قبیلہ اراش کا ایک شخص مکہ میں اپنے اونٹ بیچنے کے لیے لایا۔ ابوجہل نے اس سے سارے اونٹوں کا سودا کرلیا۔ اونٹ قبضے میں کرنے کے بعد ابوجہل نے قیمت ادا کرنے میں ٹال مٹول کردی۔ اراشی کئی روز مکے میں ٹھہرا رہا، مگر ابوجہل برابر حیلے بہانے کرتا رہا۔ جب اراشی تنگ آگیا تو اس نے ایک روز حرمِ کعبہ میں پہنچ کر قریش کے سرداروں کو اپنی بپتا سنائی اور فریاد کی کہ میری رقم ابوجہل سے دلوادو۔ میں ایک غریب الوطن مسافر ہوں ، خدا را میری مدد کرو۔ اتفاق کی بات جس وقت وہ قریش کے سرداروں سے فریاد کررہا تھا، اللہ کے رسول ﷺ حرمِ کعبہ کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے۔ سردارانِ قریش کو شرارت سوجھی اور بولے: بھائی ہم اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے، ہاں دیکھو، حرمِ کعبہ کے اس گوشے میں وہ جو صاحب بیٹھے ہیں بڑے با اثر ہیں، ان کے پاس جاؤ اور ان کے سامنے اپنا مقدمہ رکھو، وہ ضرور تمہاری رقم دلوادیں گے۔
سردارانِ قریش نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مسکرادیے کہ اب مزہ آئے گا۔ وہ ابوجہل کو محمد ﷺ سے الجھا کر لطف لینے کے خواہش مند تھے۔ مظلوم اراشی اپنی فریاد لے کر اللہ کے رسولﷺ کے پاس گیا، آپ کو سارا ماجرا سنایا اور درخواست کی کہ ابوجہل سے میری رقم دلوادیجیے۔ یہ ظالم کئی روز سے ٹال مٹول کررہا ہے اور میں یہاں بے یار و مددگار ہوں، کوئی نہیں جو میرا ساتھ دے سکے۔
اللہ کے رسول ﷺ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اراشی کے ساتھ سیدھے ابوجہل کے مکان پر پہنچے، باہر سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ابوجہل نے اندر سے پوچھا: کون؟ آپ نے فرمایا: محمد! ابوجہل حیران ہوکر نکل آیا اور خدا کے رسول کو دیکھ کر اس کا رنگ فق ہوگیا۔ آپ نے رعب دار آواز میں کہا: تم نے اراشی سے اونٹ خریدے ہیں، فوراً اونٹوں کی رقم لاکر اس شخص کو دے دو۔‘‘
ماہِ ربیع الاول کا نام آتے ہی ذہن نبی کریم ﷺ کے یومِ پیدائش کی طرف جاتا ہے۔ شہر کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے، ہر گلی کوچے میں سبز جھنڈوں کی بہار نظر آتی ہے۔ نعتوں کی آوازوں سے سماں بندھا ہوتا ہے۔ مگر دل تو ویسے ہی پژمردہ اور چہرے بے رونق ہی نہیں مضمحل بھی… درودیوار آہ و فغاں کرتے ہوئے، انسانیت سسکتی ہوئی، بلکتی ہوئی۔ آدمی آدمی سے ملتا ہے، دل مگر کم کسی سے ملتا ہے۔
مسائل کا انبار ہے، حل کسی کے پاس نہیں۔ عوام الناس کی اکثریت بنیادی ضروریات کی محرومی کا شکورہ کرتی ہے تو ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو عیش و عشرت، لہو ولعب اور اللوں تللوں میں مگن ہے۔
یہ سب اس لیے کہ ہم بھول گئے کہ نبی کریم ﷺ کی دعوت پر ایمان لانے والوں اور آپ ﷺ کے جھنڈے تلے کھڑے ہونے والوں نے کلمے کو محض ایک ورد یا نعرہ نہیں بنالیا تھا بلکہ اس کلمے سے انھوں نے اپنی زندگیوں کا پورا نقشہ بدل ڈالا تھا۔ ان کے سوچنے کے انداز، پسند ناپسند کے معیار بدل گئے، ان کے مشاغل اور دوستیاں بدل گئیں۔ بت پرستی چھوڑ دی، اپنے نفس کی خواہشات کی غلامی چھوڑدی، لذات اور تعیشات سے پوری طرح اجتناب برتنے لگے۔ جن چیزوں کو اللہ اور رسولﷺ کی طرف سے لازم قرار دیا گیا ان کو سچے دل سے اختیار کیا، اور پھر کبھی روگردانی نہ کی، اورجن چیزوں کو ناجائز ٹھہرایا گیا، ان سے کنارہ ابوجہل کچھ کہے بغیر سیدھا گھر میں گیا اور رقم لاکر خاموشی کے ساتھ اراشی کے ہاتھ پر رکھ دی۔
قریش کے سرداروں نے اراشی کو حضرت محمد ﷺ کی طرف متوجہ کرکے ایک آدمی کو پیچھے پیچھے بھیج دیا کہ جو کچھ گزرے وہ اس کی خبر ان کو لاکردے۔ قریش کے اس مخبر نے یہ ساری روداد سردارانِ قریش کو آکر سنائی۔ اس نے بتایا کہ آج میں نے عجیب معاملہ دیکھا، جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ابوجہل گھر سے باہر نکلا، تو محمد ﷺ کو دیکھ کر اس کا رنگ اڑگیا۔ اور جب محمد ﷺ نے اس سے کہا کہ اس اراشی کو رقم لاکر دے دو،تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ابوجہل کے جسم میں جان ہی نہیں ہے۔ وہ بغیر کچھ کہے خاموشی سے گھر کے اندر گیا او ررقم لاکر اس شخص کے ہاتھ پر رکھ دی۔ قریش کے سرداروں کو حیرت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا۔ انھوں نے ابوجہل کو بہت ملامت کی کہ بڑا بزدل نکلا۔ ابوجہل نے کہا: کم بختو! تمھیں کیا بتاؤں کہ مجھ پر کیا گزری ہے، جس وقت اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور میں نے اس کی آواز سنی تو اس کی ہیبت اور رعب سے میری کچھ ایسی حالت ہوگئی جیسے کوئی بے جان پتلا ہو،اور بے اختیار لرزتے کانپتے میں نے وہ سب کچھ کیا، جس کی تمھیں خبر لانے والے نے خبر دی۔
——