رمضان المبارک میں ہر کام کا اجر و ثواب ستر گنا بڑھ جاتا ہے، اس کا کیا سبب ہے۔ غور سے قرآن کا مطالعہ کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے میں قرآن مجید نازل ہوا ہے، جس میں مسلمانوں کو مکمل ضابطۂ حیات اور نظامِ زندگی عطا کیا گیا ہے۔ لہٰذا رمضان میں بڑے پیمانے پر قرآن کی تلاوت، ترجمہ و تفہیم اور کچھ حصہ حفظ کرنے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔
تراویح
فرض نمازوں کے ہم پابند ہیں ہی، اس ماہ میں نماز تراویح کا بھی ہم سب لوگ اہتمام کریں۔ ایک تو اس لیے کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں فرض نمازوں کے محاسبہ کے وقت ممکن ہے یہ نوافل اللہ کی خاص رحمت سے ہمارے کام آجائیں۔ دوسرے اس لیے بھی کہ قیامِ رمضان کے اس مختصر عمل کو حدیثِ پاک میں حضرت ابوذر غفاریؓ کے ایک سوال کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ’’جو شخص یہ نماز (تراویح) پڑھتا ہے اس کو پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔‘‘
عام طور پر خواتین افطار اور کھانے میں ایسی مشغول ہوتی ہیں کہ رات کا یہ حصہ آتے آتے تھک کر نڈھال ہوجاتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنی مصروفیات خصوصاً باورچی خانہ کی مصروفیات کو اچھی طرح منظم کریں اور تراویح کا اہتمام کریں۔ تاکہ عبادت میں یکسوئی حاصل ہوسکے۔
جلدی سوجائیے
نمازِ تراویح کے بعد یہ اہتمام ضروری ہے کہ جلدی سوجائیں تاکہ سحری کے لیے بروقت اٹھا جاسکے کیونکہ سحری کے وقت کچھ کھانے پینے کا عمل مسنون ہے اور حضورﷺ نے اس کی تاکید فرمائی ہے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ توفیق بخشے تو دو چار، آٹھ نوافل ادا کرنا بھی نفع کا سودا ہوگا۔ ممکن ہو تو اس عمل کو بھی اختیار کیا جائے۔
روزہاور معمولاتِ زندگی
روزہ اسلام کا چوتھا ستون ہے اور یہ ہر عاقل و بالغ مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، بشرطیکہ کوئی شرعی عذر رکاوٹ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ انسان پر تزکیۂ نفس اور تقویٰ و طہارت حاصل کرنے کے لیے فرض کیا ہے۔ لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ اس کے جملہ مقاصد اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر روزہ رکھیں۔
حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ ان میں سے ایک دروازے کا نام ریان ’’سیراب کرنے والا‘‘ ہے۔ اس دروازے سے صرف روزے داروں کا داخلہ ہوگا۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے (اللہ پر) ایمان رکھتے ہوئے احتساب کے ساتھ رکھے تو اس کے پہلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور جس شخص نے رمضان میں (اللہ پر) ایمان رکھتے ہوئے احتساب کے ساتھ قیام کیا تو اس کے پہلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اور جس شخص نے شب قدر کا قیام (اللہ پر) ایمان رکھتے ہوئے احتساب کے ساتھ کیا تو اس کے پہلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔‘‘
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ بولنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کو نہیں چھوڑتا تو اللہ کو کچھ پرواہ نہیں کہ وہ (روزے میں) کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کتنے روزے دار ہیں جن کو ان کے روزوں سے صرف بھوک اور پیاس حاصل ہوتی ہے اور کتنے رات کو قیام کرنے والے ہیں کہ ان کو ان کے قیام سے صرف ’’رت جگا‘‘ حاصل ہوتا ہے۔‘‘
لہٰذا روزے کا تقاضا ہے کہ ہم فرائض کا اہتمام کریں اور منکرات سے بچیں اور حلال و حرام کی تمیز کریں، رزقِ حلال اور صدق مقال کا اہتمام کریں اور باہم ہر مسلمان ایک دوسرے کی خیرخواہی کا حق ادا کرے، پڑوسیوں، رشتے داروں، اولاد، والدین، ملازمین غرض سب کے حقوق ادا کریں تب جاکر روزے کے حقیقی مقاصد حاصل کرنے میں ہم کامیاب ہوسکتے ہیں۔
سحری کا اہتمام کیجیے
رمضان میں بعض لوگ سحری نہیں کھاتے۔ یہ درست نہیں۔ دیر سے سونے اور نیند میں خلل کے سبب لوگ اسے قابلِ توجہ نہیں سمجھتے۔ جبکہ سحری کی بڑی فضیلت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’بے شک تمہارے لیے سحری میں برکت ہے۔‘‘
اس لیے رمضان کے مہینے میں بغیر سحری کے روزہ رکھنا ایک خاص برکت سے محرومی ہے۔
فہم قرآن کلاسز کا اہتمام
رمضان نیکیوں کا موسمِ بہار ہے اور روزے کی وجہ سے لوگوں کے دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جہاں لوگ انفرادی عبادت کا اہتمام کررہے ہوتے ہیں، وہاں وہ مطالب قرآن کی تہ تک پہنچنے کے بھی مشتاق ہوتے ہیں۔ اس قلبی کیفیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا خصوصی اہتمام کریں۔ محلے پڑوس کی خواتین کو جمع کرکے کسی اردو تفسیر قرآن یا ترجمہ قرآن کو پڑھنے کا اہتمام کریں۔
طاق راتوں کا اعتکاف
رمضان المبارک کے آخری عشرے کی پانچ راتیں، ۲۱،۲۳،۲۵،۲۷ اور ۲۹ کے بارے میں حتمی طور پر فیصلہ کرلیا جائے کہ یہ راتیں اعتکاف اور شب بیداری کے لیے مختصر رہیں گی۔ ان طاق راتوں کا اعتکاف حضرت عبداللہ بن انیسؓ کی روایت سے ماخوذ ہے۔
حضرت عبداللہ بن انیسؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میں جنگل میں سکونت پذیر ہوں اور میں وہاں اللہ کی مہربانی کے ساتھ نماز ادا کرتا ہوں۔ آپؐ مجھے ایسی رات کے بارے میں بتائیں کہ جس کے لیے میں مسجد نبوی میں آجاؤں؟ آپؐ نے فرمایا: تیسویں کی رات آجاؤ۔ ان کے بیٹے سے دریافت کیا گیا کہ تمہارے والد کیسے کرتے تھے؟ انھوں نے بیان کیا کہ وہ مسجد نبوی جاتے اور جب نماز عصر ادا کرتے تو پھر وہاں سے صبح کی نماز ادا کرنے تک نہیں نکلتے تھے۔ جب صبح کی نماز ادا کرلیتے تو سواری کو مسجد نبوی کے دروازے پر پاتے اور اس پر سوار ہوکر چلے جاتے۔‘‘
کثرتِ انفاق
رمضان اور انفاق کا بڑا مضبوط تعلق ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس ماہ مبارک میں صدقۂ فطر کو تو لازمی قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ کثرتِ انفاق اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس ماہ کو ’’مواسات‘‘ غریبوں کے ساتھ ہمدردی و خیرخواہی کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ کثرتِ انفاق دراصل کثرتِ اجر کا ذریعہ ہوگا کیونکہ اس میں تمام اعمال کے اجر کی حدیں لامحدود ہیں اور ناقابلِ تصور حد تک اللہ تعالیٰ بڑھا دیتا ہے۔
شہر مواسات ہونے کے سبب ہی اللہ تعالیٰ کے رسول نے زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے بھی سال گزرنے کی ڈیڈ لائن اسی مہینے کو منتخب فرمایا۔
اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرتے ہوئے اپنے رب سے قرب حاصل کرنے اور جنت کے حصول کی کوشش کریں۔
آخری گزارش
آخر میں ایک مرتبہ پھر یہ بات دہراؤں گا کہ رمضان المبارک کے کسی بھی لمحہ کو ضائع نہ کیا جائے اور ہر لمحہ کو بامقصد بنادیا جائے کیونکہ یہ لمحات ہی ہمارے کل کو روشن اور تابندہ کرنے والے ہیں اور ہماری اس دنیا کو بھی سنوارنے والے ہیں، اس لیے ان تاریخ ساز لمحات کی کماحقہ قدر کیجیے اور ہمارے اس پیغام کو بار بار پڑھئے اور اس سرکلر کا اختتام دعائے رمضان سے کرتا ہوں۔ آپ رمضان میں کثرت سے اس کو ورد زبان رکھیں:
’’حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے بتائیں کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ فلاں رات شب قدر ہے تو اس میں مجھے کیا کرنا چاہیے۔ آپؐ نے فرمایا تو کہہ:
اللّٰہم انک عفو تحف العفو فاعف عنی۔ (مسند احمد، سنن ابن ماجہ، جامع الترمذی)
’’اے اللہ! بلاشبہ تو معاف کرنے والا ہے۔ معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، تو مجھے معاف کردے۔‘‘
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ماہ رمضان المبارک کی برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
——