اللہ تعالیٰ ہمارا خالق، مالک اور حاکم ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا رب، پروردگار اور رازق بھی ہے، اس نے ہمیں صرف پیدا ہی نہیں کیا بلکہ ہماری تمام ضرورتیں بھی وہی پوری کرتا ہے۔ ہمیں شعور اور اختیار سے نوازتا ہے تمام مخلوقات سے زیادہ صلاحیتیں اور قوتیں بخشی ہیں اور رزق کے خزانے بکھیر دیے ہیں اور ہر شخص کو روزی کمانے کے لیے جدوجہد کے میدان میں چھوڑ دیا ہے۔
لیکن ہر شخص کو صلاحیتیں ایک سی نہیں دی گئی ہیں، کیونکہ دنیا کو اختلاف ہی سے زینت حاصل ہے۔ صلاحیتوں اور ذرائع کی کمی بیشی کی وجہ سے رزق کامیدان ہر انسان کے لیے یکسا ںنہیں رہ سکتا، چنانچہ دنیا میں جہاں مالدار اور تندرست پائے جاتے ہیں، وہیں غریب، یتیم، بیوائیں، اپاہج، محتاج اور مساکین بھی پائے جاتے ہیں۔
اسلامی معاشرہ چونکہ ہمدردی، اخوت اور تعاون کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے لہٰذا غرباء اور مساکین، معذور اور محروم انسانوں کی امداد اور خیرخواہی معاشرے کے وسعت رکھنے والے لوگوں پر لازم قرار دی گئی ہے غرباء کی بنیادی ضرورتیں، کھانا، کپڑا وغیرہ کا انتظام اہلِ ثروت مسلمان پر فرض کیا گیا ہے اور ان کی ضرورتوں کی تکمیل کو جنت کے حصول سے جوڑ دیا گیا ہے۔ سورہ ماعون میں فرمایا گیا:’’کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے۔ یہ وہی آدمی ہے جو یتیموں کو دھکے دیتا ہے اور مسکینوں کو کھلانے پر نہیں اکساتا۔‘‘
گویا اسلام صرف اسی بات کی تاکید نہیں کرتا کہ ایمان والا غریبوں کی ضرورت پوری کرے بلکہ وہ اس بات کی بھی تاکید کرتا ہے کہ ایمان والے ایک دوسرے کو اس بات پر اکساتے رہیں۔
اسلام نے احکام و قانون کے ذریعے بھی غریبی دور کرنے کی کوشش کی ہے، مثلاً زکوٰۃ کو فرض قرار دیا ہے اور دیگر صدقات واجب قرار دیے ہیں۔ اور ساتھ ہی اعلیٰ اخلاق کی تعلیم کے ذریعے بھی غرباء کی امداد پر ابھارا ہے۔’’یتیم پر قہر مت ڈھاؤ اور سائل کو مت جھڑکو (بلکہ ان کے ساتھ نرمی، حسنِ سلوک اور امدادی رویہ اختیار کرو)‘‘
’’دیکھا آپ نے اس شخص کو جو دین کو جھٹلاتا ہے ایسا ہی شخص یتیم کو دھتکارتا اور غریبوں کے کھانے پر نہیں ابھارتا ہے۔‘‘
یعنی یتیموں اور مسکینوں کی امداد اور خبر گیری نہ کرنا اور ان کے ساتھ برا رویہ کرنا، دین و آخرت کو جھٹلانا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یتیم کی کفالت کرنے والا اور میں ان دو انگلیوں کی طرح ہوں گے (مسلم) یعنی ساتھ ساتھ ہوں گے۔ ایک مرتبہ آپ ؐ نے فرمایا کہ بدترین ولیمہ وہ ہے جس میں امیروں کو بلایا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے۔
قبیلہ مضر کے لوگ فقر وتنگ دستی کی حالت میں حضورﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو آپؐ کا چہرہ پریشانی کی وجہ سے زرد پڑگیا۔ آپؐ گھر تشریف لے آئے اور حضرت بلالؓ سے اذان کہلوائی اور نماز کے بعد تقریر کی، قرآن کی چند آیتیں پڑھنے کے بعد فرمایا، لوگوں کو اللہ کی راہ میں صدقہ دینا چاہیے، دینار، درہم، کپڑا، گیہوں اور کھجوریں جو کچھ ہو دیں۔ ایک انصاری ایک تھیلی لایا پھر تو لوگوں نے اتنا دیا کہ غلہ اور کپڑے کے ڈھیر لگ گئے حضورﷺ کا چہرہ دمک اٹھا۔‘‘ (خلاصہ مسلم)
حضرت ابوبکرؓ کے صاحبزادے عبدالرحمن فرماتے ہیں، اصحابِ صفہ غریب لوگ تھے ایک بار حضورؐ نے فرمایا جس کے گھر دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ یہاں سے تیسرے کو لے جائے اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ ایک یا دو آدمیوں کو لے جائے، چنانچہ میرے والد تین آدمیوں کو لے گئے اور آپؐ اپنے ہمراہ دس آدمیوں کو لے گئے۔ (بخاری مسلم)
یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے اس معاشرے کی جو اسلام تشکیل دینا چاہتا ہے۔ اگر آج بھی ہم اس معاشرہ کو دوبارہ وجود میں لانا چاہتے ہیں تو ہمیں غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کا اپنی زندگی میں لحاظ کرنا ہوگا اور ان کی فکر کو اپنی زندگی میں داخل کرنا ہوگا۔ جبھی ہم جنت کی راہ پاسکتے ہیں۔
——