مجھے ڈاک سے ایک خاتون کا خط ملا۔ اس خاتون نے اپنا نام نہیں لکھا تھا۔ لیکن اس کے طرزِ تحریر سے یہ بات ظاہر ہورہی تھی کہ وہ کوئی پڑھی لکھی اور مہذب خاتون ہے اس نے خط میں متعدد چیزوں کے بارے میں اظہار رائے کیا تھا۔ اور مختلف تجویزیں پیش کی تھیں۔ منجملہ ان باتوں کے جو اس نے مجھ کو لکھی تھیں، ایک بات یہ بھی تھی کہ ’’ذرا اس تنگ و تاریک زندگی کو بھی دیکھئے جو عرب عورت بسر کررہی ہے۔ اور مغربی عورت کی خوش حال زندگی بھی ملاحظہ کیجیے، یہ کس قدر خود مختار و خوش حال ہے ، اور وہ کس قدر قیدوبند میں ہے اور دوسروں کی محتاج ہے۔
خط کی اس عبارت نے مجھے چونکا دیا اور میں اس کے بارے میں سوچنے لگا اور اس کو جواب لکھنے کا عزم میرے دل میں پیدا ہوا تاکہ میں اس غلط فہمی کا ازالہ کرسکوں۔ لیکن جونہی جواب لکھنے بیٹھا مجھے یاد آیا کہ اس کا نام وپتہ تو مجھ کو معلوم ہی نہیں ہے۔
اس وقت میں نے فیصلہ کیا کہ اس مضمون کو اس کے خط کا جواب بناؤں گا۔
اس خاتون کو جو غلط فہمی ہوئی بالکل اسی غلط فہمی میں بہت سی خواتین مبتلا ہیں۔ لیکن وہ اس کو غلط فہمی یا دھوکا نہیں سمجھتیں، بلکہ اس کو ایک حقیقت اور حقیقت سے بھی زیادہ یقینی چیز تصور کرتی ہیں۔ اس کا سب سے بہتر اور مختصر و بامعنی جواب تو وہی ہے جو اس امریکن خاتونے شیخ بہجۃ البیطار (شام کے ایک مشہور و محقق عالم جو دمشق میں مقیم ہیں) کو دیا تھا۔
مجھ سے شیخ بہجۃ البیطار نے بیان کیا کہ انھوں نے امریکہ میں، مسلمان عورت کے موضوع پر ایک لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری شریعت میں اس کو مالی معاملات میں حق خود مختاری حاصل ہے۔ چنانچہ اس کے مال میں ا س کے شوہر حتیٰ کہ اس کے باپ کو بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اگر عورت تنگ دست اور پریشان حال ہو تو اس کے تمام اخراجات کا کفیل اس کے باپ یا بھائی کو ہونا پڑے گا اور اگر اتفاق سے اس کا باپ یا بھائی موجود نہ ہو تو اس کے عزیزوں میں سے کوئی بھی اس کے کھانے کپڑے کا خرچ برداشت کرے گا، خواہ وہ عزیز اس کا چچا زاد بھائی ہو یا کوئی اور۔ اور جب تک اس کی شادی نہ ہوجائے یا کہیں کوئی مال و دولت، اس کے ہاتھ نہ آجائے، وہ برابر اس کی کفالت کرتا رہے گا اور شادی کے بعد پھر اس کا شوہر اس کے تمام اخراجات کا ذمہ دار ہوگا۔ چاہے وہ شوہر ایک غریب مزدور ہی کیوں نہ ہو۔ اور بیوی کروڑ پتی۔
لیکچر ختم ہونے کے بعد ایک امریکن خاتون جو وہاں کی ایک مشہور ادیبہ تھی، کھڑی ہوئی اور اس نے کہا کہ اگر آپ کے مذہب میں یہی حقوق حاصل ہیں جو آپ بیان کررہے ہیں تو پھر مجھے اپنے یہاں لے چلئے میں وہاں رہ کر صرف چھ مہینے زندگی بسر کروں گی۔ اس کے بعد مجھ کو قتل کردیجیے جب بھی مجھے کوئی حسرت نہ ہوگی۔
شیخ کو اس بات پر بڑی حیرت ہوئی اور فرمایا کہ ’’کیا بات ہے خیریت تو ہے‘‘
تب اس نے اپنا حال اور وہاں کی لڑکیوں کا حال کہہ سنایا جس سے معلوم ہوا کہ امریکن عورت بظاہر آزاد باعزت ہے۔ لیکن وہ سخت قید و ذلت میں اپنی زندگی بسر کررہی ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں اس کی تعظیم کی جاتی ہے لیکن اصل چیز میں وہ ہر جگہ ذلیل وخوار ہے۔
چنانچہ امریکن مرد عورت کا ہاتھ ا س کے موٹروں سے اترتے وقت بڑی عزت سے تھامتے ہیں، اور ملاقاتوں کے وقت اس کو کمرے میں داخل ہونے کے لیے پہلے بڑھاتے ہیں اور اکثر ٹرام اوربسوں میں اس کے بیٹھنے کے لیے جگہ خالی کردیتے ہیں اور خود کھڑے ہوجاتے ہیں، سڑکوں پر اس کو گزرنے کے لیے راستہ دیتے ہیں لیکن وہ لوگ ان تمام باتو ںکے مقابلہ میں اس کے ساتھ ناقابلِ برداشت بدسلوکی بھی کرتے ہیں۔
ان کے یہاں جب لڑکی بالغ ہوتی ہے تو اس کا باپ اس کے اخراجات سے اپنا ہاتھ سمیٹ لیتا ہے اور اپنے گھر کا دروازہ اس کے لیے بند کردیتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ اب تم خودکماؤ اور کھاؤ۔ ہمارے یہاں اب تمہارے لیے کچھ نہیں ہے۔ وہ غریب مجبوراً گھر سے نکل جاتی ہے اور زندگی کی ساری سختیاں اس کے سامنے ہوتی ہیں۔ دربدر کی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے، لیکن والدین کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ وہ زندگی کس طرح بسر کررہی ہے۔ محنت کرکے کھاتی کماتی ہے یا جسم بیچ کر اپنا پیٹ بھرتی ہے وہ کبھی اس سے نہیں پوچھتے کہ وہ اپنے ہاتھوں کی محنت سے روٹی کھارہی ہے یا اپنے نرم و نازک جسم کی کمائی سے اور یہ بات صرف امریکہ میں نہیں ہے بلکہ سارے مغربی ممالک کا یہی حال ہے۔
میرے استاد ڈاکٹر یحییٰ شماع نے آج سے ۳۳ سال قبل جب وہ پیرس سے اپنی تعلیم ختم کرکے آئے تھے مجھ سے بیان کیا کہ وہ اس وقت وہاں اپنے ٹھہرنے کے لیے ایک کمرہ کی تلاش میں ایک مکان پر پہنچے، جہاں ایک کمرہ خالی تھا، تو مکان کے دروازے سے ایک لڑکی نکلتی ہوئی ان کو ملی۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر یحییٰ نے مکان کے مالک سے اس کے رونے کا سبب پوچھاتو اس نے بتایا کہ یہ ہماری لڑکی ہے۔ اب یہ ہم سے الگ رہتی ہے۔ انھوں نے پوچھا کہ یہ کیوں رورہی ہے؟ اس نے کہا کہ ہمارے یہاں ایک کمرہ کرایہ پر لینے آئی تھی، اور ہم نے اس کو دینے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا کہ یہ اس کمرہ کا کرایہ بیس فرنک (دس آنے کے برابر ایک سکہ) دے رہی ہے اور دوسرںسے ہم کو اس کا کرایہ تیس فرنک مل رہا ہے۔
اگر آپ کو اس واقعہ کی صداقت میں کوئی شک ہو اور شک ہونا بھی چاہیے اس لیے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہمارے آپ کے لیے بالکل نئی اور انتہائی تعجب خیز ہے اس لیے اگر کسی کو اس قصہ کی سچائی میں کوئی شبہ ہو تو وہ ڈاکٹر یحییٰ شماع کو خط لکھ کر یا ان سے مل کر دریافت کریں۔ وہ آپ کو یقین دلادیں گے کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے اس قصہ کو کس طرح دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا۔
اس طرح کے بہت سے قصے ہم نے اپنے دوستوں سے سنے ہیں جو یورپ و امریکہ میں کچھ دن رہ کر آئے ہیں۔
وہاں عورت اس طرح ذلیل و خوار ہوچکی ہے کہ وہ اپنی سب سے قیمتی چیز یعنی آبرو، سب سے زیادہ سستی چیز یعنی روٹی حاصل کرنے کے لیے بے دریغ ضائع کردیتی ہے۔
مشرقی عورت نے اپنی حفاظت کی تو اس کی عزت ہوئی اس نے اپنے آپ کو پہچانا تو ہر جگہ مطلوب بنی۔ لیکن مغربی عورت نے اپنے آپ کو ہر جگہ پیش کیا تو وہ ذلیل و رسوا ہوئی۔
ذرا عرب کے قدیم شاعروں کے قصے پڑھئے، کبھی عورت کی ہتھیلی یا کلائی کا کوئی حصہ ان کو نظر آجاتا تو ان کے سر چکراجاتے اور ان کے جسم میں جھرجھری سی پیدا ہوجاتی اور ان کے دل محبت کے جذبات سے لبریز ہوجاتے۔ ان کی زبانوں سے اشعار کی بارش شروع ہوجاتی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عورت اس وقت پردہ نشین اور محفوظ تھی۔ لیکن آج مغربی عورتوں کو ہر شخص سڑکوں پر ننگے بازوؤں کھلے سینوں اور پیٹھوںکے ساتھ دیکھتا ہے بلکہ سمندر کے ساحلوں پر نیچے سے اوپر تک اس کو عریاں دیکھتا رہتا ہے اس لیے اب وہ اس کی پنڈلیاں دیکھتا ہے تو اس کے دل میں کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور اس کے جذبات بالکل خاموش رہتے ہیں اور جیسے وہ کوئی مردہ چیز دیکھ رہا ہے۔ گویاعورت کی پنڈلی اور کرسی کے پائے اور دروازے کے بازو میں کوئی فرق نہیں رہا۔
اب ذرا سوچئے ان کے یہاں نکاح و شادی کے معاملات بالکل نظر انداز ہوگئے۔ آپ کو معلوم ہے کہ نکاح ایک دائمی رشتہ ہے، جس سے ہر شخص بغیر کسی جبر کے وابستہ ہوتا ہے اور جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی انسانی ضرورتوں کو پورا کرسکے، لیکن یہ انسانی ضرورت بغیر شادی کے پوری ہوسکتی ہو تو کوئی کیوں خود کو نکاح و شادی کے بندھن میں باندھے۔
مغربی عورت جہاں شوہر سے محروم ہے وہیں اولاد سے بھی محروم ہے۔ اس لیے وہ ہر جگہ کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کارخانوں میں، کھیتوں میں اور سڑکوں پر جھاڑو دیتے ہوئے۔ ہمارے دوستوں نے یورپ میں ایسی عورتوں کو دیکھا جو شہر کے عام پاخانے صاف کرتی ہیں اور بعض عورتیں تو وہاں ایک بکس لیے فٹ پاتھوں پر جوتوں کو پالش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
اس دیار کی عورت کا یہی مرتبہ ہے جب کہ مشرقی عورت اپنے گھر میں بیٹھ کر آرام کرتی ہے اور شوہر اس کے لیے دن بھر محنت و مشقت کرتا ہے۔
ہمارے یہاں جب لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو شوہر اس کو ایک بڑا ہدیہ پیش کرتا ہے جس کو ہماری شریعت میں مہرکہتے ہیں وہ صرف بیوی کا حق ہے۔ باپ بھائی یا کسی اور کو اس مال میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنے کا حق نہیں۔
لیکن مغربی عورت اس کے برعکس مرد کے پیچھے پیچھے دوڑتی ہے اور اس راہ میں پچاسوں ٹھوکریں کھاتی ہے، کبھی کبھی اس کے پیچھے ہلاک تک ہوجاتی ہے اس کے بعد بھی اگر مرد اس سے شادی کرنے پر راضی ہوگیا تو جب تک وہ اس کو ایک رقم پیش نہ کرے، شادی نہیں کرسکتا۔ یعنی عورت مرد کو جب تک مہر نہ دے اس وقت تک وہ اس سے شادی نہیں کرسکتا اور اس مال کا تنہا مرد مالک ہوتا ہے۔ پھر دونوں مل کر اس کو خرچ کرسکتے ہیں، حالانکہ ہماری شریعت میں عورت کو مہر کے مال میں مکمل اختیار حاصل ہے وہ جہاں چاہے اس کو خرچ کرے۔
کہنے والے کہیں گے کہ یہ کسی زمانے میں ہوتا ہوگا لیکن آج تو خود ہمارے یہاں بھی شادی و نکاح کی کساد بازاری ہے اور بیشمار لڑکیاں گھروں میں بیٹھی ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ بات بالکل صحیح ہے، لیکن ایسا کیوں ہوا؟
اس لیے ہوا کہ ہم نے ان فرنگیوں کی تقلید شروع کی اور جن چیزوں کو خود پسند نہیں کرتے اور اس سے دور رہنا چاہتے ہیں، ہم نے اس کو پسند کیا اور اس کی طرف دوڑے اور ایسا، اس لیے بھی ہوا کہ انگریزوں کی غلامی کے زمانے میں ہم بالکل غفلت کی نیند سورہے تھے۔ جس نے ہمارے دلوں میں یہ بات جمادی کہ انگریز ہی ترقی یافتہ اور آگے بڑھی ہوئی قوم ہے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں وہی درست اور حق ہے۔ اس لیے ہر معاملہ میں ہم ان کی تقلید کرتے رہے۔
لیکن کیا عربوں کی طبیعت ان تمام تقلیدوں کو گوارا کرسکتی ہے۔ جب کہ عرب عزت و آبرو کے معاملہ میں دنیا کے سب سے زیادہ غیرت دار لوگ تھے۔ یہاں تک کہ یہ لوگ اپنی لڑکیوں کو عار کی وجہ سے زندہ دفن کردیتے تھے۔ کیا کوئی عرب اس بات کو گوارا کرسکتا ہے کہ وہ کسی جلسہ میںہو اور ایک شخص اس کے پاس آکر کہے کہ ذرا مجھ کو موقع دیجیے۔
وہ کس بات کا موقع مانگ رہا ہے؟ کیا اس بات کا کہ وہ اس کی گھڑی سے وقت معلوم کرنا چاہتا ہے یا اس کی ماچس سے اپنی سگریٹ جلانا چاہتا ہے؟ نہیں بلکہ موقع اس بات کا دے کہ وہ اس کی بیوی کو اپنے ساتھ لے کر رقص کرائے۔
دنیا میں کوئی عرب ایسا نہیں مل سکتا جو اس ذلت کو گوارا کرسکے اور نہ کوئی مسلمان اس چیز کو برداشت کرسکتا ہے، بلکہ کوئی خوددار شخص اس کو کبھی پسند نہیں کرسکتا۔ حتی کہ جانور بھی سوائے خنزیر کے اس بات کو پسند نہیں کرسکتا۔
یہی مغربی عورتوں کا حال ہے اور اس کے بعد بھی کیا وہ خوشحالی میں ہیں، جس کی وجہ سے ہم ان چیزوں کی تمنا کریں جو ان کے پاس ہیں۔
آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ اس امریکن عورت نے شیخ بیطار سے کیا کہا تھا۔ بالکل یہی بات ہر جرمن اور فرانسیسی عورت کہہ سکتی ہے۔ کیا آپ کو اس بات کا غصہ ہے کہ ہماری شریعت میں عورتوں کو مردوں سے نصف میراث ملتی ہے اور مردوں کو کئی شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔
آئیے ذرا امریکن عورتوں سے پوچھئے کیا وہ مردوں کی آدھی میراث لینے کو تیار نہیں اور صرف مرد کو اپنے نان ونفقہ کا ذمہ دار ہونا پسند نہیں کرتیں؟
جرمن عورتوں سے پوچھ لیجیے۔ خصوصاً اس آخری جنگ کے بعد کیا وہ تمنا نہیں کرتی ہیں کہ ان میں دس دس عورتوں کا ایک ایک شوہر ہوجو انصاف سے پیش آئے اور اس کے سوا وہاں عورتوں کی زیادتی کا علاج ہی کیا ہوسکتا ہے۔
میری عزیز بہنو! تم یہ نہ سمجھو کہ مغرب کی عورتیں تم سے زیادہ خوش قسمت وباعزت ہیں۔ نہیں خدا کی قسم دنیا میں ہماری عورتوں سے زیادہ باعزت اور خوشحال کوئی نہیں ہے۔
ہمارے یہاں شوہر اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے، کسی دوسری لڑکی یا عورت کو دوست نہیں بناتا، اسی طرح بیوی محض اپنے شوہر کی ہوتی ہے کسی اور عاشق یا دوست کی نہیں ہوتی، وہ صرف اپنے شوہر ہی کو اپنے ظاہری و باطنی حالات سے باخبر کرتی ہے۔
پھر کیا ان یورپ کی تقلید کرنے والوں کے نزدیک یہ کوئی عیب کی بات ہے؟ ان میں سے کون چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کی بھی ہو اور دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں؟
کیااب صفائی عیب کی بات ہوجائے گی؟ پاک دامنی عار سمجھی جانے لگے گی؟ اور خیر شر ہوجائے گی اور روشنی کو تاریکی کہا جانے لگے گا؟
اب ہم کو دوسروں کے دماغ سے سوچنا، دوسروں کی نگاہ سے دیکھنا، دوسروں کی تقلید کرنا چھوڑ دینا چاہیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو پہچانیں ، اپنی عزت اور اسلام کو سمجھیں اور اپنی صفائی و پاک دامنی کو جانیں۔
مغربی عورتوں کو چھوڑ دو، وہ جو چاہیں کریں، ان کے مردان سے جو چاہیں کرائیں، ہمیں ان سے کیا مطلب؟ ہماری عورتوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کے حکم اور ہمارے حکم پر چلیں تاکہ ہم خالص ان کے ہوجائیں اور ان کو چھوڑ کر دوسری طرف ہماری نگاہیں نہ اٹھیں۔
خوب جان لو کہ دنیا میں ہماری عورتوں سے بہتر کوئی عورت نہیں ہے، جب تک ہماری عورتیں اپنے پردے پر قائم رہیں، اپنے آداب اور اسلام کے بتائے ہوئے احکام و اخلاق کو اختیا رکریں اور اس بے نظر سوسائٹی کی روایات کو اپنائیں، جس نے حضرت عائشہ، و اسما اورخنسا ء، خولہ اور رابعہ رضی اللہ عنہن جیسی سیکڑوں بیویوں کو پیدا کیا جو نہ صرف پرہیزگاری و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھیں بلکہ دینی تربیت گاہوں کی استانیاں تھیں۔ علم و فضل میں ان کا کوئی ہمسر نہیں تھا اور انھوں نے اپنے ایسے سپوت دنیا کو دیے جو ایک طرف میدان کے سپاہی تھے تو دوسری طرف منبروں اور مدرسوں کے مردانِ حق آگاہ بھی تھے۔ دنیا کے بادشاہ بھی تھے اور اہلِ دنیا کے سردار بھی تھے اوریہی بیبیاں ان سرداروں کی مائیں تھیں۔
——