
’’پھر ہمت کریں…‘‘ میں نے پرامید ہوکر کہا۔
’’نہیں‘‘ وہ کوئلوں پر نظر جما کر بولی ’’ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ میرا وقار بھی تو کوئی چیز ہے۔ انھیں یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ کہیں ٹھکانہ نہ ملا تو پھر آگئی۔‘‘
چند لمحوں کے لیے کمرے پر سکوت ہوگیا۔ صفیہ نے ذرا جھکتے ہوئے کہا: ’’میرا خیا ل ہے کہ دو مصیبتوں میں سے ہلکی مصیبت اختیار کرلینی چاہیے۔ آپ کے الگ رہنے سے بچوں کے اخراجات اور تعلیم و تربیت کی پوری ذمہ داری آپ پر آجاتی ہے۔ دوسری صورت میں شوہر کی لاابالی طبیعت کو برداشت کرنا ہے۔‘‘
’’دراصل ایسی کمزور عورتوں نے ہی مردوں کو سر پر چڑھا رکھا ہے۔ باجی آپ ان کے بچوں کو بھیجے ان کے پاس اور خود نئی زندگی شروع کیجیے۔ آخر اسلام نے عورت کو خلع اور دوسری شادی کا حق دیا ہے۔ اس کو استعمال کریں۔‘‘ رفیعہ نے ہاتھ ہلاہلا کر تقریر جھاڑدی۔
’’واہ کیا خوب نسخہ بتایا۔‘‘ صفیہ چمک کر بولی۔
’’اس سے بہتر اور کیا علاج ہوگا۔اگر عورتیں ہمت کریں تو مردوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔ اسلام ہرگز یہ نہیں سکھاتا کہ کمزور بن کر زندہ رہو مگر آہ… مگر کمزوری بے چاری عورت کا دوسرا نام ہے۔‘‘
’’اسلام کو درمیان میں کیوں گھسیٹ رہی ہو۔‘‘ صفیہ کہنے لگی۔ اسلام کو اگر زندگیوں کا رہنما تسلیم کرلیا جائے تو ان جھگڑوں کی نوبت ہی کیوں آئے۔ میں یہ مانتی ہوں رفیعہ کہ اکثر مرد ظلم کرتے ہیں، عورتوں کی قدر نہیں کرتے۔ عورتیں چار وناچار سب کچھ برداشت کرتی ہیں، لیکن اگرعورت گھر چھوڑ دے تو اس طرح مرد کا ہاتھ ظلم سے رک نہ جائے گا۔ ایک عورت نکل گئی تو اس کے ظلم کا کوڑا دوسری عورت پر برسے گا۔ اس کا علاج تو یہی ہے کہ عورت چٹان بن جائے۔ تم حیران کیوں ہوتی ہو۔ چٹان میں سرکش لہروں، تیز و تند ہواؤں کے رخ موڑ دینے کی طاقت ہوتی ہے۔ چٹان اپنے مدمقابل آنے والے قوتوں کو پاش پاش کردیتی ہے۔ بیوی اگر اپنے ایمان واسلام پر سختی سے جمی رہے۔ ہر جائز کام میں شوہر کی اطاعت کرے غلط کاموں میں ساتھ دینے سے صاف انکار کردے، اپنی اصول پرستی میں کبھی لچک پیدا نہ ہونے دے۔ تو پھر مرد کی طاقت نہیں کہ اس پر ظلم و زیادتی کرسکے۔ اگربالفرض کر بھی لے تو کب تک؟ عورت کے مضبوط ارادے اور حسن عمل سے آخر اس کو جھکنا پڑے گا۔ اس کی متلون مزاجی تبدیل ہوکر رہے گی۔ وہ محسوس کرے گا کہ لوہا ڈھالنا آسان کام ہے، مگر اصول پرست عورت کو اپنی مرضی کے مطابق موڑنا ممکن نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی ایسا ہی انسانیت سے گرا ہوا ہو تو الگ بات ہے۔ عورت اگر خاوند کے ہر حکم کو دین و مذہب کا درجہ دینے لگی گی تو پھر مرد کا حوصلہ بڑھنے لگا اور اسے ہر قسم کی زیادتی کرنے میں کوئی باک نہ ہوگا۔ جو چاہے گا منوالے گا اور توقع کرے گا کہ اس کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پورا کیا جائے۔‘‘ صفیہ نے بڑے پتے کی بات کہی تھی۔ سب کے دل کو لگی۔ زبیدہ کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے معلوم ہورہا تھا کہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی ہیں۔
اس کے بعد زبیدہ ہمارے یہاں کبھی نہیں آئیں۔ ایک دن ہم سب ان کے گھر گئے تو وہاں تالا لگا ہوا تھا۔ ہمسایوںسے معلوم ہوا کہ وہ سامان لے کر یہاں سے جاچکی ہیں۔کہاں گئی ہیں؟ یہ کسی کو معلوم نہ تھا۔ ہم اکثر ان کے متعلق سوچا کرتے۔ مجھے یقین تھا کے اس گفتگو سے وہ ناراض ہوکر کہیں اور چلی گئی ہیں۔ اس بات کو تین سال گزرگئے۔ رفتہ رفتہ ان کی یاد بھی کم ہوتی چلی گئی۔ گھروں کے دھندوں اور دنیا کی مصروفیتوں میں کبھی کبھار زبیدہ کا ہلکا سا خاکہ ذہن کے کسی گوشے میں آجھانکتا۔ صفیہ اور شہناز بھی زندگی کے بحر بیکراں میں اتر چکی تھیں۔ رفیعہ کی تعلیم جاری تھی۔
ایک دن علی الصبح دروازے پر ایک ٹیکسی آکر رکی اور دوسرے لمحے برآمدے میں زبیدہ کو کھڑے پایا۔ وہ برقع میں ملبوس تھیں۔ نہایت شاداں و فرحاں۔ میں حیرت زدہ ہوکر ان سے لپٹ گئی۔ دونوں کی آنکھوں میں مسرت کے آنسو چھلک آئے۔
’’اے بہن زبیدہ ایسی بھی کیا بے مروتی کہ نہ آپ نے جاتے وقت بتایا نہ کبھی اپنی خیریت کی اطلاع بھیجی۔ صفیہ آپ سے معانی مانگنے کے لیے اب تک بے چین ہے۔ ہم سب کو یہ خیال کھائے جارہا تھا کہ آپ کے دکھے دل کو ایسی باتیں ضرور ناگوار گزری ہوں گی۔‘‘ میں نے چھوٹتے ہی معافی مانگی۔
’’معافی کیسی؟‘‘ زبیدہ نے میرے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’تو بہ کریں کیسے الفاظ نکال رہی ہیں۔ میں تو آپ سب کی عموماً اور صفیہ بہن کی خصوصاً شکر گزار ہوں۔ وہ تو میری محسن ہیں۔ میں یہ کس طرح بھول سکتی ہوں کہ آپ لوگوں کا ایک ایک لفظ میری تاریک زندگی میں مشعل راہ ثابت ہوا۔ میرے اندر ایک نئی زندگی نے جنم لیا۔ میں نے دل میں ٹھان لیا کہ مایوس ہوکر غلط راہ پر چلنے کے بجائے زمانے کے حادثات کے ہر تھپیڑے کا مقابلہ کروں گی۔ آپ بہنوں کی بدولت تو میرا اجڑا ہوا گھر پھر سے جہنم کی زندگی سے جنت کی طرف پلٹا۔ خزاں کے بعد دوبارہ بہار دیکھی۔‘‘
’’آپ کے یہاں سے جاتے ہی میں نے تہیہ کرلیا کہ جھوٹی عزت دیکھنا غلط ہے۔ میں دوسرے ہی دن حیدرآباد چلی گئی۔ بن بلائے… اگرچہ گھر میرا اپنا تھا، پھر بھی ایسے جاتے ہوئے دل میں رہ رہ کر خیال آتا تھا کہ کیسی بے عزتی کی بات ہے، مگر جب دل میں کچھ کرنے کا پختہ عزم کرلیا تو خدا نے بھی پہلے قدم پر کامیابی عطا کردی۔ بغیر اطلاع دیے پہنچی تھی۔ میرے اس طرح اچانک چلے جانے سے بڑا اچھا اثر پڑا۔ جمیل شاید غلط روی کا تلخ تجربہ دیکھ چکے تھے۔ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ رفتہ رفتہ راہ راست پر آنے لگے۔ اور اب حالات ہی نہیں بدلے، ان کے خیالات بھی بدل گئے ہیں۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ اگر اس دن یہ باتیں نہ ہوئی ہوتیں تو مجھے سیدھا راستہ نظر نہ آتا اور جیسی کہ افواہ تھی، اگر جمیل دوسری شادی کرلیتے تو پھر خدا جانے اپنی تباہی کے ساتھ ساتھ بچوں میں سے کس کس کی بربادی کا وبال میرے سر ہوتا۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146