الحمدللہ ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے بہترین امت قرار دیا۔ ہمیں نبی ﷺ کے ذریعے زندگی گزارنے کے طریقے بتائے۔ زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کے بارے میں ہمیں ہدایت نہ دی گئی ہوں۔ ہم مسلمان ہیں، ایک مسلمان کو کیسا ہونا چاہیے، ہمیں بتلایا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ مومن بندوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب ان کو غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں۔‘‘ یعنی جب کوئی ہمارے ساتھ برا سلوک کرے یا کوئی ایسی بات کہہ دے جس کو سن کر ہمیں غصہ آجائے، یا کوئی ہمیں ایسی تکلیف پہنچائے جو ہماری انا کو بھڑکانے والی ہو، اُس وقت ایک اچھا مومن وہ ہوتا ہے، جو درگزر کا طریقہ اختیار کرے اور غصے کا جواب معافی سے دے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ دوسرا آپ کو غصہ دلائے، تب بھی آپ غصہ نہ ہوں۔ اپنی زبان کو قابو میں رکھیں اور نرمی کا رویہ اختیار کریں۔ نبی ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ’’حضرت موسیٰؑ نے خدا سے پوچھا : اے میرے رب! آپ کے نزدیک آپ کے بندوں میں کون سب سے پیارا ہے؟ خدا نے جواب دیا: وہ جو انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے۔‘‘
اگر ہماری کسی سے ناراضگی ہوجائے، ہم نے کسی کو تکلیف پہنچائی ہو یا کسی نے ہمیں تکلیف پہنچائی ہو تو ہمیں فوراً معافی مانگ لینی چاہیے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، کیاپتا اگلا لمحہ زندگی کا ہے یا موت کا۔
نبی ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے:’’لوگوں کے اعمال ہر پیر اور جمعرات کو یعنی ہفتے میں دو روز پیش ہوتے ہیں اور ہر مومن کو بخش دیا جاتا ہے سوائے اس کے جس کے دل میں اپنے مومن بھائی سے کوئی عداوت ہو۔ کہا جاتا ہے: ان کو چھوڑ دو تاکہ یہ آپس میں صلح کرلیں۔‘‘
صلح صفائی میں کبھی دیر نہیں کرنی چاہیے۔ جتنی زیادہ دیر ہوگی اتنی یہ خرابی بڑھتی جائے گی اور دلوں میں دوری پیدا ہوجائے گی۔ اگر کوئی ہمارا دوست اپنی غلطی کی ہم سے معافی مانگے تو دل سے معاف کردینا چاہیے۔ دل میں اس کے لیے برائی نہیں رکھنی چاہیے۔
ایک حدیث کا مفہوم ہے:’’جس نے کسی مسلمان بھائی سے اپنی غلطی پر عذر کیا اور اس نے اس کو معذور نہ سمجھا، اس کے عذر کو قبول نہ کیااس پر اتنا گناہ ہوگا جتنا ایک ناجائز محصول وصول کرنے والے پر اس کے ظلم و زیادتی کا گناہ ہوتا ہے۔‘‘
ایک مرتبہ ایک دیہاتی مدینہ آیا، وہ مسجدِ نبوی میں داخل ہوا، جہاں رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ موجود تھے۔ وہ مسجد کے اندر کھڑا ہوکر پیشاب کرنے لگا۔ لوگ اس کو مارنے کے لیے دوڑے، مگر آپ ﷺ نے منع فرمادیا۔ آپ نے فرمایا: ’’دیہاتی کو چھوڑ دو، اور ایک ڈول پانی لاکر وہاں بہادو۔‘‘ چنانچہ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ دیہاتی پر اس واقعہ کا بہت اثر ہوا اس نے قبیلے میں جاکر لوگوں کو بتایا کہ اس نے کیا حرکت کی تھی اور نبی ﷺ نے اس ردِ عمل کا اظہار کیاکہ مسجد میں پیشاب کرنے پر بدلہ نہ لیا، بلکہ معاف کردیا۔ آپ نے نہ ہی اس کو برا بھلا کہا اور نہ جھڑکا۔ جب قبیلے کے لوگوں نے یہ بات سنی تو بہت متاثر ہوئے اور پورے کا پورا قبیلہ اسلام میں داخل ہوگیا۔
آزما کر دیکھئے، معاد کردینے سے نہ صرف اللہ خوش ہوتا ہے بلکہ ہمارے دلوں کو بھی خوشی ملتی ہے اور زندگی میں سکون بھی آجاتا ہے۔
—