ڈالر کے مقابلے روپئے کی گرتی قدر، آسمان چھوتی مہنگائی، صنعتی ترقی کی شرح نمو میں پست ترین گراوٹ، کساد بازاری، غیر ملکی سرمایہ کاروں کی عدم اطمینان اورغیر مناسب سیاست کے سبب ملکی معیشت کے سامنے اس وقت سخت حالات آکھڑے ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق حالیہ دنوں میں ایک ہزار ارب روپئے (تقریباً بیس ارب ڈالر) ہندوستانی مارکیٹ سے سرمایہ کاروں نے نکال لیا ہے۔ ادھر سرمایہ کاری کے سلسلہ میں ریٹنگ یا گریڈنگ کرنے والے اور ایس اینڈ پی (Standard & Poor) ہندوستان کا گریڈ نیچے کردینے کا انتباہ دیا ہے۔ اگر یہ ادارہ ہندوستان کی ریٹنگ کم کردیتا ہے تو اس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد کمزور ہوگا اور ان کا یہاں لگا ہوا سرمایہ بتدریج واپس بھی جانے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ صنعتی ترقی اور روزگار پر اس کا خراب اثر پڑے گا۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ملک میں نئی سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوں گے بلکہ سرمایہ کاری کے برعکس عمل کے نتیجہ میں پہلے سے حاصل روزگار کم ہوں گے اور اس طرح برسرِ روزگار لوگوں کو چھٹنی کے عمل سے گزرنا پڑے گا جو بے روزگاری کا جنم دے گا۔
اس سال ۲۰۱۲ء میں صنعتی ترقی کی رفتار نہایت مایوس کن رہی ہے اور شیئر بازار مسلسل غیریقینی کیفیت سے دوچار رہا ہے۔ ملک میں پٹرول کی قیمتوں میں بار بار اضافہ نے ایک طرف ملکی عوام کے اعتماد کو کمزور کیا ہے دوسری طرف عوام کی پیٹھ پر ناقابلِ برداشت مہنگائی کو بوجھ بڑھایا ہے۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اپنی معاشی زندگی کے مسائل کو لے کر عام آدمی بھی پریشانیوں کا شکار ہے۔
گزشتہ سالوں سے پوری دنیا ایک اقتصادی بدحالی اور ابتری کا شکار ہے، یونان دیوالیہ ہوچکا اور اسپین تقریباً دیوالیہ ہونے کی تیاری میں ہے۔ اس کیفیت نے یوروپی یونین کے ممالک کو ایک عجیب و غریب مشکل میں مبتلا کررکھا ہے۔ جبکہ گزشتہ ایک سال سے یوروپی یونین یونان کے لیے ’بیل آؤٹ‘ پیکچ کی تیاری اور تدابیر تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے اور اب ایک اور ملک اسپین اپنے دیوالیہ ہونے کااعلان کرنے والا ہے۔
موجودہ دنیا میں جاری نظام معیشت کا معاملہ یہ ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ اساس پر قائم ہے اور اس کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی اور جو بھی منفعت کے ذرائع اور وسائل ہوسکتے ہیں ان تمام پر قبضہ کرلیا جائے اور اس کے حکومتوں اور عالمی سطح پر بڑے بڑے سرمایہ داروں نے ایسے حکومت تی نظام وضع کرائے ہیں جو دنیا بھر کے وسائل اور دنیا بھر کے انسانوں کی دولت کو ان کی تجوری میں لاڈالنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ ایسے میں پوری دنیا کو ایک کھلا مارکیٹ قرار دیا گیا اور اس راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو نئے قوانین بنواکر دور کیا گیا اور دنیا کو یہ باور کرایا گیا کہ یورپ، امریکہ اور دنیا کے جن خطوں سے بھی لوگ کسی ملک میں جائیں گے وہاں سرمایہ کاری کریں گے تو اس سے وہاں لوگوں کو روزگارمہیا ہوگا، غربت و افلاس دور ہوں گے اور ترقی کا عمل تیز ہوگا۔ یہ اس کے ظاہری پہلو تھے جنھیں حسین بناکر پیش کیا گیا اور پھر ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے غریب ممالک کے استحصال کا عالمی ایجنڈا پورا کرنے کی کوشش ہوئی۔ غریبوں کا پیسہ منافع کی شکل میں سرمایہ داروں کو پہنچے گا۔ غیر ملکی بینکوں سے قرضے بانٹنے شروع کیے اور سود کی شکل میں عوام کا خون چوسنا شروع کردیا اور حکومتوں کو مقروض بناکر ان کا سونا اور بانڈس کو اپنی تجوری میں بھرڈالا۔ اور اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ترقی پذیراور تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک اس سرمایہ دارانہ نظام کے خونیں پنجوں میں پھڑپھڑارہے ہیں۔
ہمارا ملک ہندوستان اپنی تشکیل جدید کے ابتدائی دور سے غریب پرور اور اشتراکی نظریات سے قربت رکھنے والا ایک ملک تھا مگر سرمایہ دارانہ نظامِ جمہوریت کے سیلاب کے سامنے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکا اور عالمی سرمایہ داروں کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول کر ان کا غلام ہو بیٹھا۔ اور اب جبکہ عالمی معیشت اپنے بنیادی نقائص اور کمزوریوں کے سبب انہدام کے کگار پر ہے۔ ہمارا ملک اس سے محفوظ کیسے رہ سکتا ہے۔
جب ’’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘ مہم پورے یوروپ میں پھیل کر اس بات کا اعلان کررہی ہے کہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام اپنے گھر میں ہی آخری سانسیں لے رہا ہے تو وہ دوسرے ممالک کے لیے نجات دہندہ اور مفید کیسے ثابت ہوسکتا ہے۔
ہمارا ملک ہندوستان اپنے وسائل کے اعتباد سے نہ صرف خود کفیل ملک ہے اور ہوسکتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی بہت کچھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر ہندوستان کے بے ایمان اور کرپٹ سیاسی گروہوں نے جس بے دردی ملک کو لوٹا اور اب بھی لوٹ رہے ہیں اس سے اندیشہ تو یہی ہے کہ یہ لوگ ایک نہ ایک دن ہندوستان کو بھی یونان، اسپین اور امریکہ کے انجام سے دوچار کرکے چھوڑیں گے۔
لیکن حالیہ دنوں میں کرپشن کے خلاف کرپٹ لوگوں کی جو تحریک اٹھی وہ اب اپنے منطقی انجام کے قریب پہنچنے والی ہے۔ کرپشن مخالف اس تحریک نے جیسے جیسے سیاست کا چولا بدلا ہے اس کا دم خم جاتا رہا ہے۔ لیکن اس تحریک کا ایک فائدہ یہ ضرور ہوا ہے کہ اس نے کرپشن اور سیاسی فساد کے خلاف عوام میں بیداری ضرور پیدا کی ہے اور اب جبکہ پورا ملک پر مہنگائی یا کساد بازاری اور معاشی کمزوری کے سبب غیر یقینی طاری اس بات کی ضرورت شدید ہے کہ کرپشن مخالف مہم کو مخلص قائدین فراہم کیے جائیں۔
پوری دنیا کی معاشی صورتِ حال عام طور پر ہندوستان اقتصادی کیفیت خاص طور پر نظریاتی لوگوں سے اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ وہ اس معاشی بحران سے نکلنے کی راہ بھی تجویز کریں اور کرپشن سے نجات کا عمل راستہ بھی ہندوستانی عوام کو سمجھائیں۔ اس لیے کہ آج ہندوستان کے عوام ان دونوں مصائب سے نجات کے لیے کسی ’اوتار‘ کے انتظار میںہیں۔
شمشاد حسین فلاحی