تہذیب واخلاقیات کا تعلق صرف مسلم معاشرے سے نہیں ہے دنیا کا کوئی بھی معاشرہ ہو تہذیب و اخلاق اور اس کا محور حیا اس کی اقدار میں تصوراتی یا آئیڈیل سمجھے جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہندوستان میں مخرب اخلاق فلموں کی صنعت نے ابھی اپنے قدم نہیں جمائے تھے اور گھر کی دہلیز کے اندر تو کجا سنیما ہالوں میں بھی کھلے عام اس کی پذیرائی نہیں تھی، لیکن پھر یوں ہوا کہ تقسیمِ ہند کے فوراً بعد بھارت نے جہاں دوسرے شعبوں میں ترقی کی وہیں، دو میدانوں میں خوب ترقی کی، ایک شراب خانوں کی بہتات اور دوسرا فحش اور عریاں فلم انڈسٹری، اس وقت کانگریس نے شراب خانوں کے خلاف بھرپور تحریک چلائی جس کے نتیجے میں ممبئی میں اس پر پابندی بھی عائد ہوگئی لیکن آج کے بھارت میں شراب خانے بھی وافر مقدار میں موجود ہیں اور گھر گھر چلتی بالی وڈ فلمی دنیا کے کرشماتی مناظر بھی جنھوں نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر نہ صرف عورتوں کے خلاف جرائم میں خوفناک حد تک اضافہ کردیا ہے بلکہ ہندوستانی عورت جو بیشک اگرچہ باپردہ نہیں تھی،لیکن شرم و حیا اس کا بنیادی وصف اور فخر تھا اس پر بھی کاری ضرب لگائی ہے۔
آج عورت کو چراغ خانہ سے شمع محفل بنانے کا سب سے زیادہ خواہشمند مغربی سرمایہ دارانہ نظام ہے، سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت زیادہ سے زیاہ مصنوعات کی تیاری اور فروخت ہے اور اس کے لیے انسان کو خواہشات کا غلام بنانا ہے۔ کھانے، پینے پہننے سجانے کی خواہش اور مال بیچنے کے لیے خواہشِ نفسانی کو ابھارنا سب سے کارگر کاروباری حربہ قرار پایا اور وہ حربہ اشتہارات کی دنیا میں حسن و ادا سے بھرپور ایک ماڈل گرل ہے۔ کمیونسٹ ممالک میں سے روس میں جب سوشلزم تھا تو کسی اخبار یا رسالے میں اشتہارات سرے سے نہیں ہوتے تھے۔ نہ ہی عریاں تصاویر تھیں اور نہ ہی کوئی فحش فلم تھی اس طرح انھوں نے نہ صرف اشتہارات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مصنوعی طلب اور اسراف سے افراد معاشرہ کو محفوظ رکھا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے آلہ کار جنس زدگی سے بھی خود کو کافی حد تک محفوظ رکھا، لیکن جب روسی سرحدیں مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے لیے کھلیں تو اس کے ساتھ ہی سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت عورت کی حیا کو رخصت کرنا پڑا، اس کے ساتھ ہی روس میں عصمت فروشی بھی ایک کاروبار کی صورت اختیار کرگئی۔
چین کی عورت لپ اسٹک کا استعمال نہیں کرتی تھی اور قدرتی نسوانی حسن کو سراہا جاتا تھا ،لیکن مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی آمد کے ساتھ ہی ان کا حسن بھی بیوٹی پارلر کا محتاج ہوگیا۔ بیوٹی کی پوری دکان کی ایک ایک پروڈکٹ کی فروخت کے لیے تو کجا موبائل کارڈ موٹر سائیکل، بلیڈ ریزر کے لیے عورت کا استعمال اب عورت کا استحصال تصور نہیں کیا جاتا، جہاں گاڑی سے زیادہ ماڈل عورتوں کی عشوہ طرازیاں اور نشیب و فراز کی نمائش کی جاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بھی بغیر کسی روک تھام کے مختلف چینلز کی بھر مار نے گھر کی دہلیز عبور کرکے بیڈ رومز اور کامن رومز میں مرکزی مقام حاصل کرلیا ہے۔ اس سیلاب بلاخیز سے ہر خاندان پریشان ضرور ہے، لیکن بند باندھنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی اس وقت صورتحال یہ ہے کہ معاشرہ اس کے اثرات سے مجروح ہورہا ہے۔ معاشرے میں عورتوں اور بچوں کے خلاف جرائم کی شرح اور بدلتی اقدار اس کی کھلی نشاندہی کررہی ہیں۔ آج ہمارے ٹین ایجز کے ہیروز، لڑکیوں اور خواتین کے موضوعا ت گفتگو بالخصوص دیہی علاقوں کی اہم تفریح ان چینلز کے گرد گھوم رہی ہے۔
ہم سنتے ہیں کہ فلاں فلم نے ایک دن میں اتنے کروڑ کا بزنس کیا، فلاں ہیرو، ہیروئین اتنا معاوضہ لیتا ہے۔ یہ بزنس ہے لیکن اس کے اثرات کی کیا قیمت دنیا کے معاشروں کو ادا کرنی پڑرہی ہے اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب نیویارک اور ماسکو میں کوئی سیکس کلر درجنوں عورتوں کو ہوس کا نشانہ بناکر ان کا بہیمانہ قتل کرڈالتا ہے یا راجدھانی کی سڑکوں پر چلتی کار میں زنا بالجبر ہوتا ہے۔ آٹھ یا دس دن پرانی ہوس کا شکار تعفن زدہ لاش معاشرے کے ضمیر پر تازیانے برساتی ہے اور نوحہ کناں اور سراپا سوال بن جاتی ہے کہ ہم نے کتنے کروڑ کے بزنس کا تاوان ادا کیا ہے؟ ہم نے اپنی اقدار کو کس قیمت پر رہن رکھ دیا ہے جس کا سود کتنی نسلیں ادا کرتی رہیں گی۔
——