ایک صاحب نے اپنی بپتا سناتے ہوئے مجھ سے کہا: ’’میری شادی کو پانچ برس ہوچکے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ میری بیوی بہت خوصورت ہے۔ ساتھ ہی ایک ’کامیاب گھریلو عورت‘ بھی۔لیکن دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد سے اسے نہ تو میری پروا ہے اور نہ خود کی۔اکثر معاملات میں ہمارے درمیان اختلاف رہنے لگا ہے۔دو بار بات طلاق تک پہنچ چکی ہے۔اور اب میں یہ سوچ رہا ہوں کہ دوسری شادی کر لوں۔شاید دوسری شادی کرنے کے بعد مجھے اس جہنم کی زندگی سے نجات مل جائے گی۔تو کیا مجھے دوسری شادی کر لینی چاہیے یا نہیں؟یا اس کے علاوہ اور کیا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟
میں نے کہا: ’’پروا نہیں کرتی‘‘ والی بات ذرا مبہم سی ہے ۔ اس کی کچھ وضاحت کر سکتے ہیں؟
ان صاحب نے لمبا سانس کھینچ کر ایک آہ بھری، تھوڑی دیر خاموشی کے ساتھ اپنے خیالوں میں کھوئے رہے، پھر بولے: ’’سمجھ میں نہیں آرہا کہ آپ کو کیا بتائوں اور کیا نہ بتائوں؟‘‘اتنی باتیں ہیں کہ ان کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔‘‘میں نے کہا: ’’کنسنٹریٹ کریں اور وہی باتیں مجھے بتا دیں جنھیں بیان کرنا آپ کے لیے ممکن ہو۔اس طرح میں آپ کی مدد کرسکوں گا۔‘‘ ان صاحب نے تھوڑی دیر سوچا، پھر انھوں نے بہت سے ایسے مسائل کا ذکر کیا جو عموماً ہر گھر میں پائے جاتے ہیں اور تھوڑی دانش مندی اور صبر سے کام لے کر انھیں بآسانی حل کیا جاسکتا ہے۔
دراصل لوگ غلطی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ازدواجی زندگی میں ناکامی یا طلاق کی وجہ ازدواجی زندگی کے مسائل ہی ہیں۔یہیں سے گھریلو زندگی برباد ہونی شروع ہوجاتی ہے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ازدواجی زندگی میں ناکامی کی وجہ شوہر بیوی کے آپسی مسائل یا ازدواجی مسائل ہر گز نہیںہوتے۔اس ناکامی کا اصل سبب یہ ہے کہ زوجین (شوہر اور بیوی) یا دونوں میں سے کسی ایک کے اندر ان مسائل کا سامنا کرنے کی قدرت نہ ہو تی، یا دونوں ایک دوسرے کی لغزشوں پر صبر کرنے اور انھیں برداشت کرنے کی طاقت نہ رکھتے ، یا دونوں یا دونوں میں سے کوئی ایک ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہ کرتا ہو۔انجام کار معاملہ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا جاتا ہے اور مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید الجھتا چلا جاتا ہے۔جیسا کہ مذکورہ صاحب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ دوسری شادی کرنے سے پہلی بیوی کے ساتھ ان کے جو مسائل ہیں وہ حل ہوجائیں گے!!
ان صاحب سے میری جو گفتگو ہوئی، اس سے ایک بات یہ بھی سامنے آئی کہ ان کی آمدنی بہت کم ہے۔یعنی مالی استطاعت رکھنے کی شرط سے وہ صاحب محروم ہیں۔اب ظاہر بات ہے کہ اگر وہ دوسری شادی کرتے ہیں تو دوسری بیوی کے اخراجات پہلی بیوی اور بچوں کے حساب میں کٹوتی کرکے ہی پورے کریں گے۔نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ مسائل اور زیادہ بڑھیں گے، ان کے اوپر قرض اور اوور ٹائم کا بوجھ بڑھے گا۔یقینا اس کا اثر ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت پر بھی پڑے گا اور اندیشہ ہے کہ آخر کار دوسری شادی کا نتیجہ بھی ناکامی کی صورت میں برآمد ہو!!
طلاق کی وجہ ازدواجی مسائل؟!
جو بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ کسی بھی گھر کے ازدواجی مسائل طلاق یا شوہر و بیوی کی علیحدگی کا سبب نہیں بنتے۔ شادی شدہ زندگی ایک دوسرے کے لیے ناپسندیدہ باتوں ، مسائل یا تلخیوں سے خالی نہیں ہوتی۔ البتہ ان کو حل کرنے یا ان کا سامنا کرنے کے سلسلے میں مختلف زوجین کا طرز عمل مختلف ہوتا ہے۔چنانچہ ایک طرف آپ کو ایسے لوگ ملیں گے جو اس طرح کے مسائل سے نمٹنے اور ان کو حل کرنے کے سلسلے میں لچک سے کام لیتے ہیں اور دونوں میں سے ہر فریق ایک دوسرے کے تعلق سے صبر ودرگذر کی روش اختیار کرتاہے۔اس کے بالمقابل آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جو اس قسم کے مسائل میں کسی قسم کی ذرا بھی لچک سے کام نہیں لیتے نیز دونوں فریق ایک دوسرے سے جدا جدا رہتے ہیں، دونوں میں سے کوئی بھی نہ جھکنے کے لیے آمادہ ہوتاہے اور نہ ہی اختلافات کو نظر انداز کرکے ایک دوسرے سے قریب آنے کی کوشش کرتا ہے۔حالانکہ —اکثر و بیشتر معاملات میں— یہ مسائل عام قسم کے ہوتے ہیں جن کے ہوتے ہوئے بھی زندگی گذاری جاسکتی ہے خواہ انھیں حل نہ کیا جا سکا ہو۔
شوہر اور بیوی کی سوچ وفکر میں لچک اتفاق و قربت اور باہمی رضامندی کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔ دونوں ایک ساتھ کندھے سے کندھا ملا کران مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور فطری انداز میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنے درمیان ہم آہنگی کی بنیادوں کو مزید پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس سے انھیں ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہوئے مسائل کو حل کرنے اور مثبت انداز میں ایک دوسر ے کا تعاون کرنے میں مدد ملتی ہے۔ساتھ ساتھ دونوں ایک دوسرے کا مثبت طور پر جائزہ بھی لیتے رہتے ہیں اور یہ طریقہ ان کے اندر ازدواجی زندگی کو برقرار رکھنے کی رغبت وخواہش پیدا کرتا ہے۔نیز انھیں یہ یقین ہوتا ہے کہ کوئی بھی گھر مسائل سے خالی نہیں ہوسکتا حتی کہ اللہ کے رسولﷺ کا گھر بھی اس طرح کے مسائل سے خالی نہیں تھا۔لیکن اللہ کے رسولﷺ ان مسائل کو فراخ دلی ، لچک، محبت ، تسامح، صبر اور مسکراہٹ جیسی عادتوں سے ان مسائل کا سامنا کیا کرتے تھے۔
اللہ کے رسول ﷺ کے اس طرز عمل کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ازدواجی مسائل کو ہم خوش اسلوبی سے حل کرلیںاور تو ازدواجی زندگی کی کشتی کو سلامتی وحفاظت کے ساتھ پار لگا سکتے ہیں۔
ازدواجی مسائل کے حل کی بنیاد
ازدواجی زندگی کو برقرارا رکھنے کے لیے چند بنیادی باتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے:
۱۔لچک
جب شوہر بیوی کو یہ محسوس ہو کہ ان کے درمیان کسی بھی قسم کا معرکہ گرم ہو سکتا ہے تو دونوں کو پرسکون ہونے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس معرکہ آرائی کے عواقب ونتائج پر غور کرنا چاہیے، گفتگو کا ایسا پرسکون اور شفاف انداز اختیار کرنا چاہیے جس سے زندگی لڑائی کی آماجگاہ نہ بنے بلکہ اس کے ذریعے سے مسائل کی وجوہات، ان کے برے نتائج اور حل کی راہوں کو پتہ لگ سکے۔باہمی رشتوں اور مسائل کو حل کرنے میں لچک ایک دوسرے سے درگذر ہی سب سے بہترین علاج ہے۔
۲۔نرم دم گفتگو
شوہر اور بیوی ! آپ دونوں ہر گزیہ نہ سمجھیں کہ ایک دوسرے پر تنقیدی حملے یا مار پیٹ سے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی یا اس سے کوئی فائدہ حاصل ہو سکے گا۔ اس سے تو مسائل میں صرف اضافہ ہوگا۔آپ دونوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آپ دونوں ایک دوسرے کے دشمن یا آمنے سامنے کے فریق نہیں ہیں، بلکہ دونوں مل کر ایک فریق ہیں۔کیا آپ نے نکاح کے وقت یہ عہد نہیں کیا تھا کہ ایک ساتھ زندگی گذاریں گے ، اس کے مسائل کو ایک ساتھ مل کر انگیز کریں گے اور زندگی کا لطف مل کر اٹھائیں گے؟!
۳۔ صلح کرنے میں پہل کریں
دونوں میں سے کوئی بھی اس حال میںرات نہ گزارے کہ وہ اپنے شریک زندگی سے ناراض تھا یا اس سے جھگڑا کرکے سویا تھا۔یعنی بستر پر جانے سے پہلے دونوں کے درمیان صلح ہو جانی چاہیے۔ کوشش ہو کہ آپ اللہ کے رسول ﷺ کی اس گواہی کے مصداق بن جائیں جس میں آپ نے فرمایا: وخیرہما الذيیبدأ بالسلام یعنی دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کر جائے۔
۴۔مسائل کا ڈھیر نہ جمع ہونے دیں
کوئی بھی مسئلہ مانے آجائے تو اسے حل کرنے کی کوشش کریں۔ یہاں بھی کوشش یہ ہو کہ رات کو سونے سے پہلے پہلے مسئلہ کے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ کوئی بھی رائی کو پہار بنانے کی کوشش نہ کرے۔مسائل پیدا کرکے ان سے پیچھا چھڑانے یا خود کو بچانے کی کوشش نہ کی جائے ورنہ یہ مسائل بارود کی مانند پھٹ پڑیں گے۔
۵۔خود کو غالب رکھنے کی کوشش نہ کریں
زوجین کی طرف سے ایک بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ دونوں گیند کو اپنے پالے میں رکھنا چاہتے ہیں اور شروع میں ہی خود کو غلطیوں سے بری کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے کو خطا کار ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں کہ تمھاری وجہ سے ہی یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ ہٹ دھرمی اور ضد کا راستہ اپنا کر خود اپنی غلطی کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔حالانکہ ماہرین کی رائے یہ ہے کہدونوں میں سے کسی کو بھی اپنے موقف پر اڑنا نہیں چاہیے وہ بحق ہی کیوں نہ ہو، کیوں کہ ازدواجی زندگی مشارکت (باہم شریک ہو کر چلنا) کا نام ہے، مغالبت(ایک دوسرے پر غالب ہونے کی کوشش کرنا) کا نام نہیں ہے۔اڑیل پن کا مطلب ہے سطحیت، ہٹ دھرمی اور بے عقلی۔کبھی کبھی یہ اڑیل اور جمود پن اپنی ناک اونچی رکھنے اور اپنی عزت نفس کے لیے ہوتا ہے حالانکہ معلوم ہونا چاہیے کہ عزت اور کمال صرف اللہ کے لیے ہے۔کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو عیوب اور غلطیوں سے پاک ہو۔اس لیے غلطیوں کو صدور عین ممکن ہے، لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اگر کسی سے غلطی سرزد ہو جائے تو وہ اس کا اعتراف کر لے۔اور اپنے شریک زندگی کی غلطی کو معاف کردے۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: کل بنی آدم خطّاء، وخیر الخطّائین التّوّابون (ترمذی، دارمی)یعنی ہر ابن آدم سے خطا ہوتی ہے لیکن بہترین خطاکار وہ ہے جو توبہ کرلے۔
۶۔ضبط نفس
اسپینی شاعر باہیا بن باکودا نے کہا ہے: ’’زبان دل کا قلم اور عقل کا پیغامبر ہے۔‘‘ کسی فلسفی کا قول ہے کہ ’’کوئی بات جب تک تمھارے منہ کے اندر ہے ، تم اس کے مالک ہو، لیکن منہ سے نکلتے ہی تم اس کے مالک نہیں رہے۔‘‘
ان دو اقوال میں زوجین کے لیے یہ سبق ہے کہ دونوں اپنی زبان پر کنٹرول رکھیں۔ ممکن ہے غصہ کی حالت میں کوئی ایسی بات زبان سے بے خیالی میں نکل جائے جو ازدواجی زندگی کو ہی اپنے ساتھ بہا لے جائے اور زندگی بھر ندامت کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ محض اس بات کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی مول لے کر جہنم کا سزوار ہو جائے۔اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’بندہ اپنی زبان سے بے خیالی میں ایسی بات نکال دیتا ہے جو اسے جہنم میں پہنچا دیتی ہے۔‘‘(بخاری)
کبھی شوہر اپنی بیوی کویا بیوی شوہر کو کوئی ایسی بات کہہ دیتا ہے جس سے اسے دلی تکلیف پہنچتی ہے اور اس کے اس بات کو بھلانا مشکل ہوجاتاہے۔کبھی ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھا بیٹھتے ہیں، حالانکہ یہ کمزور شخصیت کی دلیل ہے۔کیوں کہ جو شخص دوسروں پر ہاتھ اٹھاتا ہے — خاص طور سے اگر ان دونوں کے درمیان شوہر وبیوی کا رشتہ ہے — تو یہ کمزور اور اخلاقی طور پر مفلس انسان ہونے کی دلیل ہے کیوں کہ وہ کیوں کہ گفتگو اور مہذب طریقے سے مسئلے کو حل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اسی لیے اللہ تعالی نے غصہ پی جانے والوں کے لیے بڑا اجر رکھا ہے۔’’اور اپنے رب کی طرف سے مغفرت اور اس جنت کی کی طرف دوڑنے میں ایک دوسرے سے سبقت کرو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین جیسی ہے ،جوان متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو فراخی وتنگی میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘(آل عمران: ۱۳۳۔۱۳۴)
کسی بزرگ کا یہ قول شاید کسی انسان کو اپنے غصے اور زیادتی پر قابو پانا سکھا دے: ’’اس شخص کے لیے خوش خبری ہے جس کی اپنی غلطیاں اسے دوسروں کی غلطیاں تلاش کرنے سے روک دیں۔‘‘ بتائیے کون ہے جو غلطیوںسے پاک ہو؟!
۷۔ذمہ داری قبول کریں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک دوسروں کے سامنے اپنی تصویر کو صاف وشفاف بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور خود کو ازدواجی ذمہ داریوں سے کنارے کر لیتا ہے اور تمام تر ذمہ داری دوسرے فریق پر ڈال دیتا ہے۔ضروری یہ ہے کہ دونوں اللہ کے ساتھ معاملے کو صاف رکھیں، خود کے ساتھ بھی اور دوسروں کے ساتھ معاملات کو صاف رکھیں اور اپنی ذمہ داریوں کو قبول کریں۔
۸۔نفس کے وسوسوں سے چھٹکارہ
ازدواجی زندگی کے اندر ماحول میں تبدیلی لانے کا ایک کارگر ذریعہ نفس کے وسوسوں سے خود چھٹکارا دلانا بھی ہے۔جب زوجین کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو محسوس ہو کہ ماحول کا رخ تنگ راستے کی طرف جا رہا ہے اور زندگی کسی مشکل سے دوچار ہونے جارہی ہے ، تو اس وقت بہتر یہ ہے کہ وقتی طور پر اس مسئلے کو چھوڑ دیا جائے اور بعد میں جب دونوں کا دماغ پر سکون ہو جائے اور ماحول بھی معمول پر آجائے، دونوں طرف کا غصہ ختم ہو کر حالات نارمل ہوجائیںتو پھر اس مسئلے یا مشکل کو حل کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔اس دوران مناسب ہے کہ دونوں کہیں تفریح کے لیے ساتھ نکل جائیں تاکہ ذہنی، جسمانی اور روحانی طور پر صاف ہو کر لطف اندوز ہو سکیں اور ذہنی سکون حاصل ہو سکے۔دونوں مل کر یہ طے کریں کہ تفریح کے لیے کس جگہ کا انتخاب کیا جائے وغیرہ۔
۹۔تحکیم
لیکن خدا نخواستہ اگر زوجین اپنے درمیان مسائل کا کوئی بھی حل تلاش کرنے میں ناکام رہیں تو علیحدگی یا طلاق کا سہارا لیں۔ اسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والوں میں شوہر اور بیوی دونوں کے گھر کے افراد شامل ہوں اور دونوں طرف سے ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جائے ذی علم ودانش مند اور تجربہ کار ہوں۔کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَإنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُوا حَکَماً مِّنْ أَہْلِہِ وَحَکَماً مِّنْ أَہْلِہَا إنْ یُرِیْدَا إِصْلاَحاً یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَہُمَا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْماً خَبِیْراً
tanveerafaqui@gmail.com
——