عام طور پر تکبر بھی فطرتِ انسانی کو لاحق بیماریوں میں سے ایک بیماری تصور کی جاتی ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ یہ بہت بڑی بلکہ سب سے بڑی روحانی بیماری ہے۔ اس مرض میں مبتلا ہوجانے کے بعد انسان، انسان نہیں رہتا۔ یہی وہ لعنت ہے جو خون کے ایک لوتھڑے سے بنے ہوئے اس بے بس انسان کو اپنے رب کے مقابلے میں لاکھڑا کرتی ہے۔ آدم کے آگے سجدہ کرنے سے ابلیس کے انکار کی وجہ اس کے تکبر کے سوا کچھ نہ تھی اور یہی لعنت تھی، جو اسے اللہ کے مقابلے میں لے آئی اور یہی تکبر تھا، جس کی وجہ سے فرعون رہتی دنیا تک کے لیے نمونۂ عبرت بن گیا۔
تکبر کی بیماری جتنی زیادہ تباہیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے، اسی قدر انسان کو اس کے لگ جانے کا امکان بھی ہر وقت موجود رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن بار بار اس سے بچنے کی تلقین کرکے ا نسان کو اس کی اصل حیثیت بتاتا ہے۔ انسان کو اس بیماری کے لگ جانے کے زیادہ سے زیادہ امکان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خودی (انا) اور تکبر کے بیچ ایک انتہائی باریک پردہ حائل ہے، اور بسا اوقات خودداری کے تکبر میں بدلتے دیتے نہیں لگتی۔ بہرحال یہ مرض جس راستے سے بھی داخل ہو، وہ انسان کو حیوان بناکر رکھ دیتا ہے۔ یہ وہ مرض ہے جو عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور جو آنکھ، کان رکھنے والے انسان کو اندھا اور بہرہ بنادیتا ہے۔ ابوجہل کی مثال لے لیجیے کہ اللہ کے رسول ﷺ جیسی ہستی سامنے ہے، لیکن اس کے تکبرنے اس کی عقل پر پردہ ڈالے رکھا۔ وہ مجسم حق دیکھ سکا نہ اس کے کانوں کو حق سننے کی توفیق نصیب ہوئی۔ اس کے برعکس ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم نے اس بیماری کو اپنے قریب نہ آنے دیا تو دنیا و آخرت میں عزت و تکریم کی علامت قرار پائے۔ آپ تاریخ کے اوراق کی جتنی بھی گردان کریں گے، وہ تکبر کے بارے میں انھی حقائق کی یاددلاتی رہے گی۔
تکبر کی کئی اقسام ہیں۔ عام طور پریہ خیال کیا جاتا ہے کہ صرف طاقت و اختیار کی بنیاد پر تکبر کیا جاتا ہے، لیکن یہ تکبر کی صرف ایک قسم ہے۔ یہ جو دعوے ہورہے ہیں کہ میں یہ کردوں گا اور ایسا نہیں کرنے دوں گا۔ یہ سب اسی نوع کے تکبر کے مظاہر ہیں۔ لیکن تکبر کی اور بھی بہت ساری قسمیں ہیں۔ تکبر کے مرض میں وہ لوگ بھی مبتلا ہیں،جنھیں طاقت واقتدار حاصل نہیں۔ مثلاً بعض لوگ عوامی مقبولیت کے تکبر میں مبتلا ہیں۔ بعض لوگوں کو اللہ نے لکھنے پڑھنے کی اچھی صلاحیت دے رکھی ہوتی ہے تو وہ اس پر تکبر کا اظہار کررہے ہیں۔ ہمارے بعض شاعر اور ادیب حضرات کو خصوصاً تکبر کا یہ عارضہ لاحق ہے۔ بعض لوگ اپنی ذہنی صلاحیتوں کی بنا پر تو بعض تعلقات کی کثرت کی وجہ سے تکبر کے مرض کاشکار ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگوں میں یہ بیماری ان کے خاندان یاذات کی وجہ سے سرایت کرجاتی ہے۔ تکبر کی اسی طرح کی اور بھی سیکڑوں بنیادیں بیان کی جاسکتی ہیں، لیکن اس کی ایک انتہائی بھیانک شکل مذہبی اور علمی تکبر ہے۔ یہ جو روش چل نکلی ہے کہ دین کی صرف وہی تعبیر و تشریح درست ہے،جس کو میں بیان کررہا ہوں۔ یہ جو کہا جارہا ہے کہ میں یا میری جماعت ہی مسلمان ہے اور دوسروں کو حقارت کی نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ یہ کسی دینی یا سیاسی رائے سے اختلاف کرنے والوں کے ایمانوں کو مشکوک قرار دیا جارہا ہے۔ یہ جو اپنی رائے کی غلطی کو تسلیم نہیں کیا جارہا ہے اوراپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی ہے۔ یہ سب اسی علمی اور مذہبی تکبر کے مظاہر ہیں۔ بہرحال تکبر جیسا بھی ہو اور جس بھی شکل میں ہو، انسان کے روحانی اور اخلاقی وجود کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ اس کا محرک قوت و اختیار ہو، ذہنی وجسمانی صلاحیت ہو، خاندانی پس منظر ہو، شکل و صورت ہو، تعلقات کی کثرت ہو، عوام میںمقبولیت ہو، دین کا علم و فہم ہومال دودولت یا عہدے اور مرتبے کا زعم ہو، یا کچھ اور ، ہر صورت میں یہ انسان کو اپنے رب کے مقابلے میں لاکھڑا کردیتا ہے اور اس سے ہر وقت اپنے رب کی پناہ مانگنی چاہیے۔ اس سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی اللہ کے آگے اپنے عجز کا ادراک اور اعتراف کرلے۔ یہ نماز، یہ روزے، یہ حج، یہ عبادات سب اس عجز کی یاددہانی کے لیے ہیں۔انسان ایک لمحے کے لیے رحم مادر اور قبر کو خیال میں لے آئے تو وہ ’’میں میں ہوں‘‘ کی بجائے پکار اٹھے گا کہ ’’میں اللہ کا عاجز بندہ ہوں اور بس۔‘‘ لیکن مصیبت یہ ہے اور یہ واقعی ایک بڑی مصیبت ہے کہ تکبر کی بیماری سب سے پہلا وار دماغ و عقل پر کرتی ہے۔ یہ انسان کو دیوانہ بنادیتی ہے اور جس طرح دیوانے کو اپنے دیوانہ ہونے کا نہ احساس ہوتا ہے اور نہ کبھی وہ اس کا اقرار کرتا ہے۔ بعینہٖ تکبر کے مرض میں مبتلا لوگ اپنے آپ کو متکبر سمجھتے نہیں ہیں۔ وہ یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے کہ وہ تکبر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ یہ وہ مرض ہے جو بڑھتا جاتا ہے، لیکن مریض کو نہ اپنی علالت کا احساس ہوتا ہے، نہ وہ اس کے اثرات کو محسوس کرسکتا ہے۔ ہاں، البتہ ایک چیز ایسی ہے جو مریض کو اس مرض کا احساس دلا بھی سکتی اور اس کا علاج بھی کراسکتی ہے۔ وہ ہے اللہ کی پاک کتاب قرآنِ مجید۔ اس سے رجوع کرکے ہر شخص اس بیماری سے نجات پاسکتا ہے۔
——