اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ اَتْبَعَ نَفْسَہٗ وَتَمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ۔ (ابنِ ماجہ)
’’سب سے عقل مند شخص وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے اور مرنے کے بعد والی زندگی کے لیے یہاں کام کرے، اور ناتواں اور بے خوف شخص وہ ہے جو اپنے کو اپنی خواہشات کے تابع بنالے اور (بلا کچھ کیے) اللہ تعالیٰ سے امید رکھے۔‘‘
لوگ سمجھتے ہیں کہ عقل مندی اس کا نام ہے کہ آدمی مال و دولت کے انبار جمع کرلے یا جوڑ توڑ کرکے سیاسی مناصب اور عہدے حاصل کرلے، یا اپنے حسن انتظام سے لوگوں کو حیرت زدہ کردے۔ مگر اللہ تعالیٰ اور پیغمبر علیہ السلام کی نظر میں یہ سب چیزیں عقل مندی کا معیار ہرگز نہیں ہیں، بلکہ اس کا معیار صرف یہ ہے کہ انسان اپنے رب حقیقی کو راضی کرنے والا بن جائے اور اس کی ناراضگی والے اعمال سے اپنے کو بچالے۔ خلیفۂ اول سیدنا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں ایک جملہ یہ بھی تھا، جو سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ آپ نے فرمایا:’’بلاشبہ بڑی دانش مندی تقویٰ اور پرہیزگاری ہے اور سب سے بڑی بے وقوفی فسق و فجور اور گناہوں کاارتکاب ہے۔‘‘
حکیم لقمان کا مقولہ مشہور ہے، آپ نے فرمایا:
’’عقل مند شخص وہی ہے، جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔‘‘
حضرت سفیان بن عینیہؓ فرماتے ہیں:
’’عقل مند شخص وہ نہیں ہے جو اچھائی اور بھلائی کا محض علم رکھے، بلکہ دراصل عقل مند شخص وہ ہے جو بھلائی کو پہچان کر اس پر عمل کرے اور برائی کو جان کر اس سے اجتناب کرے۔‘‘ (کتاب العقل:۲۲)