شہر کے ایک بڑے چوراہے پر اخبار بیچنے والا آواز لگا رہا ہے ’’آج کی تازہ خبر ٹو وھیلر پر پیچھے بیٹھنے والی لیڈیز کے لیے ہیلمیٹ کمپلسری‘‘
اسکوٹر پر پیچھے سوار میڈم نے سنا تو گویا دھماکہ ہوگیا۔ پتی دیو پر جیسے برس پڑیں۔ ’’سنا آپ نے یہ کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ صاحب نے نسوانی ذہنیت کا خیال کیے بغیر حقیقت پر نظر رکھتے ہوئے کہہ دیا، ٹھیک ہی تو ہے۔ ٹو وھیلر پر پیچھے لیڈیز دونوں ٹانگیں ایک طرف لٹکا کر بیٹھ جاتی ہیں۔ توازن بگڑ جانے پر گرجاتی ہیں تو مردوں سے زیادہ انہی کو خطرہ ہوتا ہے۔
بات ٹھیک تھی مگر میڈم کو پسند نہ آئی اور وہ آپے سے باہر ہوگئیں۔ آج ہی تو میں نے پارلر جاکر دس ہزار روپئے میں بیوٹی کرائی ہے ابھی تو پچاس لوگوں نے بھی نہیں دیکھا، نہ کسی نے حسد آمیز نظر ڈالی۔ نہ کسی نے سینہ پیٹا نہ کسی کے دل پر تیر چلا، نہ کسی نے آہیں بھریں، ہیلمیٹ میں چھپا لوں تو قیمت کیسے وصول ہوگی؟
میڈم نے اعلان کردیا: ’’میں تو بالکل نہ مانوں۔ اورقدرت اس بددماغی پر قہقہے لگانے لگی ’’دیکھو رے دیکھو۔ آج کی ناری، اس کو جان سے زیادہ بیوٹی پیاری۔‘‘
۱۸؍اپریل کو ہریانہ ویمن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ (خواتین و اطفال فلاح و بہبود) ڈپارٹمنٹ نے اپنے ملازمین، مردوخواتین دونوں کے لیے ایک خاص ’’روایتی‘‘ ڈریس کوڈ کے استعمال کا آرڈر جاری کیا۔ ’’جہاں خاص طور سے خواتین جنیز و ٹی شرٹ میں غیر شائستہ وغیر مہذب نظر آتی ہیں۔ خواتین آفس میں ساڑھی یا شلوارقمیص اور دوپٹے کی پابندی کریں اور مرد صرف پینٹ شرٹ استعمال کریں۔‘‘
خود خواتین کے تحفظ آفس و راستوں میں بدقماش لوگوں کی دست درازی اور ان کے ہاتھوں صنف نازک کے استحصال سے بچانے کی نیز دفتر کا ماحول صاف شفاف رکھنے کی غرض سے جاری کردہ اس آرڈر کو جنس زدہ لوگوں خاص طور پر میڈیا میں گھسمادر پدر آزاد قسم کی ذہنیت والی کالی بھیڑوں نے متنازع بنادیا۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ڈپارٹمنٹ کے ملازمین خاموش ہیں، اس آرڈر کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا رہے ہیں۔ لیکن وہ میڈیا ہی کیا جو بے بات کا بتنگڑ نہ بنادے، ہنگامہ برپا نہ کردے۔ پانی میں آگ نہ لگادے۔
ڈپارٹمنٹ اور آفس والے ہزار اس جیسے ڈریس کوڈ کے حق میں ہوں، وہ لاکھ شائستگی و تہذیب کو اختیار کرنا چاہتے ہوں، آہیں بھرنے والے نفسیاتی بیماریوں کے شکار تو ایسی باتیں کبھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتے کہ اس طرح انھیں اپنی تسکین کا سامان پھر کیسے ملے گا؟ چنانچہ میڈیا میں ڈریس کوڈ آرڈر کو واپس لینے کا مطالبہ شروع ہوگیا۔
اس سے پہلے آندھرا پردیش کی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ۲۰۱۱ء میں اس کی پرفارمنس بہت اچھی رہی ہے۔ ایک گھنٹہ کی پریس کانفرنس میں ریاستی ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) نے یہ بھی انکشاف کردیا کہ اس سال میں تقریباً ایک ہزار تین سو عورتوں کے ساتھ جبر و زیادتی کی رپورٹیں پولیس میں لکھوائی گئی ہیں۔ جن وارداتوں کی رپورٹیں نہیں لکھائی گئیں یا جو معاملات باہمی رضا مندی سے انجام پاتے ہیں، ظاہر ہے ان کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ تو صرف خلافِ مرضی، جبروزیاتی چھیڑ خانی اور دست درازی کی باتیں ہیں اور وہ بھی جو پولیس ریکارڈ میں درج ہوئیں کہ یوں بھی باہمی رضا مندی کے معاملات کو قدامت پرست یا بنیاد پرست جرم یا عیب مانیں تو مانتے رہیں۔ مغربی تہذیب، مغرب زدہ ماڈرن سوسائٹی اس طرف انگشت نمائی کو انفرادی وشخصی آزادی میں مداخلت قرار دے کر الٹا جرم قرار دیتی ہے، کورٹ اور قانون اس کو جرم نہیں مانتے۔
کانفرنس میں اخباری نمائندوں نے ڈی جی پی سے اعداد وشمار میں ہونے والے اس بے تحاشہ اضافہ کے اسباب پر روشنی ڈالنے کے لیے کہا۔ جس کا مظاہرہ ملک کی راجدھانی کو ’’ریپ کپیٹل‘‘ کا خطاب دلا رہا ہے کہ جہاں کسی بچی سے لے کر بوڑھی تک کی عزت محفوظ نہیں رہی ہے اور جس کی تفصیلات میڈیا چٹخارے لے لے کر دلچسپ و پرکشش بناکر شائع کرتا ہے کہ کتنے اخبار، جرائد ورسائل اور میگزین انہی کہانیوں کے سہارے، مذہبی و دھارمک، اصلاحی، علمی، ادبی اور سنجیدہ جرائد و رسائل کے مقابلے میں اپنی اشاعت کے ریکارڈ توڑرہے ہیں۔
ڈی جی پی کے منہ سے آخر سچی بات بے اختیار نکل گئی، ’’اس کا سبب عورتوں کا فیشن ہے۔ طرزِ رہائش ہے، لباس کا اسٹائل ووضع قطع ہے۔ عورتوں کا اشتعال انگیز وپرکشش لباس اہم سبب ہے۔ جو جنسی طور پر عورتوں کے ہراساں کیے جانے کی بڑی وجہ ہے۔‘‘
ریاستی پولیس کے سب سے اعلیٰ و سب سے زیادہ ذمہ دار عہدہ ڈی جی پی تک پہنچنے والے کی تمام تر قابلیت و صلاحیت کے باوجود اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکے کہ اس دور میں ان کا کھرا سکہ نہیں چلتا۔ یہ گئے گزرے وقتوں کے لوگ موجودہ نسلوں کی اصطلاح ’’جنریشن گیپ‘‘ کو ہمہ وقت اپنے پیش نظر نہ رکھنے کے باعث بار بار اپنی سبکی کراتے ہیں۔
جو بات ڈی جی پی آندھرا پردیش نے کہی وہ تو بہت پہلے دہلی کے لیفٹنٹ گورنر، دہلی پولیس کے افسر یوپی کا لجوں کے پرنسپل، دہلی کے ایک کالج کی خاتون پرنسپل، یونیورسٹی کے ذمہ دار اور دوسرے بہت سے لوگ بار بار کہہ چکے ہیں۔ بیچاروں کو کپڑے بچانے مشکل ہوگئے۔ قدم پیچھے ہٹانے پڑے۔ بیانات واپس لینے پڑے۔
بات اس ملک تک محدود نہیں، خود مغربی دنیا کے لوگ بھی اس حقیقت کا زوروشور سے اعتراف کرنے پر مجبور ہیں، لیکن سچ بولنے کا انجام بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ مکہ کے اہلِ قریش کا معاملہ نہیں ہے جن کو ڈیڑھ ہزار سال بعد بھی وہ لوگ دورِ جہالت سے منسوب کرتے ہیں جو ان کے پاسنگ بھی نہیں کہ اگر پیغمبر اسلام نے صدق و امانت کا ریکارڈ شکن عملی نمونہ پیش کیا تو انھوں نے آپؐ کی عظمت کا اعتراف کیا۔ آپ کا نام لے کر پکارنے کی بجائے ادب و احترام کے ساتھ امین و صادق کہہ کر پکارنے لگے۔
آج وہ دور نہیں، اب تو کھلے عام کہا جاتا ہے، جسے موقع نہیں ملتا وہ ایماندار بنتا ہے۔ راجہ ہریش چندر بنا پھرتا ہے،بہت دیکھے ہیں، ایسے ہریش چندر۔
مغربی دنیا کے لوگوں کو منہ کھولتے ہی جواب مل گیا۔’’بے شرم مورچہ‘‘ قائم ہوگیا۔ عورتوں اور مردوں نے مل کر انسانیت کا جامہ اتار پھینکا۔ مادر زاد برہنہ ہوکر انسانوں کی طرح نہیں حیوانوں کی طرح سڑکوں پر نکل آئے۔ نعرے لگائے، فوٹو کھنچوائے، خوب فلمیں بنوائیں، بحث ومباحثے کیے، ہم سے نہ کہو، کیا پہنیں، ان سے کہو، ہمیں نہ چھیڑیں۔ دہلی، یوپی اور مدھیہ پردیش کے کالجوں کے مردوں اور خواتین پرنسپلوں، مینجنگ کمیٹیوں کے ذمہ داروں نے آرڈر جاری کیے، خواتین ٹیچر اور طالبات ڈریس کوڈ اختیار کریں تو سیتا، ساوتری، پتی ورتا اور ستی ماتا جیسے الفاظ کے ساتھ بھارت ماتا کی پوجا اور مشرقی تہذیب کی باتیں کرنے والوں نے بھی آسمان کے ساتھ زمین کو بھی سرپر اٹھالیا۔ تم کون ہوتے ہو ہمیں ہدایات دینے والے؟ حقوق نسواں پر دست اندازی کرنے والے؟ انفرادی آزادی میں مداخلت کرنے والے!
میڈیا جمہوریت کا پانچواں ستون ہے۔ قوم کی رہنمائی کرتا ہے، عورتوں کے حقوق کی باتیں کرتا ہے، اس کی عزت و آبرو کے تحفظ کے نام پر بھی خوب شور مچاتا ہے۔ وہ انفرادی آزادی اور حقوقِ نسواں کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔ شاید اسی لیے خواتین کی فل پیج عریاں تصاویر شائع کرکے اپنی اشاعت بڑھاتا ہے۔ غالباً اس کے بغیر میڈیا کا فریضہ ہی ادا نہیں ہوگا۔ اس کی شناخت نہیں ہوگی۔ اشاعت نہیں بڑھے گی کہ یہ اس کا کاروباری پیشہ ورانہ مشن و فریضہ ہے۔
مقابلۂ حسن میں کپڑے کی چھوٹی چھوٹی کترنیں لپیٹ کر اسٹیج پر آنا، ٹرک کے ٹائر کے اشتہار کے لیے بھی فحش و عریاں طریقہ اختیار کرنا، بڑے بڑے پوسٹروں اور ہولڈال پر عورت کے حسن کو پروسنا، وقت کی ضرورت ہے۔
وہ بھی دن تھے ، بہت سے مرد نیکر و جانگیہ میں ملبوس گلی کوچوں میں گھوم لیتے تھے، لیکن لڑکیاں اور عورتیں سرتا پا پردہ نشین اور برقع پوش نہیں تو بھی جسم کو چھپائے رہتی تھیں، اس کے برعکس اب مردوں کے جسموں پر کپڑے بڑھے ہیں اور عورتوں نے اپنے کپڑے گھٹاتے گھٹاتے اتار دیے ہیں کہ وہ خود ہی بکاؤ مال، سراپا نمائش اور ڈیکوریشن پیس بن گئی ہیں۔ خود فروشی کرتی ہیں، انھیں اعتراض صرف یہ ہے کہ خلافِ مرضی کوئی کچھ نہ کہے اور نہ کرے۔
ان دیویوں کو کون سمجھائے، چور، ڈاکو، لٹیروں اور دیگر جرائم پیشہ لوگوں کی کوئی حمایت نہیں کرتا۔ پولیس ان کو پکڑتی ہے، قانون ان کے خلاف اپنی کارروائی کرتا ہے، سماج ان کو برا سمجھتا ہے۔ سب ان سے برے کاموں سے باز آنے اور دور رہنے کے لیے کہتے ہیں، سمجھاتے ہیں، سزا دیتے ہیں، مگر وہ کسی کی نہیں مانتے اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ ایسے میں اپنی اور اپنی قیمتی اشیا، دولت وثروت اور سرمایہ کی حفاظت کرنا خود ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔ پولیس پر انحصار کرنے سے کام نہیں چل سکتا۔
——