ہر سال یومِ خواتین حقوقِ نسواں کے نئے سنگِ میل طے کرنے کے لیے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ کنونشن، سیمینار اور مذاکرے… بحث و مباحثہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کامیاب کوشش نظر آتی ہے۔ لیکن کیا واقعی خواتین کے استیصال میں کمی آئی ہے یا خواتین پر تشدد میں اضافہ ہی ہورہا ہے اور اگر ایسا ہے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
انسانیت کی نصف ترجمانی اگر مرد کرتا ہے تو نصف انسانیت کی ترجمان عورت ہے۔ عورت اور مرد کبھی ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہوسکتے، کوئی سوسائٹی تنہا کسی ایک جنس سے وجود میں نہیں آسکتی۔ معاشرہ ترقی ہی اس وقت کرتا ہے جب دونوں کے درمیان توازن اور اعتدال سے معاشرتی رشتے قائم ہوں۔ میاں اور بیوی کوئی دو مختلف پارٹیاں نہیں جو اپنے اپنے حقوق کے لیے ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہیں۔ یہ ایک ہی پارٹی کے دو رکن ہیں۔ ایک پارٹی کے دو ارکان کے درمیان اختلافات تو ہوسکتے ہیں لیکن جب پارٹی کے مفاد کی بات آئے گی تو رائے بھی ایک ہوجائے گی اور سوچ بھی ایک۔ میاں بیوی کو جب ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے تو یہ اسی قربت، ایثار اور اخلاص کا استعارہ ہے جو میاں اور بیوی میں ہونا چاہیے۔
مغرب دنیا کے نقشے میں تبدیلی چاہتا ہے۔ اس تبدیلی کے لیے اس نے تہذیبی جنگ کی اصطلاح ایجاد کی، مساوات کا دلفریب نعرہ لگایا، کمزور کو طاقت ور بننے کا جھانسا دے کر معاشی دوڑ کی گاڑی میں جوتا اور خوب دوڑایا۔ مساوات کے بوسیدہ نعرے کو ’’معاشی مساوات‘‘ اور ’’صنعتی مساوات‘‘ کا نیا روغن لگا کر تروتازہ کرنے کی کوشش کی۔ مغرب نے جب بھی عورت کے حقوق کی درجہ بندی کی تو اس کی تہہ میں مذہب سے نفرت اور صنعتی انقلاب کی نئی بلندیوں کو چھونا تھا۔
یورپ میں آباد دو یا تین فیصد خواتین جو شاید دو کروڑ سے کچھ ہی زیادہ ہوں گی، ان کے گھروں سے نکل کر روزگار کے میدانوں کا رخ کرنے کی بنا پر پوری دنیا میں ساڑھے تین ارب خواتین کے کردار کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ یورپ اور امریکہ میں حقوق نسواں اور آزادیٔ نسواں کی صورت حال یہ ہے کہ امریکہ کی اسمبلیوں میں عورتوں کی نمائندگی کا تناسب صرف گیارہ فیصد اور فرانس و برطانیہ میں دس فیصد سے کم ہے۔ امریکہ کی صدر آج تک کوئی عورت نہ بن سکی۔ ہمارے ہاں مغرب کا غلامانہ ذہن تہذیب کی اس جنگ میں صنفی دوڑ Gender Race کو بنیاد بناتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں کسی نہ کسی نکتے کو بنیاد بناکر مرد اور عورت کے درمیان ایک مسابقانہ کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
دراصل نام نہاد روشن خیالی کے پردے میں اپنی بے لگام تمناؤں اور خواہشات کا حصول ہی مطمح نظر تھا۔ اختیارا ت کا حصول اور مساوات کے حق کا نعرہ لگاکر ہمدردیاں بھی سمیٹی گئیں اور مغرب کا ایجنڈا بھی نافذ کیا گیا مگر کیا خواتین کے استحصال میں کمی آئی؟
جہاں روایتی خاندانی رسوم و رواج عورتوں کی پاؤں کی بیڑیاں ہوں، جھوٹی عزت کے نام پر عورتوں کو مار ڈالنا اپنی دشمنیاں نمٹانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہو، جہاں عورتوں کو ان کے جائز حق سے محروم کیا جاتا ہو وہاں کوئی سیکولر نظام ان رسوم کا خاتمہ نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ پیداوار ہی لبرل اور غیر اسلامی سیکولر نظام کی ہیں۔
ان کا خاتمہ اسلامی احکام سے آگاہی اور اسلامی قوانین کے اجراء سے ہی ممکن ہے۔ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ خدا کے نزدیک کون بہتر ہے، کون بدتر؟ مرد یا خواتین؟ اس سوال کا صاف جواب اسلام نے دیا ہے کہ سربلندی کا معیار تقویٰ، سیرت اور اخلاق ہے۔ اس کسوٹی پر جو جتنا کھرا ثابت ہوگا، خدا کی نظر میں اتنا ہی قابلِ قدر اور صاحبِ اکرام ہوگا۔ اس میں مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اس طرح صاف، سادہ بات ہے کہ مرد وہ کرے، جو اللہ نے اس کو عورت کے بارے میں حکم دیا ہے۔ اور عورت وہ کرے جو مرد کے بارے میں اس کو حکم دیا ہے تو کسی گھر میں کوئی فسادنہ ہو اور معاشرہ مکمل طور پر پرسکون اور پرامن ہو۔
کسی معاشرے میں کامیاب فرد کے لیے تین شرائط لازمی ہیں:
(۱) صحیح فکر رکھتا ہو کہ اچھے اور برے کی تمیز کرسکے، نفع و نقصان کے بارے میں سوچ کر فیصلہ کرسکے۔
(۲) اپنے فیصلے کے مطابق عمل کرسکے۔
(۳) اس کو معاشرے کی خیرخواہی کے طریقوں پر عمل کی آزادی ہو اور دوسری طرف معاشرہ اس سے وفادار ہو۔ یعنی اگر اس کو معاشرے کے مفاد کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہ ہو تو دوسری طرف اسے اس کے اپنے مفاد کے کام کی اجازت اور آزادی ہو۔ دنیا کا ہر معاشرہ فرد کے لیے تینوں حق تسلیم کرتا ہے۔
اسلام نے عورت کو خاندان کی بنیاد قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے لیے فکروعمل کی راہ بند نہیں کی۔ اس کو وہ تمام حقوق پہلے دن سے فراہم کیے ہیں جو معاشرے کا ایک کامیاب فرد بننے کے لیے ضروری ہیں۔ یہی نہیں، وہ معاشرے کو بھی پابند کرتا ہے کہ وہ عورت کے کامیاب فرد بننے میں اس کی مدد کرے اور ہر طرح کی رکاوٹ دور کرے۔ اسلام کے دیے ہوئے یہ حقوق عورت کے لیے مکمل ہیں اور انھی کا ہم مطالبہ کرتے ہیں۔
——