صبح کا بھوٗلا

تنویر آفاقی

’’ایک روز میں قاہرہ کے ایک مشہور ہوٹل میں رقص کر رہی تھی۔رقص کے دوران اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میں جیتی جاگتی عورت کے بجائے محض ایک کٹھ پتلی ہوں جو بلا وجہ رقص کیے جارہی ہے۔اپنی نیم عریانی اور مردوں کے سامنے اس طرح ناچنے پر اس روز پہلی بار مجھے شرمندگی کا احساس ہوا۔میں جلدی سے ہوٹل سے باہر آئی اور اپنے کمرے کی طرف دوڑ پڑی۔ میں رو رہی تھی اور مجھ پر ہسٹیریائی کیفیت طاری تھی۔ میں نے جلدی سے کپڑے تبدیل کیے۔میں پندرہ برس کی عمر سے رقص کر رہی تھی لیکن جو احساس مجھے اس روز ہوا اپنی زندگی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔میں نے جلدی سے وضو کیا ، نماز پڑھی اور نماز پڑھنے کے بعد مجھے سکون اور خوشی محسوس ہوئی۔

اس دن کے بعد سے لوگوں کی تنقیدوں اور ان کی طرف سے میرا مذاق اڑانے کی پروا کیے بغیرمیں نے پردہ کرنا شروع کر دیا۔پھر حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی تو میں اللہ کے حضور کھڑی ہو کر گڑگڑائی کہ اے اللہ! میری زندگی کے ان سیاہ دنوں پر اپنی مغفرت کی چادر ڈال دے۔اس دن ہالہ صافی تو مر چکی تھی اور اس کے ساتھ اس کا ماضی بھی دفن ہو چکا تھا۔ اب میرا نام سہیر عابدین ہے۔ ایک بیٹے کی ماں ہوں اور اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ خوشی اور سعادت سے بھر پور زندگی گذار رہی ہوں۔لیکن جب بھی مجھے اپنا ماضی یاد آتا ہے افسوس اور ندامت سے میرے آنسو بہنے لگتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی کا ایک حصہ اپنے خالق سے دور رہ کر گذار دیا جب کہ اسی نے مجھے تمام نعمتیں بخشی ہیں۔‘‘یہ اپنے زمانے کی معروف ومشہور مصری رقاصہ ’ہالہ صافی‘ کی مختصر روداد ہے۔

یہ ایک واقعہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی میں کبھی بھی انقلاب آسکتا ہے۔کون کب کس حادثے سے گذر کر اللہ کی طرف تائب ہوجائے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔خود اللہ تعالی نے بھی توبہ کرنے والے کے لیے اپنے دروازے ہمیشہ کے لیے کھول رکھے ہیں۔روایت ہے کہ ایک شخص نے کوئی گناہ کیا۔ اس پر اسے ندامت کا احساس ہوا اور حضرت ابن مسعودؓ کے پاس آیا اور پوچھا کہ کیا اس کی توبہ قبول ہو جائے گی؟ابن مسعودؓ نے اپنا چہرہ دوسری طرف کر لیا۔ تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ اس شخص کی طرف متوجہ ہوئے تو آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ آپؓ نے روتے ہوئے فرمایا: ’’جنت کے آٹھ دروازے ہیں ۔ تمام دروازے بند ہوتے اور کھلتے رہتے ہیں، لیکن توبہ کے دروازے پر ایک فرشتہ مامور ہے جو اسے کبھی بند نہیں کرتا۔اس لیے نیک عمل کرتے رہو، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔‘‘اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالی رات کواپنا دست کرم پھیلاتا ہے تاکہ دن میں گناہ کرنے والے توبہ کرلیں اور دن میں دست کرم دراز کر تا ہے تاکہ رات کو گناہ کرنے والے توبہ کرلیں۔اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ سورج مغرب سے نہ طلوع ہوجائے۔‘‘ یعنی قیامت نہ آجائے۔

کبھی کبھی دوسروں کے واقعات سے بھی انسان کو عبرت ملتی ہے۔ اس لیے یہاں چند ایسے واقعات پیش کیے جارہے ہیں ۔

بیٹی نے زندگی بدل دی

ایک شخص کی بیٹی کے ایک جملے نے جس نے برسو ں سے مسجد کا منہ تک نہ دیکھا تھا،اس کی زندگی بدل دی۔ وہ شخص اپنا قصہ خود سناتا ہے:

’’میں رات بھر جاگ کر اپنے دوستوں کے ساتھ موج مستی کیا کرتا تھا۔ مجھے یہ بھی احساس نہیں ہوتا تھا کہ میری بیوی گھر میں اکیلی ہے اور میرا گھر نہ پہنچنا اس کو کھلتا ہے۔اسے کتنی تکلیف ہوتی ہوگی، اس کا علم شاید اللہ کو ہی ہو۔اس نیک عورت نے مجھے سمجھانے اور میری اصلاح کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔لیکن اس کی کسی بات کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ایک روز رات کو حسب معمول میں خوب موج مستی کرنے کے بعد جب گھر پہنچا تو رات کے تین بجے تھے۔بیوی اور اپنی بیٹی کو دیکھا کہ وہ گہری نیند میں سو رہی ہیں۔میں برابر والے کمرے میں گیااور سونے کے بجائے بقیہ رات کا وقت کاٹنے کے لیے ویڈیو پر فلم دیکھنے لگا۔یہ وقت ہوتا ہے جب کہ اللہ تعالی نچلے عرش پر آکر فرماتا ہے : ’’ہے کوئی دعا مانگنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کرلوں؟ ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ میں اس کی مغفرت کردوں؟ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اس کی ضرورت پوری کردوں؟؟‘‘ ۔۔۔۔۔اچانک میرے کمرے کا دروازہ کھلا تو سامنے میری چھوٹی، پیاری سی بچی کھڑی تھی ، جس کی عمر پانچ سال سے زیادہ نہیں تھی۔اس نے حیرت اور حقارت سے میری طرف دیکھا اور بولی:’’ابو! کتنی بری بات ہے، اللہ سے ڈریے۔۔۔۔۔‘‘ یہ بات اس نے تین بار کہی اور دروازہ بند کرکے واپس چلی گئی۔میرا سر چکرا گیا۔میں نے ویڈیو بند کیا اور پریشانی کے عالم بیٹھ گیا۔ بیٹی کے الفاظ میرے کانوں سے اسی طرح ٹکرا رہے تھے۔ میں جلدی سے باہر آیا تو دیکھا کہ وہ اپنے بستر پر لیٹ چکی ہے۔

میری حالت پاگلوں جیسی ہو گئی۔میری خود سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مجھے کیا ہوگیا۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ فجر کی اذان ہوگئی۔ میں نے وضو کیا اور مسجد کی طرف چل دیا۔بیٹی کے الفاظ اتنی شدت سے مجھے متاثر اور پریشان کررہے تھے کہ نماز کی طرف میری توجہ برائے نام ہی تھی۔جماعت کھڑی ہوئی، امام نے تکبیر کہی، قرآن کا کچھ حصہ پڑھا ۔ وہ سجدے میں گیا تو میں بھی سجدے میں گیا ۔ جیسے ہی میں نے اپنی پیشانی زمین پر رکھی نہ جانے کیوں میں بے اختیار رونے لگا۔گذشتہ سات برسوں میں اللہ کے سامنے آج میں نے پہلی بار سجدہ کیا تھا۔آج کے رونے نے میرے لیے گویا خیر کا راستہ کھول دیا تھا۔دل میں جو کچھ کفر ونفاق بھرا ہوا تھا وہ سب آنسؤوں کے ساتھ بہہ گیا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ایمان میرے اندر سرایت کر رہا ہے۔نماز کے بعد میں تھوڑی دیرمسجد ہی میں بیٹھا رہاپھر گھر واپس آگیا۔ اس کے بعد میں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سویا اور دفتر چلا گیا۔دفتر پہنچا تو میرے ساتھی کو بہت حیرت ہوئی کہ آج میں اتنی جلدی دفتر کیسے آگیا۔ کیوں کہ رات بھر جاگنے کی وجہ سے میں ایک گھنٹہ دیر سے دفتر پہنچا کرتا تھا۔اس نے وجہ پوچھی تو میں نے رات والا واقعہ اس کے سامنے دوہرا دیا۔اس نے کہا کہ اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمھاری چھوٹی سی بچی کو یہ حوصلہ دیا کہ اس نے تمھیں غفلت کی نیند سے بیدار کردیااور موت آنے سے پہلے ہی تمھاری آنکھیں کھل گئیں۔ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو میرا بدن بوجھل سا ہورہا تھا۔ کیوں کہ رات بھر سویا نہیں تھا۔اس لیے میں اپنے حصہ کا کام اپنے ساتھی کے حوالے کرکے گھر آگیا کہ تھوڑا سا آرام کر لوں۔اپنی بیٹی سے ملنے کا بھی بہت دل کر رہا تھا کیوں کہ وہی اللہ کی طرف پلٹنے کا سبب بنی تھی۔

میں گھر میں داخل ہوا تو بیوی نے روتے ہوئے استقبال کیا۔میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟ کیوں رو رہی ہو؟!‘‘ اس کا جواب مجھ پر بجلی بن کر گرا: ’’آپ کی بِٹیا دنیا میں نہیں رہی ۔‘‘صدمہ اتنا زبردست تھا کہ میں خود کو سنبھال نہیں سکا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔جب غم ذرا ہلکا ہوا تو میں نے سوچا کہ جو کچھ ہوا ، وہ میرے ایمان کو پرکھنے کے لیے اللہ کی طرف سے آزمائش کے طور پر ہے۔ میں نے ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ٹیلی فون اٹھایا اور اپنے ساتھی کو فون کرکے اسے اپنی مدد کے لیے بلایا۔اسی نے اس کو غسل دیا اور کفن پہنایا۔نماز جنازہ سے فارغ ہوکر اسے دفنانے کے لیے چلے تو میرے ساتھی نے کہا: ’’یہ مناسب نہیں ہوگا کہ تمھارے علاوہ کوئی اور اس کو قبر میں اتارے۔‘‘ چنانچہ میں نے اسے اٹھایا تو میری آنکھ سے آنسو کی جھڑی لگ گئی۔ میں نے اسے قبر میں رکھ دیا۔ میں اپنی بیٹی کو دفن نہیں کررہا تھا بلکہ میں اس نور اور روشنی کو قبر میں اتار رہا تھاجس نے اپنی زندگی کا چراغ اگرچہ بجھا لیا تھا لیکن میرے لیے راستہ روشن کر گئی تھی۔اللہ تعالی اسے ہماری مغفرت اور آگ سے بچنے کا ذریعہ بنائے۔اور میری صابر ومومن بیوی کو اچھے سے اچھا اجر عطا فرمائے۔

ڈانسنگ کلب میں

یہ قصہ شیخ علی طنطاوی نے اپنی ایک کتاب میں بیان کیا ہے:

’’میں شہر ’حلب‘ کی ایک مسجد میں داخل ہوا تو ایک نوجوان نماز پڑھتا دکھائی دیا۔اس کو دیکھتے ہی میری زبان سے سبحان اللہ نکلا، کیوں کہ وہ نوجوان انتہائی بگڑا ہوا انسان تھا، شراب نوشی، زنا اور سود خوری سب کچھ اس کے لیے جائز تھا۔ اس کے والدین نے عاق کرکے اسے گھر سے نکال دیا تھا۔ لیکن آج یہ مسجد میں کیا کر رہا ہے؟! میں اس کے پاس گیا اور پوچھا:’’تم فلاں ہو نا؟ اس نے کہا: ’’ہاں‘‘۔ میں نے کہا : ’’اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمھیں ہدایت بخش دی۔بتائو تو تمھیں ہدایت کیسے ملی؟‘‘ کہنے لگا: ’’مجھے ایک بزرگ کے ذریعے ہدایت نصیب ہوئی جوڈانسنگ کلب میں وعظ کررہے تھے۔‘‘ میں نے حیرت سے کہا: ’’ڈانسنگ کلب میں؟!!‘‘ اس نے کہا ہاں، ڈانسنگ کلب میں۔‘‘ میں نے کہا: ’’ایسا کیسے؟! اس کے جواب میں اس نے اپنا قصہ اس طرح سنایا:’’ہمارے محلے میں ایک چھوٹی سی مسجد ہے۔ اس کے پیش امام ایک عمر دراز بزرگ تھے۔ایک روز نماز شروع کرنے سے پہلے امام صاحب نمازیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے: ’’لوگ کہاں چلے گئے؟! لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ مسجد میں نہیں آتے ؟خاص طور سے نوجوان تو مسجد کے قریب بھی نہیں آتے؟!!نمازیوں نے جواب دیا: ’’وہ لوگ ڈانسنگ کلبوں میں چلے جاتے ہیں۔‘‘امام صاحب نے پوچھا: ’’یہ ڈانسنگ کلب کیا چیز ہیں؟‘‘ کسی نمازی نے جواب دیا: ’’ڈانسنگ کلب ایک بڑا سا ہال ہوتا ہے جس میں لکڑی کا ایک اسٹیج بنا ہوتا ہے اور اس پر لڑکیاں ننگی یا نیم عریاں ہو کر ڈانس کرتی ہیں اور لوگ بیٹھ کر ان کا ڈانس دیکھتے ہیں۔‘‘ ’’کیا ڈانس دیکھنے والے حضرات مسلمان ہیں؟‘‘لوگوں نے کہا: ’’ہاں‘‘۔ امام صاحب نے کہا: لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ چلو ، چل کر انھیں نصیحت کرتے ہیں۔ لوگوں نے کہا: ’’امام صاحب۔۔۔۔کہاں جارہے ہیں۔۔۔۔۔کیا آپ ڈانسنگ کلب میں جاکر انھیں نصیحت کریں گے؟‘‘انھوں نے کہا: ’’ہاں‘‘۔

لوگوں نے انھیں روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ وہاں لوگ آپ کا مذاق اڑائیں گے اور آپ کو تکلیف بھی پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے عزم پر قائم رہتے ہوئے پوچھا کہ کیا ہم رسول اللہ ﷺ سے بہتر ہیں؟اس کے بعد ایک شخص کا ہاتھ پکڑ کر ڈانسنگ کلب کی طرف چل دیے۔وہاں پہنچے تو کلب کے مالک نے آنے کی وجہ پوچھی۔امام صاحب نے کہا:’’ڈانسنگ کلب میں لوگوں کو نصیحت کرنے کے لیے آئے ہیں۔اسے بڑی حیرت ہوئی اور امام صاحب کو غور سے دیکھتے ہوئے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ لوگوں نے مالک سے کہا کہ وہ ہمیں بات کرنے کی اجازت دے دے اور چاہے تو اس کے بدلے اتنی رقم لے لے جتنی اس کی روز کی آمدنی ہے۔کلب کے مالک نے یہ شرط منظور کرلی اور کہا کہ آپ لوگ کل شو شروع ہونے سے پہلے آجائیں۔

اگلے روز میں بھی ڈانسنگ کلب میں موجود تھا۔ایک لڑکی نے ڈانس شروع کیا۔ جب وہ اپنا ڈانس ختم کرچکی تو اسٹیج کا پردہ گر گیا۔اس کے بعد دوبارہ پردہ اٹھا تو اسٹیج پر وہی امام صاحب ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے نظر آئے۔انھوں نے بسم اللہ، اللہ کی حمداور اللہ کے رسولﷺ پر درود و سلام کے بعد لوگوں کو نصیحت کرنی شروع کر دی جو حیرت کے مارے یہ سب دیکھ رہے تھے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ کوئی مزاحیہ پروگرام اسٹیج کیا جارہا ہے۔لیکن جب انھیں حقیقت معلوم ہوئی تو زور زور سے شور مچانے لگے اور امام صاحب کا مذاق اڑانے لگے۔ لیکن وہ ان سب کی پروا کیے بغیر اپنی بات کہتے رہے۔آخر کار ناظرین میں سے ایک شخص اٹھا اور لوگوں کو خاموش رہنے کی تلقین کی تاکہ پتہ تو چلے کہ امام صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔

اس کے بعد ایک دم خاموشی چھا گئی یہاں تک صرف امام صاحب کی آواز سنائی دے رہی تھی۔وہ جو کچھ بول رہے تھے وہ ہمارے لیے بالکل نیا تھا۔قرآن وحدیث اور بعض تائبین کے واقعات سنانے کے بعد انھوں نے کہا: ’’لوگو! تم اپنی زندگی کا طویل حصہ گذار چکے ہو۔ اس زندگی میں تم نے خوب گناہ کیے۔گناہ کی لذت کہاں گئی۔گناہ کی لذت تو وقتی تھی ، وہ ختم ہوگئی، لیکن آپ کا اعمال نامہ ہمشہ کے لیے سیاہ ہوگیا۔قیامت کے دن تم سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ایک دن آنے والا ہے کہ جب ہر چیز ہلاک ہو جائے گی، صرف اللہ کی ذات باقی رہ جائے گی۔ آپ لوگوں نے کبھی اپنے اعمال پر بھی نظر ڈالی کہ آپ کے اعمال آپ کو کس راستے پر لے جارہے ہیں۔ دنیا کی آگ کو برداشت کرنا ہی انسان کے لیے ناممکن ہے حالانکہ دنیا کی آگ جہنم کی آگ کا صرف ستّرواں حصہ ہے۔یعنی جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے ستّر گنا بھیانک ہوگی۔اس سے پہلے کہ مہلت ختم ہوجائے توبہ کرلو۔‘‘ امام صاحب کی یہ باتیں سن کر تمام لوگ رونے لگے۔امام صاحب کلب سے باہر نکلے تو سارے لوگ ان کے پیچھے پیچھے اس حال میں نکلے کہ سب کی آنکھیں کھل چکی تھیں۔ کلب کے مالک نے بھی اپنے اس کام سے توبہ کرلی۔‘‘

نافرمان بیٹا

اس نوجوان نے بیرون ملک جاکر تعلیم حاصل کی اور اعلی ڈگری حاصل کرکے وطن واپس آگیا۔ایک مال دار خوبصورت لڑکی سے شادی کی۔شادی کے بعد کیا ہوا ؟ نوجوان اپنی روداد اس طرح سناتا ہے:

والد صاحب کا انتقال میرے بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ والدہ نے ہی میری پرورش کی۔ وہ گھروں میں جاکر کام کرتی اور میری ضرورتیں پوری کرتی تھیں۔میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔بڑا ہوا تو مجھے والدہ نے اسکول میں داخلہ دلا دیا اور آخر کار یونیورسٹی تک کی تعلیم مکمل کرلی۔میں اپنی والدہ کی ہر بات مانتا تھا، کبھی ان کی نافرمانی نہیں کرتا تھا۔ یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے مزید تعلیم کے لیے باہر بھیج دیا۔ اس وقت ان کی آنکھیں آنسؤوں سے تر تھیں اور روتے ہوئے مجھ سے کہہ رہی تھیں: ’’بیٹا، اپنا خیال رکھنا ، اور مجھے اپنی خبر دیتے رہنا۔ خط لکھتے رہنا تاکہ مجھے تیری خیریت معلوم ہوتی رہے۔‘‘

تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب میں وطن واپس آیا تو میری شخصیت بالکل بدل چکی تھی۔مغربی تہذیب مجھ پر بہت حد تک اثر انداز ہوچکی تھی۔دین سے دوری پیدا ہوچکی تھی اور مادی زندگی کے علاوہ کسی اور زندگی پر میرا ایمان ختم ہوچکا تھا۔

اعلی ملازمت حاصل کرنے کے بعد میں نے شریک حیات کی تلاش شروع کی اور آخر کاروہ بھی مل گئی۔میری والدہ نے میرے لیے ایک دین دار لڑکی پسند کی تھی لیکن میں نے اپنی پسند کی ہوئی خوبصورت اور مالدار لڑکی کے علاوہ کسی اور سے شادی کرنا منظور نہیں کیا،کیوں کہ میں تو خواب ہی ’ارسٹوکریٹک‘ زندگی گزارنے کا دیکھ رہا تھا۔شادی کے چھ ماہ کے اندر ہی میری بیوی نے والدہ کے خلاف سازش شروع کردی یہاں تک کہ اس کی سازشوں کے نتیجے میں خود میں بھی اپنی والدہ سے نفرت کرنے لگا۔

ایک روز میں گھر میں داخل ہوا تو بیوی کو روتے ہوئے پایا۔میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی: ’’دیکھو، یا تومیں اس گھر میں رہوں گی یا تمھاری ماں رہے گی۔میں تمھاری ماں کے ساتھ ایک پل بھی نہیں رہ سکتی۔‘‘

میںغصے سے پاگل ہوگیا اور میں نے اپنی والدہ کو گھر سے نکال دیا۔ وہ روتی ہوئی گھر سے نکل گئی لیکن جاتے جاتے بھی مجھے دعا دے گئی کہ ’’میرے بیٹے ،اللہ تجھے خوش رکھے۔‘‘

تھوڑی دیر بعد جب میرا غصہ اترا تو میں والدہ کو تلاش کرنے کے لیے نکلا، لیکن وہ نہیں ملیں۔ میں گھر واپس آگیا۔ بیوی نے حیلوں بہانوںمیں لگا کر مجھے میری عظیم وفاضل ماں سے غافل کر دیا۔

ایک عرصے تک والدہ کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ اس دوران میں ایک موذی مرض میں گرفتار ہو گیا جس کی وجہ سے مجھے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔میری والدہ کو خبر ہوئی تو وہ ہسپتال میں میری خیریت معلوم کرنے آئیں۔ میری بیوی بھی ہسپتال میں ہی تھی۔ اس سے پہلے کہ والدہ مجھ سے ملتیں، اس نے انھیں باہر سے ہی یہ کہہ کر رخصت کردیا کہ تمھارا بیٹا یہاں نہیں ہے… تم چاہتی کیا ہو، ہم سے دور کیوں نہیں چلی جاتیں۔ ‘‘ یہ جواب سن کر والدہ واپس چلی گئیں۔

کئی روز کے علاج کے بعدہسپتال سے رخصت تو مل گئی لیکن میری نفسیاتی حالت دگر گوں ہو چکی تھی۔ملازمت بھی جاتی رہی اور قرض کا بوجھ بڑھنے لگا۔ ان سب کی وجہ صرف میری بیوی تھی۔وہ اس حالت میں بھی اپنے مطالبات سے مجھے پریشان کیے رہتی تھی۔اور آخر کار ایک دن میری خوبصورت بیوی نے مجھے اپنا فیصلہ سنا دیا: ’’تم اپنی ملازمت کھو چکے ہو، تمھارے پاس دولت بھی نہیں بچی، معاشرے میں بھی اب تمھاری کوئی حیثیت نہیں باقی رہی۔ میں صاف صاف کہہ رہی ہوں: ’’مجھے تمھاری ضرورت نہیں … مجھے طلاق دے دو‘‘۔

اس کے یہ جملے مجھے بجلی کے جھٹکے کی طرح لگے۔ میں نے اسے طلاق دے دی۔میں جس غفلت میں سویا ہوا تھا، اس سے میں بیدار ہوچکا تھا۔میں گھر سے نکل پڑا لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں جائو ں کہاں۔والدہ کو تلاش کرتا رہا آخر کار وہ مل گئیں۔ لیکن کس حال میں؟!! وہ بے یار ومددگار تھیں اور لوگ صدقات وغیرہ دے کر ان کی مدد کر دیا کرتے تھے۔میں ان کے پاس گیا ۔ رو روکر ان کا چہرہ سیاہ ہوگیا تھا۔ ان کو دیکھتے ہی میں ان کے پیروں میں گر گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگاتو وہ بھی میرے ساتھ رونے لگیں۔تقریبا ایک گھنٹے تک ہماری یہی کیفیت رہی۔اس کے بعد میں انھیں گھر لے کر آیااور میں نے قسم کھائی اب ہمیشہ ان کا فرماں بردار رہوں گااور اللہ کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے برائیوں سے دور رہوں گا۔آج میں اپنی والدہ کے ساتھ زندگی کے حسین ترین اور شیریں ترین لمحات گذار رہا ہوںجومجھے سب سے محبوب ہیں۔

قرآن کی آیات سن کر

میری پرورش ایک دین دار گھرانے میںہوئی۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔انھیں ہمیشہ میری دینی تربیت کی فکر رہتی تھی۔مجھے ہمیشہ خاص طور سے نماز کی تلقین کی جاتی۔ لیکن جب میں بلوغت کے قریب پہنچی تو حالات کی رو میں بہہ گئی اور گمراہ کن دعوے مجھے اپنی جانب متوجہ کرنے لگے۔البتہ اس سب کے باوجود میں فطرتاً اچھے اخلاق کو ہی پسند کرتی تھی۔غیر مردوں سے نظریں ملانے میں مجھے شرم آتی تھی۔شرم وحیا اب بھی مجھ میں بہت زیادہ تھی۔لیکن افسوس کہ میں اس وقت مزید گمراہ ہوگئی جب کہ میری شادی ایک دین سے منحرف شخص سے ہوگئی۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میں نے شادی سے پہلے اس کے دین کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کی۔وہ مجھے فحش گانوں کی ویڈیو لا کر دکھایا کرتا تھااور ایسی ویڈیو لاکر دکھاتا جنھوں نے دین سے میرا رہا سہا رشتہ بھی ختم کر دیا۔اس سے شادی کرکے گویا میں نے اپنے پیر پر خود کلھاڑی مار لی تھی اور یہ شادی میرے لیے ایک زبردست فتنہ بن گئی تھی۔

اسی طرح دن گزرتے رہے، حتی کہ میں نے نماز پڑھنا بالکل ترک دیا۔ پہلے میں پردہ کرتی تھی، وہ بھی چھوڑ دیا۔ یہ سب اس لیے تھا کہ میں نے اللہ کے رسولﷺ کے اس قول پر عمل نہیں کیا تھا کہ اس سے شادی کروجس کا دین اور اخلاق تمھیں پسند آئے۔‘‘ میں نے اللہ سے تعلق توڑ لیا تو اللہ تعالی نے بھی مجھ سے اپنا رشتہ ختم کر دیا اور مجھے میرے اور میری خواہشات نفس کے حوالے کر دیا۔اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’اس شخص کی بات مت مانو جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جس نے اپنی خواہش کی پیروی کی۔‘‘

میں نے یہ سب کیا لیکن مجھے اس میں بے سکونی اور بدبختی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آیا۔شوہر نے اگرچہ دنیا کے تمام اسباب مجھے مہیا کر رکھے تھے لیکن اس کے باوجود اپنے اندر مجھے ہمیشہ ایک خالی پن سا محسوس ہوتا رہتا تھا۔ اس شخص نے مجھے برائی کے گڑھے میں ڈال دیا تھا۔میری حالت یہ ہوگئی کہ میں کسی بھی حال میں مطمئن نہیں رہ پاتی تھی۔دل کا اضطراب اور پریشانی مجھے ڈستی رہتی تھی۔اس کی سزا مجھے ایک یہ بھی ملی کہ میں اولاد سے محروم ہی رہی۔میں چونکہ بے پردہ رہتی تھی اور جس طرح لوگ مجھے تکتے رہتے تھے ، اسی طرح میرا شوہر بھی غیر عورتوں کے پیچھے بھاگتا تھا۔ وہ مجھ سے خالص محبت نہیں کرتا تھا۔مجھے اکیلا چھوڑ کر چلا جاتا اور تنہائی مجھے ڈستی رہتی تھی۔میں نے کئی بار خود کشی کرنے کی کوشش بھی کی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔

ایک دن میں نے سی ڈی پر قرآن کی تلاوت سنی۔یہ قاری احمد الحجمی کی سی ڈی تھی جو بہت ہی موثر آواز میں تلاوت کر رہے تھے۔قرآن کی عظیم آیات نے میرے تمام احساسات کو اپنی گرفت میں لے لیا اور میرے اندر امید کی کرن پیدا کردی۔ان آیات کا مجھ پر بہت اثر ہوا۔میرے اندر ہدایت کا شوق امڈ رہا تھا لیکن اسے اختیار کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہو رہی تھی۔میں اللہ کے حضور راتوں کو جاگ کر گڑگڑائی کہ وہ میرے لیے ہدایت کے راستے کھول دے اور میرے دل کو ایمان کے نور سے منور کر دے۔میں اکثر وہی دعا کرتی جو حضرت ابراہیم ؑ نے کی تھی کہ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِیْمَ الصَّلاَۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِي رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَاء (اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا دے اور میری نسل کے لوگوں کو بھی ، اے ہمارے رب ! میرے دعا قبول فرما۔)

آخر کار اللہ تعالی نے مجھے ہدایت سے نوازا اور میں نماز کی پابندی کرنے لگی، پردہ کرنے لگی اور دینی احکام کو جاننے اور انھیں سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔قرآن کی تلاوت، احادیث وسیرت اور مفید دینی کتابوں کے مطالعے کو میں نے اپنا معمول بنا لیا۔دعوتی کاموں میں بھی حصہ لینے لگی۔ لیکن یہ سب کچھ ممکن تب ہی ہوا جب میں نے اپنے بے نمازی شوہر سے طلاق لے لی۔میں نے اس سے علیٰحدگی اختیار کر لی حالانکہ میں اس سے ابھی بھی محبت کرتی تھی۔لیکن میں نے اس کی محبت پر اپنے خالق ومالک سے قربت کو ترجیح دی۔کیوں کہ ایسے شوہر میں کوئی بھلائی نہیں ہے جو اللہ کے ذکر سے روکے۔ ’’جس نے اللہ کے لیے کسی کام کو ترک کیا ، اللہ تعالی اس کا اس سے اچھا بدل عطا کر دیتا ہے۔‘‘

اللہ کا شکر ہے آج میں نور سے آراستہ زندگی گذار رہی ہوں جس کے آثار میرے دل اور چہرے دونوں پر نمایاں ہیں اور جس کی گواہی خود میری مسلم دوست دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں : ’’تیرا چہرہ روشن چراغ کی طرح معلوم ہوتا ہے۔‘‘یہ اللہ تعالی فضل اور اس کا کرم ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ مجھے اور تمام مسلمانوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھے۔

بہن کی موت

میں اللہ کی ذات سے بالکل غافل تھا ، برائیوں اور گناہوں کی دلدل میں دھنسا ہوا تھا۔اللہ نے میری ہدایت کاسامان ایک حادثے کے ذریعے کر دیا۔ اس دردناک حادثے کی تفصیل اس طرح ہے:

سعودی عرب کے شہر دمام میں فیملی پکنک کے خوبصورت ایام گذار کر میں اور میری تین بہنیں ریاض اپنے گھر واپس آرہے تھے۔ گاڑی چلاتے وقت سفر کی دعا تو کیا پڑھتا ، شیطان نے مجھے مسحور کر دیا اور میں گاڑی کے میوزک پلیئر پر بے تکا میوز ک سننے لگا۔گاڑی میں قرآن کی سی ڈی بھی تھی، علما کی اصلاحی تقریروں کی سی ڈی بھی تھی، لیکن میرے اندر ان کو سننے کی کوئی رغبت نہیں تھی۔ کیوں کہ ایک ہی دل میں حق اور باطل جمع نہیں ہوسکتے۔

میری ایک بہن بہت نیک اور سچی مومن تھی۔اللہ کی یاد سے اس کا دل اور زبان تر رہتی تھی اور اسلامی حدود کا بہت خیال رکھتی تھی۔اس نے مجھ سے اس آواز کو بند کرنے کے لیے کہا جو میں نے پلیئر پر لگا رکھی تھی۔لیکن میں نے اس کی بات اَن سنی کر دی، کیوں کہ شیطان مجھ پر پوری طرح حاوی ہو چکا تھا۔ میری بقیہ دو بہنوں نے بھی میرا ساتھ دیا۔اس نے پھر اصرار کیا کہ میں اس کو بند کردوں لیکن میں بھی اپنی ضد پر اڑا رہا اور ہم سب اس کا مذاق اڑانے لگے، بلکہ میں نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا:’’اسے سننا ہے تو سنو، ورنہ میں تمھیں یہیں بیچ راستے میں گاڑی سے نیچے اتار دوں گا۔‘‘

وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خاموش ہو گئی حالانکہ دل سے وہ راضی نہیں تھی۔ بہر حال اس نے اپنا فرض ادا کر دیا تھا۔

اچانک ، اللہ کا کرنا ایسا ہوا، کہ گاڑی کا ایک ٹائر پھٹ گیا۔ اس وقت گاری انتہائی تیز رفتاری سے چل رہی تھی۔نتیجۃً گاڑی سڑک سے اتر کر ایک گڑھے میں جا گری۔ گرنے سے پہلے اس نے کئی قلا بازیاں کھائیں اورٹھہری تو اس طرح کہ اس کی چھت نیچے تھی اور ٹائر اوپر۔ہماری جو حالت تھی اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔لوگ ہماری گاڑی کے گرد جمع ہوگئے اور ٹوٹی ہوئی گاڑی کے ڈھیر اور چکنا چور شیشوں کے درمیان سے ہمیں نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔لیکن در اصل حادثہ کیا ہوا وہ میں آپ کو بتاتا ہوں۔

ہم تمام لوگوں کو گاڑی سے نکال لیا گیا اور الحمد للہ معمولی چوٹوں کے علاوہ کوئی برا حادثہ ہمارے ساتھ نہیں ہوا۔ لیکن میری چھوٹی بہن —نیک اور صالح بہن — وہی جو مجھے گاڑی میں نصیحت کر رہی تھی اور جس کی نصیحت کو میں نے کوئی اہمیت نہیں دی تھی وہ اس دنیا میں نہیں رہی تھی۔میری وہ بہن جس کا میں اور میری بہنیں ابھی تھوڑی دیر پہلے مذاق اڑا رہے تھے ، وہ اس حادثے میں موت سے دوچار ہو چکی تھی۔اللہ تعالی نے اسے اپنے پاس بلا لیا تھا۔

میری حالت یہ تھی کہ میں رو رہا تھا، اپنی بہن کی موت پر تو میں بعد میں رویا سب سے پہلے مجھے خود پر رونا آیا۔ آج میری آنکھ کھل گئی تھی ۔میں جس غفلت اور گمراہی میں مبتلا تھا اس کی حقیقت آج مجھ پر روشن ہوگئی تھی۔میری سمجھ میں آگیا کہ اللہ تعالی نے آج مجھے دوسری زندگی دی ہے تاکہ میں دوبارہ اپنی زندگی کا آغاز ایمان اور عمل صالح کے ساتھ کر سکوں۔

میری چھوٹی بہن اب اس دنیا میں نہیں ہے، لیکن آج بھی وہ مجھے یاد آتی ہے تو میری آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی بہنے لگتی ہے۔کبھی میں خود سے پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ میری مغفرت کردے گا تو مجھے قرآن کی وہ آیت یاد آجاتی ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا: ’’کہو ، اے میرے وہ بندوجو اپنے آپ پر زیادتی کرتے رہے ہو، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ تعالی تمام کے تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے کیوں کہ وہ غفوراور رحیم ہے۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146